Zinda Dargo Mobile - Article No. 946

Zinda Dargo Mobile

زندہ درگور بیٹیاں - تحریر نمبر 946

کالج دور میں کتب بینی کا بہت شوق تھا جو کہ اسی دور کے ساتھ تقریباً ختم ہو گیا تھا،نوے کی دہائی تھی پی ٹی وی کا سنہری دور ابھی چل رہا تھا اور تقسیم ہند کی کہانیاں ٹیلیویژن اور کتب کے ذریعے تواتر سے سامنے آتی رہتی تھیں۔

جمعرات 27 اگست 2015

عدنان جبار
کالج دور میں کتب بینی کا بہت شوق تھا جو کہ اسی دور کے ساتھ تقریباً ختم ہو گیا تھا
نوے کی دہائی تھی پی ٹی وی کا سنہری دور ابھی چل رہا تھا اور تقسیم ہند کی کہانیاں ٹیلیویژن اور کتب کے ذریعے تواتر سے سامنے آتی رہتی تھیں۔
ایک عمومی سوچ جو اس دور میں ملی تھی کہ تقسیم ہند کے وقت بہت ساری مسلم خواتین کو ہجرت کے دوران سِکھ اغوا کر کے لے گئے تھے جو آخری عمر تک ان سکھوں کے ظلم و ستم جھیلتی ان کی ناجائز اولادوں کو پالتی زندہ لاشوں کی طرح زندگی گزارتی رہیں
جذباتی دور تھا گھر آنے والا واحد اخبار نوائے وقت ہوتا تھا پھر ان دنوں نسیم حجازی کی کتب بھی زیرمطالعہ رہی تھیں جن کا اثر یہ ہوا کہ سِکھوں سے اور بھارت سے شدید نفرت پیدا ہو گئی ۔

انہی دنوں میں کچھ پرانے اور نئے کلاس فیلوز اسلحے کے شوق اور علاقے میں رعب کے لالچ میں آ کے تعلیم کو خیر باد کہہ کر کشمیر اور افغان جہاد میں حصہ لینے کے لئے ٹریننگ کر کے آئے تھے ان کی زبانوں سے کشمیری ، فلسطینی اور سربیائی خواتین کی عصمت دری اور بیچارگی کی کہانیاں سن کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے تھے
کسی بھی کہانی کا کوئی نہ کوئی خاکہ آپ کے دماغ میں خودکار نظام کے تحت بننا شروع ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسے ہی ان بےبس اور لاچار خواتین کا خاکہ ذہن میں بنتا گیا۔
ایک بے جان آنکھوں والا نیم مردہ جسم کا خاکہ
ایسے ہی زندگی کے ہنگاموں میں وقت گزرتا رہا ایک دن قریبی دوست ڈاکٹر رانا طارق کے کلینک میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے جو ساتھ وقفے وقفے سے مریض بھی بھگتا رہے تھے
اسی بیچ ایک خاتون مریضہ آئی چالیس کے لگ بھگ عمر پیلی رنگت اور بے جان انکھوں کے ساتھ نیم مردہ سی کیفیت میں ۔

مجھے یوں لگا کہ جیسے میں اس خاتون کو جانتا ہوں میں حسبِ معمول خاتون مریضہ کے طبی معائنے کے پیش نظر اٹھ کر باہر آ کر اپنی معمول کی جگہ پر سگریٹ سلگا کر بیٹھ گیا کافی دیر دماغ میں ہیولا سا گھومتا رہا کہ ان خاتون کو کہاں دیکھا ہے
تھوڑی دیر میں ڈسپنسر بلانے آ گیا کہ ڈاکٹر صاحب فارغ ہو گئے ہیں میں نے جاتے ہی اندازہ لگا لیا کہ مزاج کچھ برہم ہے پوچھنے پر پتہ چلا کہ خاتون بے جوڑ شادی کا عذاب جھیلتی اس وقت تقریباً زندگی سے مایوس ہیں اور شدید ڈیپریشن کی لپیٹ میں بس زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں
کیونکہ ماں باپ کا حکم تھا کہ سسرال ڈولی میں جا رہی ہو اب جنازہ ہی واپس آئے ورنہ میکے والوں کی ناک کٹ جاتی ہے اور وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔

جیسے جیسے باتیں سنتا گیا پرانے دھندلے خاکے ذہن میں تازہ ہوتے گئے ساتھ ہی شناسائی محسوس ہونے کی وجہ بھی مل گئی کہ شائد یہ بیچاری بھی ان لاچار زندہ لاشوں میں سے ہے جو سکھ بلوائیوں کے گھروں میں زندگی کی رمق سے کوسوں دور اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہیں۔
اس دن کے بعد سے ہر گلی محلے میں ایک نہ ایک زندہ لاش نظر آنے لگی جو سربیا یا کشمیر میں پیدا نہیں ہوئی جو کسی بلوے میں سکھوں کے قبضے میں نہیں آئی بلکہ پاکستان میں پیدا ہوئی اور اپنے گھر والوں کے لالچ ، ہوس یا بوجھ سمجھے جانے کے ناکردہ جرم کی سزا پا رہی ہیں
اسی طرح بہت سارے پڑھے لکھے باشعور بیٹے بھی خاندانی ضد یا لالچ کا شکار بنا دیے گئے جو نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کے اسی اندھے کنویں میں قید ہو گئے
ہمارے ارد گرد ایسی ہزاروں رونگھٹے کھڑی کر دینے والی دستانیں ہیں جن میں ایک ہنستے کھیلتے جیتے جاگتے انسان کو اس کے اپنے گھر والے زندہ درگور کر دیتے ہیں ۔

مسلک ازم اور برادری ازم جیسی لعنتیں آج کی ترقی یافتہ دور میں بھی پھن پھیلائے کھڑی ہیں
برادری یا مسلک میں والدین کی پسند کا رشتہ نہ ملنے پر گھروں میں بیٹھی مظلوم بیٹیاں خاص کر جو پڑھ لکھ کر کسی نوکری پر لگی ہوں یا جائیداد کے حصے کی مالک ہوں اور گھر کو معاشی فائدہ دے رہی ہوتی ہیں ان کو یہ کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ہے کہ غیر برادری سے بیٹی لے سکتے ہیں پر دے ہرگز نہیں سکتے اور اسی منافقت کے نام پر کئی نسلیں برباد کر دی گئیں ۔

آج کے دور میں بھی لڑکیوں کو صرف اس لئے پڑھایا جاتا ہے کہ اچھا مناسب رشتہ مل جائے گا۔
یہ ہے ہماری اصلیت جسے ہم منافقت کی چادر اوڑھا کے خالص النسل اور معززین کہلواتے ہیں
کفر کے زمانوں سے چلتی آ رہی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے کی قبیح رسم آج بھی اسی شد و مد سے جاری ہے بس پہلے ہم مٹی میں دفناتے تھے آج کل جھوٹی انا اور ضد کی قبر میں گاڑتے ہیں۔
پہلے بیٹیاں چند منٹوں میں دم توڑ دیتی تھیں اور اب کئی دہائیوں تک جان کنی کا عذاب جھیلتی ہیں۔
وہی خونیں رسم جاری و ساری ہے بس طریقہ بدل گیا آج کے والدین بھی بیٹی کو قربان کر کے اپنی عزت کو محفوظ بناتے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
دور بدل گیا ہے اور اب مجھے بھی سِکھ بلوائیوں کے گھر محبوس عورتوں پر اتنا ترس نہیں آتا جتنا کالج کے دنوں میں آتا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles