Aqal Or Kismat - Article No. 2177

Aqal Or Kismat

عقل اورقسمت - تحریر نمبر 2177

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قسمت باغ میں بینچ پر بیٹھی تھی کہ اتنے میں وہاں عقل آنکلی اور عقل نے قسمت سے کہا،میرے لیے جگہ خالی کردو۔

بدھ 30 اکتوبر 2019

بوہیما
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قسمت باغ میں بینچ پر بیٹھی تھی کہ اتنے میں وہاں عقل آنکلی اور عقل نے قسمت سے کہا،میرے لیے جگہ خالی کردو۔اس زمانے میں عقل اتنی تجربہ کارنہ ہوئی تھی اور نہ اسے معلوم تھا کہ کس کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے اور کیوں۔
میں تمہارے لیے جگہ خالی کردوں۔آخر کیوں؟میں تم سے کس لحاظ سے کم ہوں؟قسمت نے تنک کر کہا۔

بہتر اور عالی مرتبہ وہی سمجھا جاتا ہے جس کے کارنامے زیادہ ہوں۔بحث سے کیا فائدہ؟وہ دیکھو سامنے کھیت میں کسان کا بیٹا ہل چلا رہا ہے۔جاؤ اس میں داخل ہو جاؤ۔اگر تم اسے زندگی میں کامیاب کردوتو میں ہمیشہ کے لیے تمہاری تابع ہو جاؤ گی۔جب اور جہاں بھی تمہارا سامنا ہوا تو ندامت سے اپنا سر نیچے کرکے تمہاراراستہ چھوڑ دوں گی۔

(جاری ہے)


عقل نے قسمت کی یہ تجویز منظور کر لی اور جاکر کسان کے لڑکے میں داخل ہو گئی۔

جو نہی کسان کے بیٹے نے یہ محسوس کیا کہ اس کے سر میں عقل سماگئی تو اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ آخر میں اپنی تمام زندگی ہل چلانے میں ضائع کیوں کروں۔جب کہ میں اس سے بہتر زندگی بسر کرنے کا اہل ہوں۔یہ سوچنے کے بعد اس نے ہل کو وہیں چھوڑااور گھر کی راہ لی۔
ابا میں دہقان کی زندگی بسر نہیں کرنا چاہتا۔میں باغبانی سیکھنا چاہتاہوں اس نے اپنے والد سے کہا۔

کیا بک رہے ہو؟عقل کے پیچھے لٹھ لیے کیوں پھرتے ہو․․․․․اتنا کہنے کے بعد کسان کو کچھ خیال آیا اور کچھ وقفے کے بعد بولا۔
خیر اگر تمہارا قطعی فیصلہ ہے تو پھر باغبانی سیکھ لو۔خدا تمہاری مدد کرے۔ہاں میری موت کے بعد اس کا کٹیا کامالک تمہارا بھائی ہو گا۔
اس طرح وینک کے ہاتھ سے کٹیا بھی جاتی رہی مگر اسے مطلقاً افسوس نہ ہوا اور سیدھا شاہی محلات کے مالی کے پاس پہنچا اور اس کا شاگرد ہو گیا۔

شاہی مالی اسے معمولی کام کرنے کو دیتا مگر یہ اس سے بہتر اور زیادہ کام کرکے دکھاتا اور کچھ عرصے کے بعد اس نے مالی کی ہدایت پر عمل کرنا بھی چھوڑ دیا بلکہ ہر کام اپنی منشاء اور سوچ کے مطابق کرنے لگا۔یہ دیکھ کر مالی کو غصہ تو بڑا آتا۔مگر وینک کے سلیقے اور ہنر مندی کے پیش نظر خاموش رہتا۔ایک روز شاہی مالی نے وینک سے کہا۔
میں جانتا ہو کہ تم مجھ سے کہیں زیادہ عقل مند ہو۔
اور اس کے بعد مالی نے اسے مزید ہدایات دینا ترک کردیں اور اب وینک کو ہر طرح کی آزادی مل گئی۔
کچھ عرصے کے بعد وینک نے شاہی باغ کو اتنا خوش نما اور پیارا بنا دیا کہ بادشاہ اپنے آراستہ باغ کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا۔اور ہر صبح وشام اپنی ملکہ اور اکلوتی بیٹی کے ہمراہ باغ میں چہل قدمی کرنے آتا۔
شہزادی بڑی حسین ،بڑی پیاری اور بہت ہی اچھی تھی۔
مگر افسوس ناک بات یہ تھی کہ بارہ سال کی عمر کے بعد اس نے بولنا چھوڑ دیا اور پھر کسی نے اسے باتیں کرتے بھی نہیں سنا۔بادشاہ اپنی اکلوتی بیٹی کے اس دکھ سے بڑا افسردہ رہتا تھا۔اس نے لاکھوں جتن کیے مگر شہزادی کی زبان پر جوتا لا پڑا تھا کھل نہ سکا۔آخر اس نے اپنی سلطنت میں اعلان کروایا کہ جو شخص شہزادی کا گنگ دور کرے گا اس سے شہزادی کی شادی کی جائے گی۔

اس اعلان کے بعد کئی نوجوان بادشاہ ،خوبصورت اور ذہین شہزادے اور بڑے نامور سپہ سالار بادشاہ کے دربار میں قسمت آزمائی کے لیے آئے۔مگر جیسے آئے تھے ویسے ہی لوٹ گئے۔کوئی بھی شہزادی کی زبان کھولنے میں کامیاب نہ ہوا۔
کیوں نہ میں کوشش کرکے دیکھوں؟کون جانتا ہے کہ شاید شہزادی میر ے سوال کاجواب دے دے۔وینک یہ سوچ کر دربار میں حاضر ہوا اور اپنا مدعا بیان کیا۔
بادشاہ اور اس کے مشیر ونیک کے ہمراہ شہزادی کے کمرے میں پہنچے۔شہزادی کے پاس ایک ننھا کتا تھا۔جسے وہ بہت پیار کرتی تھی۔یہ بڑا ہو شیار اور سمجھ دار جانور تھا۔شہزادی کا معمولی اشارہ بھی سمجھ لیتا تھا۔کمرے میں جب وینک بادشاہ اور اس کے مشیروں کے ساتھ داخل ہوا تو اس نے ظاہر کیا کہ گویا اس نے شہزادی کو دیکھا ہی نہیں اور فوراً کتے سے یوں مخاطب ہوا۔

پلو میں نے سنا ہے کہ تم بڑے ہوشیار ہو اور ذہین ہو۔میں تم سے ایک مشورہ چاہتا ہوں۔سنو۔ایک سفر میں ہم تین ساتھی تھے۔ایک بت تراش،دوسرا درزی،اور تیسرا میں۔ہم ایک گھنے جنگل سے گزررہے تھے ہمیں رات نے آلیا اور مجبوراً ہمیں وہیں رات بسر کرنا پڑی۔درندوں کے خوف سے ہم نے آگ کا بہت بڑا الاؤ جلایا اور آپس میں طے پایا کہ رات بھر ہر ایک باری باری پہرہ دے۔
پہلی باری بت تراش کی تھی۔وقت گزارنے کے لیے وہ درخت کے ایک تنے سے نوجوان لڑکی کا مجسمہ تراشنے بیٹھ گیا۔جب اس نے مجسمہ بنا لیا۔تو اس نے درزی کو بیدار کیا۔کیونکہ دوسری باری درزی کی تھی۔درزی نے جب لڑکی کا مجسمہ دیکھاتو بت تراش سے پوچھا بھئی اس کا مطلب ؟
جب میں نے دیکھا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرتے وقت گزرنا محال ہے تو میں نے یہ مجسمہ بنانا شروع کردیا۔
اس مجسمہ تیار ہے۔اگر تم بھی بیٹھے بیٹھے اکتا جاؤتو اسے لباس پہنا دیا ہے۔اگر تم بھی آسانی سے اپنا وقت گزارنا چاہتے ہوتو اسے بولنا سکھا دو۔
واقعی میں نے لڑکی کے مجسمے کو بولنا سکھا دیا۔صبح جب میرے ساتھی اٹھے تو دونوں نے لڑکی پر اپنا حق ثابت کرنے کی کوشش کی ۔
میں نے تواسے تراشا ہے۔بت تراش بولا۔
میں نے اسے لباس پہنایا ہے۔
درزی نے کہا۔
کتے نے تو کیا جواب دینا تھا۔شہزادی فوراً بول اٹھی،تم ہی لڑکی کے اصل حق دار ہو۔بت تراش کا بے جان مجسمہ کس کام کا اور درزی کے لباس کا فائدہ؟تم نے اسے زبان اور زندگی دی اس لیے لڑکی پر تمہارا حق مقدم ہے۔
آپ نے اپنا فیصلہ خودہی سنا دیا۔وینک نے خوشی سے کہا۔میں نے آپ کو زندگی دی ہے۔اس لیے آپ میری ہیں۔
یہ سن کر بادشاہ کا ایک اور مشیر بولا۔
جہاں پناہ!تم کو انعام واکرام سے مالا مال کردیں گے۔کیونکہ تم شہزادی کی زبان کھولنے میں کامیاب رہے ہو۔چونکہ تم نیچ ذات سے تعلق رکھتے ہو۔اس لیے شہزادی تمہاری بیوی نہیں ہو سکتی۔
مگر وینک نے مشیر ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہ دی۔
ہاں تم نیچ ذات سے تعلق رکھتے ہو۔مابدولت اپنی بیٹی کی شادی تم سے نہیں کر سکتے۔اس کی بجائے تمہیں بے اندازہ انعام دیا جائے گا۔
بادشاہ نے کہا۔
وینک نے انعام کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور کہنے لگا۔
بادشاہ سلامت نے بغیر کسی شرط کے یہ وعدہ کیا تھا کہ جو کوئی بھی ان کی بیٹی کی زبان کھولے گا،اسی شخص سے شہزادی کی شادی ہو گی۔بادشاہ کے الفاظ قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر بادشاہ سلامت یہ چاہتے ہیں کہ ان کے قانون کو دوسرے بھی تسلیم کریں تو سب سے پہلے انہیں اپنے قانون کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہیے اس لیے اصولاً جہاں پناہ کو اپنی بیٹی کی شادی ضرور کرنی چاہیے۔

اس کی مشکیں کس دو دوسرا مشیر چلایا۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ بادشاہ کو یہ ضرور کرنا چاہیے۔وہ بادشاہ سلامت کی بے حرمتی کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے ۔اور وہ اس قابل ہے کہ اس کی گردن فوراً اڑا دی جائے۔ٹھیک ہے مجرم کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔بادشاہ نے حکم دے دیا۔
وینک کو شہر کے باہر قتل کے لیے لے جایا گیا۔جب وینک مقتل پہنچا ،تو قسمت کھڑی انتظار کررہی تھی۔
اس نے آہستہ سے عقل سے کہا۔
دیکھ لیانا!وینک کو کہاں تک لے آئی ہو تمہاری مہربانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس کا سر اڑایا جارہا ہے۔باہر نکلو اور مجھے آنے دو۔
جو نہی قسمت وینک میں داخل ہوئی تو جلاد کی تلوار وینک کی گردن کے بجائے لکڑی پر پڑی اور تلوار کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ایسا معلوم ہوتا تھا۔کہ تلوار کو پکڑ کر کسی نے دو ٹکڑے کر دئیے ہیں۔
ابھی جلاد کے لیے دوسری تلوار لائی جارہی تھی کہ شہر کی سمت سے ایک شاہی ،اعلانچی طوطی بجاتا اور سفید جھنڈی ہلاتا سر پٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے پر نمودار ہوا۔اس کے پیچھے شاہی گاڑی گرد اڑاتی ہوئی آرہی تھی۔
یکا یک اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ شہزادی نے بادشاہ کو سمجھایا کہ وینک سچ کہتا ہے کہ بادشاہ کو وعدہ خلافی نہ کرنا چاہیے۔اگر وینک نیچ ذات کا ہے تو اسے وہ بڑی آسانی سے شہزادے کا اعزاز بخش سکتا ہے۔
بادشاہ نے شہزادی کی بات تسلیم کرلی۔اور حکم دیا کہ وینک کو واپس محل میں لایا جائے اور اسے شہزادے کا اعزاز دیا جائے۔اور اس وقت خاص شاہی گاڑی وینک کو قتل گاہ سے لانے کے لیے روانہ کی گئی۔
وینک کی بجائے بادشاہ کے مشیروں کو قتل کر دیا گیا جنہوں نے وینک کی گردن مارنے کا مشورہ دیا تھا۔چند دن کے بعد اسی گاڑی میں شہزادی کی شادی کا جلوس نکلا۔عقل بھی تماشائیوں میں کھڑی جلوس دیکھ رہی تھی۔یہ سوچتے ہوئے کہ قسمت اسے کہیں دیکھ نہ لے۔اس نے فوراً اپنا سر جھکالیا اور وہاں سے ہٹ گئی۔جیسے کہ اس پریخ پانی پڑ گیاہو۔
کہا جاتا ہے کہ اس روز سے عقل قسمت کو دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles