Burdbari Aur Tahammul Ki Azmat - Article No. 1011

Burdbari Aur Tahammul Ki Azmat

بردباری اور تحمل کی عظمت - تحریر نمبر 1011

حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی ایک تنگ گلی میں ایک فقیر بیٹھا کرتا تھا۔ ایک دن میرا المومنین حجرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گذراس گلی سے ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کا پاؤں بے دھیانی میں اس فقیر کے پاؤں کے اوپر آگیا۔

منگل 23 فروری 2016

حکایات سعدی رحمتہ اللہ علیہ:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی ایک تنگ گلی میں ایک فقیر بیٹھا کرتا تھا۔ ایک دن میرا المومنین حجرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گذراس گلی سے ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کا پاؤں بے دھیانی میں اس فقیر کے پاؤں کے اوپر آگیا۔ فقیر غصہ میں چلایا: اے اندھے شخص! کیا تجھے نظر نہیں آتا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے غصے کو نظرانداز کرتے ہوئے نرمی سے جواب دیا کہ بھائی! میں اندھا نہیں ہوں لیکن مجھ سے یہ غلطی ضرور ہوئی ہے تم اللہ عزوجل کے واسطے مجھے معاف کردو۔

حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت کوبیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ! ہمارے اسلاف کااخلاق کس قد اچھا تھا؟ ان کے مقابلے میں کوئی کمزوربھی ہوتا توان کے لہجے کی حلاوت اور مٹھاس میں مزید بہتری پیدا ہوجاتی۔

(جاری ہے)

حقیقت یہ ہے کہ ہر بلند مرتبہ شخص عجزوانکساری کوپسند کرنے والا اور دوسروں کی دلجوئی کرنے والا ہوتا ہے۔ اس شخص کی مثال اس درخت کی سی ہوتی ہے جس پر جتنا زیادہ پھل لگتا ہے وہ اتنا ہی جھکتا چلا جاتا ہے۔

جو لوگ کمزوروں کے ساتھ خوش اخلاقی اور عجزوانکساری سے پیش آتے ہیں وہ روزمحشرسب سے خوش قسمت ہوں گے اور مغروروں کوبروزمحشررسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
مقصود بیان:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ انسان جتنا بھی طاقتور اور رتبے والا ہو اور پھر اس بلند مرتبہ کے بعد وہ کسی کمزور کے غصہ اور ناراضگی کوبرداشت کرلے تو یہ حقیقتاََ بڑی بات ہے۔
اس نیکی کا اجز بھی بہت زیادہ ہے اور اس حکایت سے بردباری اور تحمل کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے یہ حکایت امیرالمومنین حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے۔ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طبیعت کے متعلق تمام مئورخین متفق ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ جلالی تھے اور دین اسلام قبول کرنے سے قبل کوئی معمولی سی بات بھی برداشت نہ کرتے تھے۔ دین اسلام قبول کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کے لہجے میں حلاوت اور مٹھاس پیدا ہوگئی مگر اسلام دشمنوں کے لئے آپ رضی اللہ عنہ کا لہضہ ویسا ہی جلالی اور سخت تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles