Beti Ki Shaadi - Article No. 2201

Beti Ki Shaadi

بیٹی کی شادی - تحریر نمبر 2201

وہ اپنی لڑکی کے بارے میں پریشان تھا کیونکہ فیصلہ نہ کر سکا کہ کس سے شادی کرے سوچتا تھا کہ فلاں شخص سے کروں گا تو فلاں شخص ناراض ہو جائے گا اور اگر اس سے کرتاہوں تو وہ خفا ہو جائے گا۔

منگل 26 نومبر 2019

غزالی رحمۃ اللہ علیہ
مرومے کا ایک شخص نوح بن منصور بڑارئیس اور شہر قاضی تھا۔وہ بڑا سخی اور عالم تھا۔اس کی ایک بیٹی بہت حسین وجمیل اور ہنر والی تھی۔شہر کے صاحب کمال رئیسوں نے اس کا پیام دیا تھا مگر اس نے کسی سے ہاں نہیں کی تھی۔وہ اپنی لڑکی کے بارے میں پریشان تھا کیونکہ فیصلہ نہ کر سکا کہ کس سے شادی کرے سوچتا تھا کہ فلاں شخص سے کروں گا تو فلاں شخص ناراض ہو جائے گا اور اگر اس سے کرتاہوں تو وہ خفا ہو جائے گا۔


ایک لڑکا جس کا نام مبارک تھا۔اس کے گھر ملازم تھا۔مگر وہ بڑا ہی نیک اور پر ہیز گار تھا۔قاضی کہنے لگا۔”میں چاہتا ہوں کہ تو میرے باغ کی حفاظت کرے۔“چنانچہ وہ باغ میں رہنے ایک مہینے بعد قاضی باغ میں گیا۔مبارک سے کہا۔انگوروں کا ایک گچھالادے۔

(جاری ہے)

وہ ایک گچھا لایا تو بالکل کھٹا نکلا۔
قاضی نے کہا اور لا،وہ اور لایا وہ بھی ترش تھا۔

آقا نے کہا،”اور لا”وہ اور لایا تو وہ بھی کھٹا تھا۔قاضی نے کہا۔کیا بات ہے تو کھٹے انگور ہی لاتاہے۔میٹھے کیوں نہیں لاتا۔؟وہ بولا”مجھے معلوم نہیں ان میں سے کون سے میٹھے اور کون سے کھٹے۔“
مالک کہنے لگا”سبحان اللہ!تجھے ایک ماہ باغ میں رہتے گزر گیا اور یہ تک نہیں پتا کہ کون سے بوٹے ترش ہیں اورکون سے شیریں!“
لڑکے نے کہا”آپ کی قسم میں نے کبھی انگور نہیں چکھے۔
جو یہ جانتا کہ کھٹے ہیں یا میٹھے۔“قاضی بولا”تونے انگور کیوں نہیں کھائے“لڑکا بولا۔”اس لیے کہ آپ نے مجھے باغ کی حفاظت کے لیے بھیجا ہے کھانے کے لیے نہیں بھیجا میں آپ کی خیانت کیسے کرتا۔“
آقا نے بڑا تعجب کیا،کہنے لگا۔اللہ تیری دیانت داری کی حفاظت کرے وہ سمجھ گیا کہ لڑکا بڑا ایمان دار اور عقل مند ہے۔کہنے لگا”لڑکے مجھے تجھ سے محبت ہو گئی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ تجھ سے کہوں اس سے انکار نہ کرے۔“مبارک بولا”میں آپ کا اور اللہ کا فرمان بردار ہوں“قاضی نے کہا۔”میری ایک حسین وجمیل بیٹی ہے۔بڑے بڑے امیروں نے اس کا پیام دیا ہے میں فیصلہ نہیں کر سکا کہ کیا کروں تو بتا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔“
لڑکے نے کہا،اسلام سے پہلے لوگ حسب نسب اور خاندانی شرافت دیکھا کرتے تھے یہودی اور عیسائی حسن وجمال دیکھتے تھے اور زمانہ رسالت میں لوگ پر ہیز گاری اور تقویٰ دیکھتے تھے ۔
ان تینوں میں سے آپ جو کچھ پسند کریں چن لیں۔
قاضی بولا”میں نے پر ہیز گاری اور تقویٰ کو چن لیا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ لڑکی کی شادی تجھ سے کردوں کیونکہ تجھ میں عفت دیانت داری اور پر ہیز گاری ہے۔“لڑکا کہنے لگا،”میرے آقا!میں چھوٹا سا بچہ آپ کے گھر میں آیا تھا کالا اور بد صورت ہوں،غریب اور لاوارث ہوں۔آپ میرے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کیسے کر سکتے ہیں؟اور آپ کی بیٹی مجھے کیسے پسند کر سکتی ہے۔
؟“
قاضی نے کہا”میرے ساتھ گھر چل تاکہ اس کی کوئی تدبیر کروں۔“جب وہ دونوں گھر پہنچے تو قاضی نے اپنی بیوی سے کہا۔”دیکھو یہ غریب لڑکا بڑا متقی پر ہیز گارہے میں نے اسے اپنی لڑکی کے لیے پسند کیا ہے۔تمہاری کیا رائے ہے؟وہ کہنے لگی آپ کو اختیار ہے،مگر میں لڑکی سے پوچھ لوں وہ کیا جواب دیتی ہے۔“
ماں لڑکی کے پاس گئی اور باپ کا پیغام پہنچایا ،وہ کہنے لگی۔
”جو کچھ آپ مجھے حکم دیں گے میں آپ کے حکم سے باہر نہیں نہ آپ کی مخالفت کر سکتی ہوں۔بلکہ آپ کی اطاعت کروں گی۔“
قاضی نے بیٹی کی شادی مبارک سے کردی۔سارے رئیس دیکھتے رہ گئے۔شادی کے ایک سال بعد اس لڑکی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو مبارک نے اس کا نام عبداللہ رکھا۔یہ لڑکا پوری دنیا میں عبداللہ بن مبارک کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہ بڑے ہو کر بہت متقی پر ہیز گار صاحب علم وزہد ہوئے ہیں۔وہ علم حدیث کے بڑا ماہر،اپنے وقت کے امام اور یگانہ روز گار محدث اور مجاہد تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles