Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat - Article No. 2591

Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat

پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات - تحریر نمبر 2591

مسافر بس کا ڈرائیور جس نے پروین کی نیلی اسٹارلٹ گاڑی IDC 4362. کو بے دردی سے کچل دیا کہاں گیا کسی کو کچھ معلوم نہیں

Nusrat Zehra نصرت زہرا پیر 25 دسمبر 2023

1994ء کے آخری مہینے کی ایک دھندلی صبح پاکستان کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر سڑک کے ایک حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملیں کہنے کو اس کے کروڑوں پرستار اور لاتعداد مخلص قریبی دوست تھے وہ اپنی موت کے وقت ڈائریکٹوریٹ آف انسپکشن اینڈ ٹریننگ کسٹمز اینڈ ایکسائز کے عہدے پر فائز تھی اس کی شاعری میں ایسا جادو ہے جو انتیس برس گزر جانے کے باوجود بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے تاہم ایسی بے بدل شخصیت کی موت کو محض حادثاتی موت کہہ کر بھلا دیا گیا۔
نجانے کب تک اس ملک میں پروین اور اس جیسے ہائی پروفائل افراد کی حادثاتی اموات اربابِ اختیار کی عدم توجہی کا شکار رہیں گی۔پروین شاکر نے اردو ادب کو چار مجموعہ ہائے کلام دئیے اور اردو شاعری نے اس کے بعد خود کو نئے سرے سے دریافت کیا وہ عبداللہ گرلز کالج میں نو سال تدریس کے فرائض انجام دیتی رہی، سی ایس ایس کیا تو پاکستان بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

(جاری ہے)

بعد ازاں دوران ملازمت فل برائٹ اسکالر ہو کر امریکہ کے شہر کناٹیکٹ گئی جہاں فاضل وقت میں ٹرینیٹی اور ہارٹفورڈ کالجز میں جنوبی ایشیا کا ادب، فلم اور سماج پڑھاتی رہی۔اسی دوران اس نے ایم پی اے مکمل کیا پاکستان میں تمغہء حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔اس کی کتاب خوشبو 45 برس سے بیسٹ سیلر کتاب ہے۔اتنی اہم شخصیت ہونے کے باوجود وہ کئی گھنٹے اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہی ساڑھے نو بجے وہ اپنے آفس جانے کے لیے نکلی اور دس بج کر بیس منٹ پر اس کی قریبی دوست اور پاکستان کسٹمز کی سابق اعلیٰ عہدیدار بیگم پروین قادر آغا کو پروین کے اکلوتے بیٹے سید مراد علی نے فون کیا " آنٹی کیا آپ کی کار مل سکتی ہے امی کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے عجیب اتفاق تھا کہ اسی وقت وہ ڈرائیور جسے پروین نے تبدیل کیا تھا بیگم آغا کو یہ گزارش کرنے آیا تھا کہ اگر وہ کہیں تو پروین اسے دوبارہ نوکری پر رکھ لیں۔
پروین آغا سمجھیں تھیں کہ کوئی معمولی سا ایکسیڈینٹ ہوا ہو گا انہوں نے مراد سے کہا کہ گاڑی تو دستیاب نہیں مراد ٹیکسی کر کے پمز پہنچا اس وقت پروین کے زخمی سراپے میں جان باقی تھی ہو سکتا ہے کہ بروقت طبی امداد مل جاتی تو پروین کی جان بچ جاتی تاہم یہ امر حیران کن ہے کہ کسی نے بھی یہ مطالبہ نہ کیا کہ واقعے کے ذمے داران کا تعین کر کے انہیں سزا دی جائے۔
پروین کا مختصر کنبہ جس میں ان کی والدہ، بہن اور بیٹا ان کی ذمے داری تھے وہ اپنے گھر کی واحد کفیل تھی اس کا پندرہ سالہ بیٹا انڈر ایج تھا اس وقت وہ اپنی ماں کی کار حادثے میں موت پر کیا کر سکتا تھا۔جب یہ حادثہ پیش آیا پروین کی والدہ اور بہن کراچی میں واقع اپنے گھر نارتھ ناظم آباد میں مقیم تھیں۔پروین کی رحلت کے بعد وہ دونوں اسلام آباد شفٹ ہو گئیں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی خصوصی ہدایت پر پروین کے اہل خانہ کو اسی سرکاری گھر میں رہنے کی اجازت مل گئی جہاں وہ اپنی موت کے وقت مقیم تھی اور یہ بھی کہ جب تک مراد کی تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی اہل خانہ وہیں قیام کر سکتے ہیں ساتھ ہی پروین کی حادثاتی موت پر پچیس لاکھ روپے کی مالی امداد بھی فراہم کی گئی تاہم جو بات سب سے اہم تھی کہ وہ انتیس برس گزر جانے کے باوجود بھی تشنہ ہے۔
پروین کا وہ ڈرائیور جسے چند دن قبل ہی نوکری پر رکھا گیا تھا خاصا غیر ذمے دار ڈرائیور تھا اور اپنے اسی رویے کی بناء پر سخت سست بھی کہلاتا۔وہ تو موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا تھا البتہ مسافر بس کا ڈرائیور جس نے پروین کی نیلی اسٹارلٹ گاڑی IDC 4362. کو بے دردی سے کچل دیا کہاں گیا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
بہت سی ان کہی باتیں جواب طلب ہیں مگر سوال کس سے پوچھیں۔۔۔۔
مگر گزارنے والے دن گزرتے ہیں/
ترے فراق میں یوں صبح وشام کرتے ہیں۔۔۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles