Writing Table - Article No. 998

Writing Table

رائٹنگ ٹیبل - تحریر نمبر 998

وہ کہانیاں لکھتا تھا اور بے تحاشا لکھتا تھا۔ بچپن سے آج تک جتنی بھی کہانیاں اس نے لکھی تھیں،وہ اس کے قلم پر خود بخود وارد ہوگئی تھیں۔ بہت دفعہ اس نے چاہا کہ وہ آج کہانی نہیں لکھے گا مگر کہانی اس کا گلا دبانے لگتی۔

ہفتہ 30 جنوری 2016

عمار مسعود:
وہ کہانیاں لکھتا تھا اور بے تحاشا لکھتا تھا۔ بچپن سے آج تک جتنی بھی کہانیاں اس نے لکھی تھیں،وہ اس کے قلم پر خود بخود وارد ہوگئی تھیں۔ بہت دفعہ اس نے چاہا کہ وہ آج کہانی نہیں لکھے گا مگر کہانی اس کا گلا دبانے لگتی۔ اس کی سانسوں کو تنگ کرتی تھی۔ اس کی نبضوں میں تشنج پیدا کردیتی تھی۔ وہ پھر مجبوراً اٹھتا اور کہانی لکھتا۔
کہانی لکھتے ہوئے اس کا قلم ایسے فراٹے بھرتا کہ جیسے سوچ کے سفر سے آگے نکل جانا چاہتا ہو۔ ایسا بھی ہوا کہ اس نے سوچنا بند کردیا مگر قلم چلتا رہا اور کہانی ہوگئی۔
جب وہ چھوٹا تھا تو اس نے اور اس کی ماں نے بہت فاقے کیے۔ بھوک ان کے گھر کا رستہ دیکھ کر وہیں ٹھہر گئی تھی۔ ماں کئی گھروں میں کام کرتی تھی، برتن مانجھتی، پوچے لگاتی اور وہ بھوک سے بلکتا، گرتا پڑتاکوٹھڑی میں قید رہتا تھا۔

(جاری ہے)

شام کو جب ماں آتی تو اس کے بدن سے اسے کھانے ہی کی خوشبو آتی تھی۔ مامتا کا احساس اس کے لیے ہمیشہ سے تازہ روٹی کی باس جیسا تھا۔ گرم گرم، خوشبودار اور اطمینان بخش۔ جس دن ماں اور وہ دو وقت کی روٹی کھاتے وہ دن اس کے لیے عجیب سرمستی کا دن ہوتا۔ وہ تمام شام ماں کی طرف دیکھ کر کلکاریاں مارتا۔ اس کے جسم سے لپٹتا اور کھیلتا رہتا تھا۔
بہت سے لوگ جب اس سے سوال کرتے تھے کہ اس نے پہلی کہانی کب لکھی؟ تو وہ ڈر کے مارے سچ نہیں بولتا تھا، اس لیے کہ کہانی تب سے اس کی گرفت میں تھی جب وہ لفظوں سے بھی ابھی شناسا نہیں ہوا تھا۔
اس کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ کہانیاں کس طرح تلاش کرے۔بلکہ اس کا تو المیہ یہ تھا کہ کہانیاں خود اسے ڈھونڈ نکالتی تھیں۔ وہ گھر میں ہو، سفر میں ہو، کھانا کھا رہا ہو، پیدل جارہا ہویا ریڈیو سن رہا ہو، کوئی نہ کوئی کہانی اس پر حاوی ہوجاتی تھی اور اپنے آپ کو اس سے لکھوا کر ہی دم لیتی تھی۔
جب اس نے پہلے پہل لفظوں کو جاننا شروع کیا تو وہ بڑی دیراُنہیں دیکھتا رہتا، ان سے کھیلتا رہتا۔
لفظ اس کے اتنی جلد دوست بنے کہ اسے ماں بھی بھول گئی اور بھوک بھی۔ وہ کسی گندے سے کاغذ کو زمین سے اٹھا کر کسی پرانے قلم سے اس پر چند لفظ لکھتا تو وہ اس کے گرد رقص کرتے،گاتے، مسکراتے تھے۔یہ کیفیت اسے اتنا سرشار کرتی کہ وہ اور لفظ لکھتا۔ کاغذ نہ ملتا تو دیوار پر لکھنے لگتا۔ قلم نہ ہوتا تو مٹی پر انگلی سے لکھتااور دیر تک لکھتا تھا۔
جانے کس طرح سرکاری سکول میں رہ کر اس نے میٹرک کیا۔
پڑھائی میں وہ کبھی بھی اچھا نہیں تھا۔ کلاس میں بھی وہ ماسٹروں کے پڑھائے ہوئے لفظ دیکھتا رہتا۔ کہانیاں سمیٹتا رہتا۔ میٹرک کا نتیجہ آنے سے پہلے اس کی تھکی ہاری، محنت کش اور بیمار ماں کا پرچہ حل ہوچکا تھا۔ کہانی کا یہ کردار اس کی زندگی کے ڈرامے سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا تھا۔
اب پہلی بار اس کو معاش کی فکر ہوئی۔ وہ سارے معاملات جو تمام عمر ماں نبیڑا کرتی۔
وہ اچانک اُس سے اِس طرح متصادم ہوئے کہ کچھ عرصہ تووہ بوکھلایا پھرا۔ پھر اس نے بہت سی ملازمتیں کیں۔ سڑکوں پر روڑی کوٹنے سے لے کر ہوٹلوں میں بیرا گیری تک۔ ہر جگہ اس نے چند کہانیوں کو اپنا منتظر پایا۔ جو بے بسی سے اس کی جانب دیکھتیں، اس سے لفظ کی درخواست کرتیں اوروہ مجبوراً انہیں گلے لگا لیتا۔ اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ یہ کہانیاں کسی اچھے قلم سے کسی صاف ستھرے کاغذ پر اُتارتا۔
وہ تو جو کچھ سامنے آتا اس پر کہانی لکھ دیتا۔ کٹی پتنگ پر، سگریٹ کی ڈبی پر، خالی لفافے پر یا پھر دیوار پر۔ ہاں اب کبھی کبھی اس کے دل میں یہ چور خواہش ضرور سر اٹھاتی تھی کہ اس کے پاس لکھنے پڑھنے کے لیے آرام دہ کرسی ہو،ایک میز ہو جس کے اوپر صاف،فل سکیپ،چکنے سفید کاغذ ہوں۔تین چاراچھے قلم پڑے ہوں اور پھر وہ ان کہانیوں کو تکریم دے، تعظیم دے۔

جانے کیسے چندادبی رسالوں نے اس کی کچھ کہانیاں چھاپ دی تھیں۔ اُس نے تو کبھی کسی سے ان کہانیوں کو چھپوانے کی درخواست نہیں کی۔ نہ کسی ادبی گروہ کا رکن بنا۔ وہ تو ان کہانیو ں سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ یہ تو اُس کے نزدیک بُری عادت تھی جس سے وہ نجات حاصل کرنا چاہتا تھا مگر اس کا نام ان کہانیوں سے بنتا جارہا تھا۔ لوگ اس کوعہدِحاضر کا ایک بڑا کہانی کا رکہنے لگے تھے۔
مگر وہ ان باتوں سے بے خبر پیٹ کی آگ بجھا رہا تھا۔ کہانیوں سے دامن بچا رہا تھا۔
اس نے ایک اچھّی ملازمت کے لیے اخبارات میں انٹرویو دئیے۔ ٹی وی کے چکر لگائے، ریڈیو کے برآمدوں میں گھنٹوں انتظار کیا، مگر کہیں بات نہ بنی۔اس لیے کہ سب تعلیم کا پوچھتے تھے۔ وہ انہیں سمجھاتا کہ تعلیم کا کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کہانی تو وحی کی طرح ہوتی ہے، نازل ہوتی ہے۔
مگر کہیں بھی اس کو ملازمت نہ ملی۔ جس کی ایک وجہ تعلیم کی کمی اور دوسری اس کا اصرار تھا کہ وہ صرف کہانی لکھے گا۔اپنے قلم کا کوئی دوسرا مفہوم وہ جانتا ہی نہیں تھا۔
اس نے تمام عمر اپنی کوئی کہانی لکھ کر اسے دوبارہ پڑھا نہیں۔ اس کے پاس پڑھنے کی فرصت ہی کہاں تھی۔ وہ ایک کہانی سے بہ مشکل فارغ ہوتا تو کہانیوں کا ایک ہجوم پھر اس کواپنے حصار میں لے لیتا۔
لکھتے لکھتے اس کے ہاتھ تھک جاتے۔ سوچتے سوچتے اس کا دماغ سُن ہوجاتا۔مگر کہانیاں کبھی دبے پاؤں، کبھی تیز روی سے اس کے گرد گھیرا ڈال دیتیں۔
کچھ دوستوں نے جب اسے کتاب چھپوانے کا مشورہ دیاتو وہ حیران رہ گیا کیونکہ وہ کہانی لکھنے کے تکنیکی محاسن تو جانتا ہی نہیں تھا۔ وہ تو بس کہانیاں لکھتاتھا۔ مگر کتاب چھاپنے کا مشورہ پھر بھی اس نے اس لیے قبول کرلیا کہ عسرت اور افلاس اب اس کے گرد کہانیوں کی طرح ناچنے لگے تھے۔
کہانی اور بھوک کی اس کشمکش میں گو فتح ہمیشہ ہی کہانی کی ہوئی تھی مگر بھوک بھی اب اس کے پیش منظرمیں آگئی تھی اور پھرکتاب کا فائدہ صرف بھوک مٹانے تک ہی محدود نہیں تھا۔ وہ اس سے ایک ایسی میز خرید سکتا تھا جس کے ساتھ ایک آرام دہ کرسی ہو،چکنے،فل سکیپ سفید کاغذ ہوں، ترتیب سے رکھے قلم ہوں اور پھر وہ کہانیاں لکھے اور بے تحاشا لکھے۔
جانے کتاب سے آمدن ہوئی تھی یا پھر کسی نے ترس کھا کر اس کو اتنے پیسے ضرور دے دئیے تھے کہ وہ کچھ عرصے کے لیے بھوک کے آزار سے آزاد ضرور ہوگیا تھا۔
پیسے ملنے کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ ایک میز کی تلاش شروع کردی۔ وہ بہت سی دکانوں پر گیا، بہت سی میزوں کو ٹھونک بجا کر دیکھا، لکڑی کے معیار کو جانچا، گولے کی خوبصورتی اور درازوں کی کشادگی کو اس نے کئی بار ماپا اور اپنی دانست میں کباڑیے کی دکان سے سب سے اچھی میز خرید لایا۔ کرسی خریدنے کا مرحلہ بھی کچھ کم آسان نہیں تھا۔ وہ پھر شہر بھر کی دکانوں پر گیا، اس نے کئی کرسیوں پر بیٹھ بیٹھ کر بازو اور بغیر بازوؤں والی کرسی کے فرق کو سمجھا۔
سپرنگ کی مضبوطی کاجائزہ لیا۔گدی پر لگے فوم کو ہاتھ لگا لگا کر محسوس کیا اور بالآخروہ اپنی بساط کے مطابق شہر میں موجودسب سے اچھی کرسی کو اپنے گھر لے آیا۔ نئی میز کرسی کو ٹوٹے کمرے میں سجا کر وہ تیزی سے نزدیکی سٹیشنری سٹور پر گیا وہاں موجود سب سے سفید، سب سے صاف،فل سکیپ اور بہت ہی چمکتے ہوئے سفید کاغذوں کے دستے کا انتخاب کیا۔ساتھ ہی اس نے کئی قلم بھی خرید ڈالے، روشنائی والے بھی اور بال پن بھی۔
اچھے قلم کا اس کے نزدیک معیار یہی تھا کہ وہ لکھتے ہوئے نہ رکے۔ اس کی سوچ کی رفتار سے چلے۔
گھر پہنچ کر جب اس نے میز کرسی کو کاغذ کے نئے دستے اور قلموں کی قطار سے سجایا تو اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ شدید اضطراب کے عالم میں اس نے جلدی سے کاغذ کا پہلا ورق اٹھایا۔ سب سے اچھے قلم کو ہاتھ میں تھاما۔ تو جانے کیسے زندگی میں پہلی دفعہ اس سے تمام کہانیاں، تمام لفظ روٹھ گئے تھے۔ قلم، سوچ،کہانی سب جامد ہوگئے تھے۔ وہ پہلے تو کچھ دیر ششدر سا بیٹھا رہا، پھر صاف،فل سکیپ،چمکتے سفید کاغذوں کے دستے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔

Browse More Urdu Literature Articles