Zameer Ki Awaz - Article No. 2203

Zameer Ki Awaz

ضمیر کی آواز - تحریر نمبر 2203

میں نے کہا”سر زمین پر ہر ایک سے زیادہ کوئی شریف نہیں اور تجھ سے زیادہ کمینہ نہیں۔“

بدھ 27 نومبر 2019

غزالی رحمتہ اللہ علیہ
کہتے ہیں جس زمانے میں ہارون الرشید اپنے وزیروں کے خاندان برامک سے ناراض تھا اس نے اپنے لیے وزیر صالح کو بلایا اور کہا”ہمارے گورنر منصور بن زیاد کے پاس جا اور کہہ ہمارے تجھ پر دو کروڑ درہم واجب ہیں۔وہ ابھی ادا کر۔اگر وہ مغرب تک نہ دے تو اس کا سر اتار لانا مگر دیکھ اس کے بارے میں مجھ سے کوئی گفت وشنید نہ کرنا بس اس کا سر میرے پس لے آنا۔


صالح منصور کے پاس گیا اور اسے ہارون الرشید کا پیغام پہنچایا۔اس نے کہا میں مارا گیا اور قسم کھائی کہ میرا تو سارا سامان بھی اتنے کا نہیں ہے۔اتنا روپیہ کہاں سے لاؤں؟“
وہ بولا،”اچھا مجھے اپنے بیوی بچوں سے رخصت ہونے دے کچھ وصیت کرلینے دے اور عزیز واقارب سے مل لینے دے۔

(جاری ہے)


منصور کے گھر والوں کو اطلاع ہوئی تو کہرام مچ گیا سب رونے پیٹنے لگے صالح نے کہا،”شاید برامک کے ہاتھوں تیری خلاصی ہو جائے۔

وہ بڑے سخی اور شریف لوگ ہیں۔مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں چل وہاں چلیں۔“وہ رونے لگا۔
”صالح کہتاہے۔”ہم یحییٰ بن خالد بکر مکی کے پاس گئے اور سارا قصہ بیان کیا تو وہ بڑا غمگین ہوا۔سر جھکالیا اور دیر تک خاموش رہا۔پھر سر اٹھایا،خزانچی کو بلایا اور اس سے پوچھا۔
”ہمارے خزانے میں کتنا روپیہ ہے؟“اس نے کہا کوئی دس لاکھ درہم ہیں یہ یحییٰ نے کہا،”لے آؤ“پھر اپنے لڑکے فضل کی طرف قاصد بھیجا اور کہا اس سے کہنا کچھ زمینیں خریدنی ہیں جو کچھ روپیہ ہو بھیج دے۔
“اس نے بیس لاکھ بھیج دئیے۔ایک اور قاصد اپنے بیٹے جعفر کی طرف بھیجا اور کہا ایک کام آن پڑاہے۔رورپے کی ضرورت ہے تو جعفر نے بیس لاکھ درہم بھیجے۔
منصور نے کہا،”حضور میں نے آپ کا دامن تھاما ہے مجھے آپ کے سوا کوئی نہیں چھڑا سکتا۔بقیہ قرضہ کیسے پورا ہو گا۔“
یحییٰ نے سر جھکالیا اور رونے لگا پھر کہا،”ارے غلام! امیر المومنین ہارون الرشید نے ہماری باندی ونانیر کو ایک بڑا قیمتی گوہر عطا کیا تھا۔
اس کے پاس جا کر اور کہہ کر وہ گوہر دے دے غلام گیا اور لے آیا۔یحییٰ نے
کہا،”صالح!میں نے اسے امیر المومنین کے لیے دو لاکھ دینار میں خریدا تھا۔وہ اس کی قیمت جانتے ہیں۔انہوں نے یہ گوہر میری باندی دنانیر کو انعام میں دے دیا تھا۔اب مال پورا ہو چکا۔امیر المومنین نے صرف عرض کرنا منصور کو ہمیں بخش دیجئے۔“
صالح کہتاہے،”یہ رقم اور گوہر لے کر میں خلیفہ کی طرف چلا ابھی راستے ہی میں تھے کہ میں نے منصور کو ایک شعر پڑھے سنا”جس کا مطلب تھا کہ یحییٰ نے سخاوت کی بنا پر یہ سب کچھ نہیں دیا بلکہ میری زبان کے ڈر سے دیاہے۔

میں نے کہا”سر زمین پر ہر ایک سے زیادہ کوئی شریف نہیں اور تجھ سے زیادہ کمینہ نہیں۔“
ہارون الرشید نے جو وہ گوہر دیکھا تو بڑا تعجب کیا اور کہا،”ہم دیا ہوا مال واپس نہیں لیتے ۔یہ گوہر واپس لے جاؤ۔“
صالح کہتاہے۔”میں نے وہ گوہر یحییٰ کو واپس کیا اور منصور کے کمینہ پن کا بیان کیا تو وہ کہنے لگا جب انسان پریشان ہوتاہے تو وہ جو کچھ کہتاہے ضمیرکی آواز نہیں ہوتی پھر وہ اس کی تعریف کرنے لگا تو میں رو دیا۔میں نے کہا،”آسمان تجھ جیسا پیدا کر سکے گا۔

Browse More Urdu Literature Articles