Kitabain Apne Aaba Ki - Article No. 1076

Kitabain Apne Aaba Ki

کتابیں اپنے آباء کی - تحریر نمبر 1076

لندن کی انڈیا آفس لائبریری اور قومی برٹش لائبریری میں اردو کی نہایت پرانی کتابیوں کا ذخیرہ محفوظ ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق برصغیر کی کتابوں کے نسخے ان دو کتب خانوں کے لیے بھجوائے جاتے تھے۔ یوں کرتے کرتے وہاں اردو کی 3 ہزار سے زیادہ کتابیں جمع ہو گئیں۔

جمعرات 21 جولائی 2016

تعارف کتاب:
لندن کی انڈیا آفس لائبریری اور قومی برٹش لائبریری میں اردو کی نہایت پرانی کتابیوں کا ذخیرہ محفوظ ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق برصغیر کی کتابوں کے نسخے ان دو کتب خانوں کے لیے بھجوائے جاتے تھے۔ یوں کرتے کرتے وہاں اردو کی 3 ہزار سے زیادہ کتابیں جمع ہو گئیں۔
رضا علی عابدی ایک پاکستانی سفر نامہ نگار، صحافی، مصنف اور محقق ہیں۔
عمر کا ایک عرصہ بی بی سی اردو ریڈیو میں گزارا۔ کئی کتب کے مصنف و موٴلف ہیں۔ جن میں کتابیں اپنے آباء کی، ہمارے کتب، خانے جرنیلی سٹرک وغیرہ مشہور ہیں۔ ان کی جب وہاں نوکری ہوئی، توانھوں نے حکا م بالا سے بات کر کے ان کتابوں پر پروگرام کرنے کی اجازت چاہی، جوصرف 12 ہفتوں میں (پروگرام ہفتہ وار تھا) نبٹانے کی اجازت مل سکی۔

(جاری ہے)

1975ء میں بی بی سی اردو ریڈیو پر کتب خانہ کے نام سے پروگرام شروع کیا گیا، اس پروگرام کے سامعین میں اس دور کے چوٹی کے اردو مصنفین بھی شامل تھے، جیسے صاحب کتاب نے خود ابن انشا کا حوالہ دیا،اس کے علاوہ رامپور کے امتیاز علی عرشی، آل احمد سرور، مرزا ظفر الحسن وغیرہ۔

یوں تو یہ صرف 12 ہفتوں کے لیے شروع کیا گیا تھا، مگر جلد ہی پروگرام سے متعلق تعریفی خطوط کا تانتا بند گیا، جس پر رضا علی عابدی کو پروگرام ''جب تک چاہیں، جاری رکھیں'' کا اختیار مل گیا۔ اس طرح یہ سلسلہ 140 ہفتوں تک چلتا رہا۔
رضا صاحب نے کیا یوں کہ پروگرام کے مسودے بی بی سی کو جمع کرانے کی بجائے خود اپنے پاس رکھنے شروع کر دیئے، یوں 35 سال بعد جب ان کو فرصت نصیب ہوئی تو، انھوں نے کتابیں اپنے آباء کی، جیسی بے مثال کتاب مرتب کر دی۔
اس میں 1803ء کی پہلی کتاب جو پرنٹنگ پریس سے چھپی ''اخلاق ہندی'' سے لے کر، 1897ء کی سیر پرند تک بظاہر 47 نثری کتابوں پر مواد ہے۔ بظاہر اس لیے، کیوں کہ ایک ہی کتاب کے تحت اسی موضوع پر اس جیسی مزید کتاب یا کتابوں کا احوال بھی شامل ہے۔ (جیسے ہماری منتخب شدہ مضمون میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں )نظم کی کتابوں میں 1803ء کی سحر البیان سے لے کر 1899ء کے دیوان چندا تک 23 عنوانات کے تحت 50 سے زیادہ کتابوں پر مواد ہے)۔

(املا وہی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے جو کتاب میں موجود ہے)

عجائب المخلوقات-1877ء
فرضی عجائبات جو بڑے شوق سے پڑھے گئے
ضخیم اور وزنی عجائب المخلوقات کو ہم انیسویں صدی کی بیسٹ سیلر کہہ سکتے ہیں۔کتاب میں دنیا کی عجیب و غریب مخلوقات کا ذکر ہے اور ایسے ایسے واقعات کی داستانیں رقم ہیں کہ جنہیں سن کر اور پڑھ کر اس دور کے قصہ گو بھی چپ سادھ لیا کرتے ہوں گے، چنانچہ عجائب المخلوقات خوب خوب چھپی اور ہاتھوں ہاتھ بکی۔
صرف یہی نہیں اس کی دیکھا دیکھی بڑے بڑے ناشروں نے اسی قماش کی موٹی موٹی کتابیں چھاپنی شروع کر دیں جو فرضی اور سنی سنائی معلومات اور اتنی ہی فرضی تصویروں اور نقشوں سے بھری ہوتی تھیں۔انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخری چوتھائی حصے میں برصغیر کے لوگوں کو حیرت زدہ ہونے کا بہت شوق رہا ہوگا۔
عجائب المخلوقات دراصل زکریا ابن محمد قزوینی کی قدیم عربی تصنیف تھی۔
تصنیف کیا تھی، اپنے وقت کا انسائیکلوپیڈیا تھا۔ زمین و آسمان کی کون سی چیز تھی جس کا ذکر نہ ہو۔
یہ کتاب ابراہیم عادل شاہ کے عہد میں عربی سے فارسی میں ترجمہ ہوئی اور ہندوستانی میں پہلی بار سنہ 1865ء کے قریب فارسی میں چھپی۔
شاید اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔چنانچہ اس کے اردو میں ترجمے ہوئے۔ ایک ترجمہ مولانا امجد حسین فتح پوری نے اور دوسرا تصدق حسین نے کیا۔
مولانا امجد حسین کا ترجمہ پہلی مرتبہ مطبع گلزار اودھ نے چھاپا۔ یہ کوئی 1870ء کی بات ہے۔ غالبا'' اس کی مقبولیت کو دیکھ کر ایک تاجر مادھورام کاغذی نے اس کی طباعت اور اشاعت کے حقوق خرید لیے اور اس بار عجائب المخلوقات کو مطبع ثمرہند، لکھنو سے شائع کرایا۔ کتاب پر سنہ 1877ء درج ہے اور لندن کے کتب خانے میں یہی نسخہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مادھورام کاغذی نے 634 صفحوں کی یہ کتاب اتنی آن بان اور شان و شوکت سے چھپوائی کہ اس دور کی زیادہ تر دوسری کتابیں خصوصا'' مطبع نولکشور کی مطبوعات اس کے آگے ماند ہیں۔
نہایت عمدہ کتابت ہے، صاف ستھری چھپائی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کسی بہت اچھے مصور نے ڈیڑھ دو سو تصویریں بھی بنائی ہیں۔یہ الگ بات کہ پوری کتاب میں غریب مصور کا نام کہیں نہیں ملتا۔
عجائب المخلوقات کے اشتہار میں خود مادھورام لکھتے ہیں:
جس عجیب الخلقت کا حال دیکھا، بعینہ اس کی تصویر بھی بنوا دی۔ اب یہ کتاب زبان حال سے اپنے معنی بتا رہی ہے۔
ہر طرف سے خریدار کی صدا آ رہی ہے۔ جب تک چھپے چھپے، صد ہا نسخے بک گئے شائقین باقی نسخے جھٹ پٹ مول لے لیا۔ درخواست معہ قیمت بھیجنے میں دیر نہ کریں ورنہ جب پھر کتاب چھپے گی تو کہیں ملے گی۔ قیمت بہت ارزاں ٹھہرائی ہے۔ یہ جنس بے بہا کوڑیوں کے مول لٹائی ہے، مادھورام کاغذی۔
چونکہ کتاب میں بے شمار مخلوقات کا احوال درج ہے۔ ان کی فہرست بھی طویل ہے جو بہت سے صفحوں پر پھیلی ہوئی ہے۔
ہم یہاں کچھ خاص خاص عنوانات پرنگاہ ڈالتے ہیں:
آسمان کی حقیقت، حقیقت قمر، تاثیرات کواکب، قطب شمالی، قطب جنوبی، حقیقت عناصر اور ترتیب عناصر، کرہ آتش، کرہ ہوا، بادل اور مینہ رعد اور برق، کرہ پانی، عجائبات دریا، حیوانات، ہیت ارض، زلزلہ، نہریں، چشمے، معدنیات، انسان کا بیان، اہل غرب، اہل فارس، اہل روم، اہل ہند، زراعت، شکار، طیور، فنون، طب، احکام نجوم، چوروں کے حیلے، عورتوں کے مکر، درندے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن اس کتاب کی قدامت اور کم علمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اول تواس کے مصنف کا خیال ہے کہ کرہ ارض یا ہماری زمین درمیان میں ہے اور تمام سیارے اور سورج اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ہوا، بادل، جوار بھاٹا، زلزلہ ان سب موضوعات پر عجائب المخلوقات جو کچھ کہتی ہے،حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں۔ کتاب کا بڑا حصہ غالبا'' سنی سنائی باتوں اور ملاحوں، تاجروں، شکاریوں اور سیاحوں کے قصے کہانیوں کی بنیاد پر لکھا گیا ہے۔
اس میں ایک اور کتاب ''تحفة الغراب'' کا جگہ جگہ حوالہ دیا گیا ہے۔ گویا عربی میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب نہ تھی۔
اس کے علاوہ اس میں تصویریں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں جن کی نقل غالبا'' فارسی نسخے سے اتاری گئی ہے کیونکہ اہل فارس داستان طرازی اور مبالغہ آمیزی کے میدان میں تخیلات کے گھوڑے دوڑانے پہ آتے ہیں تو راستے میں کہیں دم نہیں لیتے۔
چنانچہ کتاب میں جبریل امین کی بڑی سی تصویر کے علاوہ حضرات اسرافیل، میکائیل، عزرائیل اور میخائیل کی تصویریں بھی ہیں جودیکھنے میں تگڑے اور توانا مرد ہیں جن کے شانوں پر بڑے بڑے پر لگے ہیں۔ اسی طرح کہیں ہاروت ماروت نظر آتے ہیں تو کہیں حاملان عرش، ستاروں کے برج کی تصویریں بھی ہیں جو صاف طور پر یونانی ہیں۔ ان کے علاوہ جن درختوں، مچھلیوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کا ذکر ہے۔
ان سب کی سینکڑوں اشکال بھی ہیں۔
نظر یوں آتا ہے کہ جب کتاب پہلی بار چھپی اور خریدار اس پر ٹوٹ پڑے تو منشی نولکشور کے چھاپے خانے کو خیال آیا کہ پیچھے کیوں رہا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اسی قبیل کی ایک اور فارسی کتاب ''معلومات الآفاق'' حاصل کی اور اسے چھاپ ڈالا۔ پھر ترجموں کا سلسلہ چلا تو انہوں نے بھی ''معلومات الآفاق'' کا ترجمہ کرایا اور فورا ہی چھاپ کر بازار میں لے آئے۔
یہ جون سنہ 1873ء کا ذکر ہے۔
معلومات الآفاق کو ہم عجائب المخلوقات کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔ وہ تمام باتیں جو اس میں ہیں، وہ ذرا مختلف انداز میں معلومات الآفاق میں بھی ہیں۔ البتہ اس میں طوالت سے گریز کیا گیا ہے۔ اس لیے ہم یہاں سمندروں، دریاوٴں، نہروں، کنوٴوں اور جزیروں کا احوال معلومات الآفاق سے نقل کرتے ہیں:
بحر شمال: یہ دریا قطب شمالی کے نیچے واقع ہے۔
جب کوئی کشتی اس میں جاتی ہے، موجیں مارتا ہے اور ایک تلاطم پڑ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے تاجر اس دریا کے سفر سے باز رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دریائی انسان اس میں کثرت سے ہیں۔ (وہیں ایک تصویر بھی ہے کہ کئی مرد اور عورتیں پانی سے سر نکالے باہر جھانک رہے ہیں۔)
بحریہ طیس: مصر میں ہے۔ اس میں ایک مچھلی ہے جسے تلقین کہتے ہیں۔ اس کے کھانے سے سمجھ بوجھ بڑھتی ہے اور ایک دوسری قسم کی مچھلی ہے، اس کے کھانے سے برے برے خواب دکھائی دیتے ہیں۔

بحیریہ فرغام: بحیریہ کوچک کے حدوو شمالی میں ہے۔ یہ سمندر نہایت گہرا ہے۔ ایک بادشاہ نے اس کی گہرائی معلوم کرنے کے لیے چودہ ہزار گز رسی اس میں ڈالی لیکن تہہ تک نہ پہنچی۔ اس کا پانی اتنا صاف ہے کہ گہرائی کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی گہرائی چار گز ہوگی۔
بحیریہ اخلاط: کہتے ہیں کہ اس دریا میں دو مہینے چاندنکلتا ہے اور دومہینے چھپا رہتا ہے اور ہمیشہ یہی بات ہوتی ہے اور سبب اس کا کچھ معلوم نہیں ہوتا۔

نہریں (یعنی دریا)
نہر اندلس: اس نہر میں ایسا پانی ہے کہ کشتی اس میں نہیں جا سکتی اور اس میں ایک پتھر ہے جو آدمی کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور نہر میں ڈبو دیتا ہے۔
نہر نیل: اس دریا میں نہنگ ہوتا ہے جس کے د وہاتھ دو پاوٴں ہوتے ہیں اور کھال اس کی مثل شیر کی کھال کے ہوتی ہے۔
نہر قوس: بلاد فلسطین میں واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جب دو لشکر اس کے کنارے پر مقابل ہوتے ہیں، جو مشرق کی طرف ہوتا ہے،شکست پاتا ہے اور جو مغرب کی ہوتا ہے، غالب آتا ہے۔

نہر صریح: نہایت بڑی نہر ترکستان کی انتہا پر ہے اور رہاں ایک قسم کے سانپ ہوتے ہیں کہ جس کی اس پر آنکھ پڑے ہلاک ہو جائے۔ (کتاب میں اس سانپ کی تصویر بھی ہے)
چشموں کا ذکر
عین بادخان: یہ چشمہ امعان کی حدود میں ہے اور جب کسی قسم کی نجاست اس میں ڈالیں، طوفان عظیم اٹھتا ہے۔
عین ملطیہ: یہ چشمہ عجیب ہے کہ پانی اس کا سپید نکلتا ہے جو اسی مقام پر پی لیں، کچھ نقصان نہیں پہنچاتا اور اگر اسے تھوڑی دور لے جا کے پئیں، بدن میں پتھر ہو جاتا ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے۔

عین انہار: اس چشمے میں کوئی لکڑی ڈالو، فورا'' جل جاتی ہے۔
عین الفار: اس مقام کی خاک اور چشمے کا پانی ملاوٴ، چوہے پیدا ہو جاتے ہیں۔
عین آذربائیجان: اس چشمے کا پانی نہایت شفاف ہے، جو تھوڑی دیر ٹھہرتا ہے، پتھر بن جاتا ہے۔
عین سلیمان: یہ چشمہ قلعہ سلیمان میں ہے جو شاہزادہ اس قلعے میں جاتا اور چشمے کا پانی پیتا، ضرور بادشاہ ہو جاتا۔

عین الذنب: پانی اس کا نہایت صاف ہے، اگر چاندی کے ہزار درم ڈالیں اور دوسرے روز نکالیں تو چھ ہزار ہوجاتے ہیں۔
کنووٴں کا ذکر
بیر توفیق: مغرب کی سرزمین میں ہے۔ اس میں اس قدر بخارات اٹھتے ہیں کہ اگر پتھر بھاری اس چاہ میں ڈالو، باہر آتا ہے اور کنویں میں نہیں جاتا۔
بیر ارزق: طرابلس میں ہے ج واس کا پانی پیئے احمق ہو جائے۔
بیرالاصوات: تبت میں ہے۔
اس کنویں سے عجیب و غریب آوازیں آتی ہیں جیسے کوئی فارسی، ترکی، تازی اور ہندی زبانیں بول رہا ہو،جتنی دیر مینہ برستا ہے، آوازیں بند رہتی ہیں۔
بیر قیصورا: یہ کنواں بلاد ہندستان میں ہے اور میں ایک قسم کی مچھلی ہوتی ہے۔اگر اس کو پانی سے نکال لیں، پتھر ہو جاتی ہے۔
جزیرے
جزیرہ الزاع: دریائے چین میں ہے۔ اس میں ہر قسم ایک قسم کی لومڑی ہوتی ہے جو ہاتھی اور بھینس کونگل جائے۔

جزیرہ نق: یہاں سونا کثرت سے پیداہوتا ہے، چنانچہ کتوں اور بندروں کو طوق اور زنجیریں سونے کی پہناتے ہیں۔
جزیرئہ برطانیہ: اقصائے معرب میں ہے اور نہایت بزرگ ہے اور جزیرے کے غرب کی جانب عمارات ہیں۔
اب غریب مصنف کو کون بتائے کہ جزیرہ برطانیہ میں عمارات والا شہر لندن ہے جو جزیرے کے غرب کی جانب نہیں شرق کی طرف آباد ہے۔
یہ ایک تنہا چاول پوری دیگ کی صداقت کا حال کہہ سناتاہے!....(عبید رضا)

Browse More Urdu Literature Articles