Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor - Article No. 2579

Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor

پروین شاکر کا رثائی شعور - تحریر نمبر 2579

پروین شاکر نے جہاں اپنی ذاتی زندگی میں کسی سچ کو چھپا کر نہیں رکھا وہیں انہوں نے اپنے عقیدے کو اپنے فن سے الگ نہیں رکھا

Nusrat Zehra نصرت زہرا بدھ 24 مئی 2023

پروین شاکر کے تخلیقی ورثے میں پانچ مجموعہ ہائے کلام اہل فکر و فن کے لئے زندگی کرنے کا ایک ناگزیر ذریعہ ہیں تو وہیں ان مجموعوں میں جابجا ان کی اپنے مذہبی عقیدے سے گہری وابستگی نمایاں نظر آتی ہے پروین شاکر نے جہاں اپنی ذاتی زندگی میں کسی سچ کو چھپا کر نہیں رکھا وہیں انہوں نے اپنے عقیدے کو اپنے فن سے الگ نہیں رکھا ان کی شاعری کی اساس جسے محبت اور نسائیت سے جوڑا جاتا ہے ایک فرسودہ خیال کی طرح بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے جب ہم ان کے رثائی کلام پر نگاہ ڈالتے ہیں لیکن پروین شاکر نے اپنے رثائی کلام کا کوئی علیحدہ مجموعہ طبع نہیں کیا اور نہ ہی ان کا تذکرہ کچھ اس انداز و اہتمام سے کیا جاتا ہے جو ان کے کلام کا خاص وصف ہے۔
پروین شاکر کا یہ رثائی کلام یا ان کے کلام میں رثائی شعور کو میں نے جس طرح دریافت کیا میں سمجھتی ہوں اس کلام اور اہل بیت پاک سے ان کی مودت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے اس رثائی رجحان کو اسی شان سے اجاگر بھی کیا جائے۔

(جاری ہے)

ہم پہلے اس بات کا تذکرہ کر چکے ہیں کہ ان کے رثائی کلام کا نہ تو کوئی مجموعہ شائع ہوا نہ کبھی اس پر دھیان دیا گیا۔ذرا دیکھیے ان کا رثائی رجحان ان کے بہاریہ کلام میں کس طرح رہ رہ کے سر اٹھاتا ہے۔

فصیل شہر پر تھی ضرب کاری
کماں داروں کا شوق شہریاری
اسیر کربلا جب یاد آئیں
کہاں لگتی ہے پھر زنجیر بھاری
کسی بیمار کی بیعت میں روشن
ہماری گردنوں پر سرخ دھاری

اور یہ اظہار ہمیں خوشبو سے لے کر کف آئینہ تک مسلسل ایک ہی شکل میں دکھائی دیتا ہے خوشبو کی ایک زبان زد عام غزل جو ان کی ایک دعا بھی ہے۔
یارب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخم ہنر کو حوصلہء لب کشائی دے
میں عشق کائنات میں زنجیر ہو سکوں
مجھ کو حصار ذات کے شر سے رہائی دے
پہروں کی تشنگی میں بھی ثابت قدم رہوں
دشت بلا میں روح مجھے کربلائی دے

( خوشبو،غزل) خوشبو ہی ایک غزل کچھ یوں ہے کہ
نہ قرض ناخن گل نام کو لوں
ہوا ہوں،اپنی گرہیں آپ کھولوں
چلوں مقتل سے،اپنے شام لیکن
میں پہلے اپنے پیاروں کو تو رولوں
مرا نوحہ کناں کوئی نہیں ہے
سو اپنے سوگ میں خود بال کھولوں

پروین شاکر نے سرزمین کربلا پر ہونے والے معرکہء حق باطل سے جڑے حقائق سے اپنی ذات کا جو سفر طے کیا اسے دریافت کیا جانا چاہیے تاکہ اردو دنیا میں ان کی شاعری کی اس جہت پر بھی بات کی جا سکے۔
وہ بات اپنی ذات کی کر رہی ہوتی ہیں اور کربلا کا بیان بغیر کسی کوشش کے ان کی شاعری کا حصہ بن جاتا ہے اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک وجہ ان کا وہبی رثائی شعور کہ جس کی مدد سے شاعر کا ابتداء ہی واقعات کربلا اور اس سے جڑے حقائق سے خود کو وابستہ کر کے دنیا کی باطل قوتوں سے خود کو الگ کرنا اور دوسری وجہ شاعر کا وہ آفاقی رجحان جو شاعر کو کائنات کی سچائیوں کو تلاش کرتے کرتے اس مقام پر لے آتا ہے جہاں بطون ذات کو درد کائنات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اس وسیلے کی ضرورت پیش آتی ہے جہاں یہ عظیم قربانی انسانیت کو پوری قوت سے اپنی جانب کھینچتی ہے۔
یہ اس عظیم معجزے کا زندہ کرشمہ ہے کہ پروین شاکر نے اپنے ذاتی غموں اور الام حیات سے نجات کی ایک راہ دیکھی تو انہیں میدان کربلا کے شہسوار یاد آئے،وہ پاک اور پاکیزہ بیبیاں ان کے لئے نجات کا ذریعہ بنیں جن کی عصمتوں کی گواہی خود آسمان نے دی۔
عمر بھر کے لئے اب تو سوئی کہ سوئی معصوم شہزادیاں رہ گئیں
نیند چنتے ہوئے جب ہاتھ ہی تھک گئے،وہ بھی جب آنکھ کی سوئیاں رہ گئیں
وہ ہوا تھی کہ کچے مکانوں کی چھت اُڑ گئی اور مکیں لاپتہ ہو گئے
اب تو موسم کے ہاتھوں ( خزاں میں) اجڑنے کو بس خواب کی بستیاں رہ گئیں
اجنبی شہر کی اولیں شام ڈھلنے لگی،پرسہ دینے جو آئے گئے
جلتے خیموں کی بجھتی ہوئی راکھ پر بال کھولے ہوئے بیبیاں رہ گئیں

پروین کی شاعری میں کلاسیکی رچاؤ اور طلسماتی دنیا جو قاری کو یقیناَ کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے لیکن ذرا غور سے ان کی شاعری کا حرف کلید ملاحظہ ہو تو آپ حیران رہ جاتے ہیں۔
جانے پھر اگلی صدا کس کی تھی
نیند نے آنکھ پہ دستک دی تھی
کیوں وہ بے سمت ہوا جب میں نے
اس کے بازو پہ دعا باندھی تھی

دعا باندھنے کی روایت اہل تشعیوں میں ہے اور پروین شاکر کی شاعری میں ان کا عقیدہ اور ان کے جینے کا ڈھنگ اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصول تک چھلک جاتے ہیں یوں لگتا ہے وہ اپنے عقیدے سے بڑی سے بڑی خوشی اور بڑے سے بڑے غم میں بھی جڑی رہتی ہیں۔
اسی بات کو ممتاز افسانہ نگار محترمہ خالدہ حسین نے پروین شاکر کی شاعری پر لکھے ایک مضمون میں یوں اُجاگر کیا تھا۔"شعری روایت میں ایک اثناء عشری گھرانے میں آنکھ کھولنے والی بچی ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی شعر کے آہنگ کو جزو سماعت بنا چکی ہوتی ہے،شاعری میں میر انیس کے اشعار غیر شعوری طور پر اس کی لفظیات کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں"خوشبو کی ہم سفر از سلطانہ بخش۔
کربلا میں شب عاشور امام حسین نے اپنے رفیقوں سے فرمایا کہ اگر آپ اصحاب و اقربا میں سے کوئی بھی مجھے چھوڑ کر جانا چاہے تو آزاد ہے اسی خیال کے پیش نظر آپ نے دیے بجھا دیئے اور خیموں میں اندھیرا چھا گیا۔آپ وقت کے امام تھے اور جانتے تھے کہ رفیقوں کی مشکلیں کیسے سہل ہوں گی چراغ جلتا رہے گا تو آپ کے جانثار ساتھی کچھ کہہ نہ پائیں گے یا چھوڑ جانے پر ندامت محسوس کریں گے آپ علیہ السلام نے دیے بجھا کر ایک تاریخی روایت قائم کر دی اسی بات کو پروین شاکر نے اپنی شاعری میں اس طرح اُجاگر کیا ہے۔
امام پاک کے ساتھی تو جانثار تھے مگر پروین کے رثائی شعور نے اپنے دوستوں کا احوال کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے۔
اس وقت بھی خموش رہی چشم پوش رات
جب آخری رفیق بھی دشمن سے مل چکا

جب ان کا دوسرا مجموعہ کلام صد برگ طبع ہوا تو وہ کہہ رہی تھیں "صد برگ آتے آتے منظر نامہ بدل چکا تھا میری زندگی کا بھی اور اس سرزمین کا بھی جس کے ہونے سے میرا ہونا ہے۔
رزم گہ جاں میں ہم نے کئی معرکے ایک ساتھ ہارے اور بہت سے خوابوں پر اکھٹے مٹی برابر کی۔شام غریباں کہ پینٹنگ کیسی بنے گی؟کوفہ شہر کے منارے سبز تو نہیں ہو سکتے نا۔سچائی جب مخبروں میں گھر جائے تو گفتگو علامتوں کے سپرد کر دی جاتی ہے ایک بار پھر صد برگ اور آپ اکٹھے ہو رہے ہیں۔یہ تو صد برگ کے باردگر ایڈیشن میں ان کی تحریر تھی جبکہ اس کے دیباچے میں وہ یوں گویا ہوتی ہیں۔
"زندگی کے دشت بلا میں سچائی جب اپنے وقت عصر کو پہنچ جائے تو کون و مکاں میں صرف ایک پکار باقی رہ جاتی ہے۔ہل من ناصر ینصرنا۔پروین کا رثائی شعور کہیں بھی اور کسی بھی جگہ اپنے اظہار کے لئے جگہ بنا لیتا ہے اب اس غزل کو ہی دیکھئے جو ہر خاص و عام کو ازبر ہے۔
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے,مرے ہونے کی گواہی دیں گے
آستیں سانپوں کی پہنیں گے گلے میں مالا
اہل کوفہ کو نئی شہر پناہی دیں گے

جب یہ کتاب طبع ہوئی تو پروین شاکر نے کہا اسے لکھتے ہوئے وہ بہت ڈپریسڈ تھیں اور اس کتاب کا نام ہوا برد تجویز کیا جسے بعض دوستوں کے کہنے پر تبدیل کر دیا تھا اس کتاب نے ان کے ارتقاء پذیر شعری رویے میں ہری اینٹ کا کردار ادا کیا اور اس سفر میں انہوں نے بے انت سفر طے کیا یہ رثائی شعور ان کے شعروں میں اس کے بعد مستقل ایک شعری رویے کے طور پر سامنے آتا ہے۔
پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
کوئی مقتل کو گیا تھا مدتوں پہلے مگر
ہے در خیمہ پہ اب تک صورت تصویر کون
میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری،پھر دے گیا تشہیر کون

یہ رجحان ان کی غزلوں میں ہمیں بڑی تواتر سے نظر آتا ہے
ہے رستہ بھی کھٹن ،دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی
خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں،مسافت بھی بہت تھی

زخمی سے مراد حضرت امام حسین کے بڑے صاحب زادے امام زین العابدین علیہ السّلام ہیں جو قافلہ سالار حسینی تھے۔
یہ سچائیاں اور آفاقیت اور اہل بیت پاک سے ان کی وابستگی خوشبو سے کف آئینہ تک اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ان کے کلام کو سرمہء چشم بنا کر رکھا جاتا ہے اور کتابوں کی طلب یکساں رہتی ہے اور عام و خواص سے ان کی محبت کا جو رشتہ ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتا ان کے کلام میں جو سوز و گداز ہے یہ وہ وصف ہے جس نے انہیں روح عصر بنا دیا ہے۔
میر انیس و دبیر نے جس طرح واقعات کربلا کو ایک تاریخی ورثہ بنایا اس کی مثال نہیں ملتی تاہم دیگر شعراء نے بھی اس عظیم قربانی کو جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی ہے اپنے فن شعر سے اس کی بے مثال واقعات نگاری کی لیکن برصغیر میں جہاں علوم و فنون کے ذریعے اس واقعے کو زندہ رکھنے کے لئے تخلیق کاروں نے اپنے حصے کی شمعیں روشن کی۔وہیں میر،غالب،فیض،احمد ندیم قاسمی،نجم آفندی تک شاعروں نے دلوں کو یوں گرمایا جیسے وہ خود بوقت شہادت امام حسین کے ساتھ تھے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شاعری کے ذریعے دنیا کی تاریخ میں انسانیت کو درپیش اس عظیم الشان واقعے نے باطل قوتوں کو سرنگوں کر دیا اور حق اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نشان راہ قرار پایا۔پروین شاکر کی ایک نظم ہے۔شام غریباں جو صد برگ میں موجود ہے۔شام غریباں!

غنیم کی سرحدوں کے اندر
زمینِ نامہرباں پہ جنگل کے پاس ہی
شام پڑ چکی ہے
ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے
اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو
جو اپنی نوخیزیوں کی پہلی رتوں میں
رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے
اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک
جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر
ردائے عفت اوڑھانے والے
بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں
بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ
ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا
مگر وفا کی سبیل بن کر
فضا سے اب تک چھلک رہا ہے
برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں
کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں
بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے
والے پھولوں کو چومتی ہیں
چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں
بدلتے،سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ
حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے
چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں
کٹے ہوئے سر
شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں
کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جا رہی ہے۔
ان کی ایک اور نظم اوفو پہھدک بھی دوسرے مجموعے صد برگ میں موجود ہے جسے پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے مقتل کو نظم کر دیا گیا ہے واقعات کو انہوں نے اسی ترتیب سے بیان کیا جو امام عالی مقام کو بوقت شہادت درپیش تھے۔اس نظم میں دراصل انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے اصل مقصد کو اُجاگر کیا ہے۔وَاُوفَ بِعہدِکَ
(حضرت امام حُسینؓ کے آخری الفاظ)

کنارِ دریا
اب آخری بار رن پڑا ہے
علم کی نُصرت کو جانے والے وُہی جری پاس بج رہے ہیں
کہ جو مری ذریّت میں ہیں
اور جاں سپاری
جنھیں اب وجد سے ورثہ افتخار بن کر عطا ہوئی ہے!
لڑائی کی رات
گفتگو میں وہ لمحہ آیا تھا
جبکہ میں اپنے خیمہ کے سب دیے بجھا کر چلا گیا تھا
مرے رفیقوں کی مُشکلیں کچھ تو سہل ہوتیں
مگر چراغوں کی لو بڑھانے کے ساتھ ہی
فیصلے کی ساعت گزر چکی ہے
مبارزت کی نوید میرے شجیع لوگوں کو مل چکی ہے
مرے ہراول جوان ایک ایک کر کے کام آ رہے ہیں
مجھ کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہو چکی ہے
کہ میرا پرچم ہوا کے آگے زیادہ عرصہ نہیں رُکے گا!
سبھی طرف سے غنیم گھیرے کو تنگ تر کرتا جا رہا ہے
یہ ہاتھ سے ڈھال چھوٹنے کی صدا مجھے کس طرف سے آئی
گُماں ہے شاید مرا کوئی شہسوار گھوڑے سے گر گیا ہے!
مرے یمین و یسار نیزوں کی زر پہ ہیں
میرا قلب پہلے ہی برچھیوں سے چھدا پڑا ہے
عقب تک اب تو بجھے ہوئے تیر آ رہے ہیں!
وہ رن پڑا ہے کہ صحنِ مقتل ہماری لاشوں سے پٹ گیا ہے
برہنہ لاشوں کو اب تو گھوڑے بھی روند کر آگے جا چکے ہیں
میں بکھرے ٹکڑوں کو جمع کرتے
بریدہ سر سے بدن کی نسبت تلاش کرتے
کنارہ روح تک شکستہ ہوں----تھک گیا ہوں
بُہت کڑا وقت ہے کہ اس مجمع عزیزاں میں آج تنہا کھڑا
ہوا ہوں!
تمام زخموں سے چُور ہوں میں
مگر شہادت گہِ وفا میں
لہو سے رسمِ وضو کی تکمیل کرنے سے قبل
اپنے سجدے کی مستجابی کی تہنیت مجھ کو مل چکی ہے!
مرا یہ اعزاز کم نہیں ہے
کہ اتنے تِیروں میں ایک بھی تیر وہ نہیں تھا
کہ جو کسی پُشت سے نکالا گیا ہو
ہنگامِ عصر----مقتل سے سرخرو ہوں
کہ میرے توشے میں جتنے وعدے تھے----اتنے سر ہیں!
ان کی تمام شاعری کا مزاج دراصل امید،حوصلہ اور بے جگری سے حالات کا مقابلہ کرنا ہے،کھلے ہوئے سر جلے ہوئے خیمے اور ردائے عفت اوڑھانے والے بریدہ بازوؤں کا ذکر ان کی شاعری میں زندگی کے الام سے نجات حاصل کرنے کا استعارہ ہے۔
وہ جہاں بھی سہارے کی متمنی دیکھی گئیں انہوں نے کربلا کو یاد کیا۔پروین اپنی ذاتی مشکلات،ملکی حالات،بین الاقوامی معاملات اور عمومی طور پر معاشرے کو درپیش مسائل میں اہل بیت پاک،خانوادہ رسولِ پاک اور برگزیدہ ہستیوں کی ذات میں ان کا حل تلاش کرتی ہیں۔
نثری نظم

وان دنوں
میری اپنے آپ سے بول چال بند ہے!
میرے اندر ایک بانجھ غُصہ
پھنکارتا رہتا ہے
نہ مجھے ڈستا ہے
نہ میرے گرد اپنی گرفت ڈھیلی کرتا ہے
نینوا کی سرزمین
ایک بار پھر سُرخ ہے
فرات کے پانی پر
ابنِ زیاد کے طرفداروں کا ایک بار پھر قبضہ ہے
زمین اور آسمان
ایک بار پھر ششماہے کا لہو
وصول کرنے سے انکاری ہیں
اور میرے چہرے پر اب مزید لہو کی جگہ نہیں!
فاتح فوج روشنی اور آگ کے فرق کو نہیں سمجھتی!
صحرا کی رات کاٹنے کے لئے انہیں آلاؤ کی ضرورت تھی
سو انہوں نے میرے کتب خانے جلا دیئے!
لیکن میں احتجاج بھی نہیں کر سکتی
میرے بالوں میں سرخ اسکارف بندھا ہے
اور میرے گلاس میں کوکا کولا ہنس رہا ہے
میرے سامنے ڈالر کی ہڈی پڑی ہوئی ہے
وہ تمام مظلوم اقوام کو کربلا کے مظلوموں کے ساتھ وابستہ کر کے ان کا استغاثہ بلند کرتی دکھائی دیتی ہیں انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں حمایت علی شاعر کو بتایا تھا کہ وہ کربلا پر لکھنا چاہتی ہیں۔
ان کی بے وقت موت سے ان کے بہت سے کام ادھورے رہ گئے تاہم پروین کی شاعری میں کربلا ایک باقاعدہ استعارے کی حیثیت اختیار کر چکا تھا انہوں نے رثائی ادب کے حوالے سے کوئی الگ خانہ نہیں بنایا نہ ہی انہیں سلام،نوحہ اور مرثیہ گو شاعروں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن محبت اہل بیت ان کے خون میں رچی بسی تھی ان کے گھر میں مجالس عزا منعقد کی جاتیں گھر میں انیس و دبیر کے مرثیے پڑھے جاتے جو عمومی طور پر اہل تشیع گھرانوں میں حافظے کا حصہ ہوتے ہیں۔
کربلا کے استعارے اور اہل بیت پاک سے ان کی وابستگی سطحی نہیں انہوں نے ذات سے لے کر بطون ذات اور درد کائنات ہر جا ان مقدس ہستیوں سے استغاثہ کیا اور انہیں اپنے درد کا گواہ بنایا ہے۔ہم دیکھتے ہیں وہ جہاں کہیں شدید تنہائی اور بے بسی کا شکار ہو جاتی ہیں کربلا کا استعارہ ان کے لئے ایک ڈھال کا کام دیتا ہے اور وہ زندگی کی پر آشوبی میں جینے کا جواز ڈھونڈ لیتی ہیں جنگلوں میں شام اتری خون میں ذات قدیم/ دل نے اس کے بعد انہونی کا ڈر رکھا نہیں۔
(انکار) انہیں اپنے سادات ہونے پر گونہ فخر کا احساس بھی بڑی خوبصورتی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔شجرہء اہل درد کس سے ملے۔شہر میں کون رہ گیا ہے نجیب! (انکار) بلاشبہ یہ عظیم مقصد کربلا ہر بڑے تخلیق کار کے لئے زندگی کی سب سے بڑی ڈھال ہے جب چاروں طرف اندھیرا ہو اور نور کو ظلمات نے گھیر رکھا ہو تب ایک ہی سہارا اور وسیلہ باقی رہ جاتا ہے پروین اپنی تخلیقی تنہائی میں جس عروج پر پہنچ گئیں اس کا اظہار ان کی شاعری پر گہری نگاہ رکھنے والے فوراً محسوس کر لیتے ہیں انہوں نے خود کو حالات کے خونی پنجوں کے حوالے کرنے کے بجائے باب العلم سے یوں استغاثہ کیا اور کہا۔
لیکن سورج خوروں کی اس بستی تک آ کر تو تیرا نام بھی رک جاتا ہے/فاتح خیبر اپنے ہاتھوں کو پھر جنبش دے/ساقیء کوثر ایک دفعہ نظریں تو اٹھا/دیکھ کے تیرے ماننے والے/ذرا سی پیاس پہ کیسے فرات کو وار چکے۔( علی مشکل کشا سے،از صد برگ) وہ ان تخلیق کاروں میں شامل ہیں جو بلند حوصلگی اور عالی ہمتی سے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔
یہ راہ عشق ہے مقتل سے ہو کے آتی ہے
سو اس سفر میں کوئی دل میں ڈر نہیں لاتا
سوادِ شام اسیروں میں کون شامل ہے
بلا سبب کوئی نیزے پہ سر نہیں لاتا

امام عالی مقام کی عالی ہمتی ان کے جینے کا جواز بنتی رہی۔
گرچہ لکھی ہوئی تھی شہادت امام کی
لیکن میرے حسین نے حجت تمام کی!

واقعہء کربلا کو حادثہ اور سانحہ کہنا درست نہیں کیونکہ حادثات رونما ہوتے اور ذہن سے محو ہو جاتے ہیں اس عظیم قربانی کو تہذیب کہنا زیادہ مناسب ہو گا جس میں انسانی رشتے اپنی معراج پر پہنچ جاتے ہیں اور دین حق کی سربلندی کے لئے گھر بار لٹانے کو افضل جانتے ہیں پروین شاکر نے زندگی کے مشکل حالات میں کربلا کے عظیم مقصد کو اپنی ڈھال بنایا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ یہ واقعہء کربلا ٹریجڈی نہیں کیونکہ ٹریجڈی میں کردار تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے لیکن امام حسین نے مسلسل خدا سے ڈائیلاگ کیا۔پروین نے ان کی سچی پیروکار ہونے کا ثبوت دیا اور کہا کہ زندگی کے دشت بلا میں سچائی جب اپنے وقت عصر کو پہنچ جائے تو ایک پکار باقی رہ جاتی ہے ہل من ناصر ینصرنا، یہ شعر دیکھیے کتنا خوبصورت ہے۔زندگی پھر تجھے درپیش ہے زندان دمشق/اشقیاء پھر ترے کانوں سے گہر کھینچتے ہیں پروین کے اولین کلام خوشبو میں ہی ان کا نصب العین طے ہو گیا تھا۔
پہروں کی تشنگی میں بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں روح مجھے کربلائی دے

ان کی اپنے عقیدے سے وابستگی ڈھکی چھپی نہیں۔بلکہ انہوں نے زندگی کی ہر مشکل میں ان عظیم ہستیوں سے توسل کیا کہ جنہوں نے احیائے دین کے لئے مشعلِ راہ کا کام کیا۔پروین نے بی بی زینب سلام اللہ علیہا سے جو توسل کیا وہ استغاثہ ان کے دوسرے مجموعے صد برگ میں موجود ہے۔
کوفہء عشق میں میری بے چارگی۔اپنے بالوں سے چہرہ چھپائے ہوئے ہاتھ باندھے ہوئے سر جھکائے ہوئے زیر لب ایک ہی اسم پڑھتے ہوئے یا غفو الرحیم یا غفو الرحیم! ان کے ہاں فنی ضمیر بڑی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے وہ عنوان کا ذکر کرتی ہیں اور پورے منظر کی تصویر کشی ہو جاتی ہے ان کے چوتھے مجموعہء کلام انکار کی ایک نظم "سندھ کی بیٹی کا اپنے رسول سے ایک سوال میں انہوں نے اس طرح اپنے شہر کے بے وارث ہونے کا استغاثہ کیا ہے وہ لٹی ہوئی پامال بستی کی نمائندہ آواز بن گئی ہیں۔
جو شہر اپنی شخصیت میں شبنم تھا، گلاب تھا،صبا تھا۔اب آگ ہے خون ہے دھواں ہے۔شعلے اسے کیوں نگل رہے ہیں بارود میں کیوں نہا رہی ہے۔یہ شہر ہے سانحہ ہے کوفہ ہے کربلا ہے۔ کیا ہے چونکہ پروین کی شاعری روح جمالیات بھی ہے سو انہوں نے کربلا میں امام حسین کو پیش آنے والے مصائب کو بھی اپنے لہجے کی قربانی دیئے بغیر اُجاگر کیا ہے۔دوسری جانب اہل بیت سے ان کی غیر مشروط محبت،وابستگی اور عقیدت پکار پکار کر قاری کو ان کے نصب العین کا پتا دیتی ہے۔
پابہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے میری زنجیر کون
میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے
کر رہا ہے میری فرد جرم کو تحریر کون

پروین شاکر کی شاعری کے وہ پہلو جو عامتہ الناس کی نظروں سے اوجھل رہ گئے ان پر ہم مسلسل بات کرتے رہیں گے۔
میرا نوحہ کناں کوئی نہیں ہے/سو اپنے سوگ میں خود بال کھولوں!کوئی پوچھے کہ زباں کیا ہے تری تو پروین/ وقت ایسا ہے کہ بہتر ہے تقیہ کر لیں۔

پھر یہ نظم بھی دیکھئے کہ جس میں امام حسین اپنے جاں نثار ساتھیوں اور با وفا اعزاء سے رخصت ہونے سے قبل مسلسل خدا سے اس عہد کی تجدید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس کی ذمے داری رسول پاک کے اہل بیت کو سونپی گئی۔۔وَاُوفَ بِعہدِکَ
(حضرت امام حُسینؓ کے آخری الفاظ)

کنارِ دریا
اب آخری بار رن پڑا ہے
علم کی نُصرت کو جانے والے وُہی جری پاس بج رہے ہیں
کہ جو مری ذریّت میں ہیں
اور جاں سپاری
جنھیں اب وجد سے ورثہ افتخار بن کر عطا ہوئی ہے!
لڑائی کی رات
گفتگو میں وہ لمحہ آیا تھا
جبکہ میں اپنے خیمہ کے سب دیے بجھا کر چلا گیا تھا
مرے رفیقوں کی مُشکلیں کچھ تو سہل ہوتیں
مگر چراغوں کی لو بڑھانے کے ساتھ ہی
فیصلے کی ساعت گزر چکی ہے
مبارزت کی نوید میرے شجیع لوگوں کو مل چکی ہے
مرے ہراول جوان ایک ایک کر کے کام آرہے ہیں
مجھ کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہو چکی ہے
کہ میرا پرچم ہوا کے آگے زیادہ عرصہ نہیں رُکے گا!
سبھی طرف سے غنیم گھیرے کو تنگ تر کرتا جا رہا ہے
یہ ہاتھ سے ڈھال چھوٹنے کی صدا مجھے کس طرف سے آئی
گُماں ہے شاید مرا کوئی شہسوار گھوڑے سے گر گیا ہے!
مرے یمین و یسار نیزوں کی زر پہ ہیں
میرا قلب پہلے ہی برچھیوں سے چھدا پڑا ہے
عقب تک اب تو بجھے ہوئے تیر آرہے ہیں !
وہ رن پڑا ہے کہ صحنِ مقتل ہماری لاشوں سے پٹ گیا ہے
برہنہ لاشوں کو اب تو گھوڑے بھی روند کر آگے جا چکے ہیں
میں بکھرے ٹکڑوں کو جمع کرتے
بریدہ سر سے بدن کی نسبت تلاش کرتے
کنارہ روح تک شکستہ ہوں ---- تھک گیا ہوں
بُہت کڑا وقت ہے کہ اس مجمع عزیزاں میں آج تنہا کھڑا
ہوا ہوں!
تمام زخموں سے چُور ہوں میں
مگر شہادت گہِ وفا میں
لہو سے رسمِ وضو کی تکمیل کرنے سے قبل
اپنے سجدے کی مستجابی کی تہنیت مجھ کو مل چکی ہے!
مرا یہ اعزاز کم نہیں ہے
کہ اتنے تِیروں میں ایک بھی تیر وہ نہیں تھا
کہ جو کسی پُشت سے نکالا گیا ہو
ہنگامِ عصر----مقتل سے سر خرو ہوں
کہ میرے توشے میں جتنے وعدے تھے----اتنے سر ہیں! دوسری جانب یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پروین شاکر نے زندگی کے اس شور میں کہ جب ہجوم میں صحیح اور غلط کے درمیان حد فاصل قائم نہیں رہ پاتا اور زندگی پر اعتبار اٹھنے لگتا ہے انہوں نے اپنے شعری شعور کا علم۔
بلند کیا اور اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لئے خاموش رہنے کو ڈھال بنا لیا اس خاموشی کا حرف کلید بھی ان کا رثائی شعور ہے جس نے انہیں ہر لمحہ تھامے رکھا اور وہ بھی اس کے سائے میں پناہ لیتی رہیں جب کبھی بھی زندگی کو ناہموار ہوتے دیکھا۔
سو اب یہ شرطِ حیات ٹھہری
کہ شہر کے سب نجیب افراد
اپنے اپنے لہوُ کی حُرمت سے مُنحرف ہو کے جینا سیکھیں،
وہ سب عقیدے کہ ان گھرانوں میں
ان کی آنکھوں کی رنگتوں کی طرح تسلسل سے چل رہے تھے
سُنا ہے باطل قرار پائے ہیں،
وہ سب وفاداریاں کہ جن پہ لہوُ کے وعدے حلف ہوُئے تھے
وہ آج سے مصلحت کی گھڑیاں شمار ہوں گی
بدن کی وابستگی کا کیا ذکر
رُوح کے عہد نامے تک فسخ مانے جائیں!
خموشی و مصلحت پسندی میں خیریت ہے
مگر مِرے شہرِ منحرف میں
ابھی کچھ ایسے غیوُر و صادق بقیدِ جاں ہیں
کہ حرفِ انکار جن کی قیمت نہیں بنا ہے
سو،حاکمِ شہر جب بھی اپنے غلام زادے
انہیں گرفتار کرنے بھیجے
تو ساتھ میں ایک ایک کا شجرہء نسب بھی روانہ کرنا
اور اُن کے ہمراہ سرد پتھر میں چُننے دینا
کہ آج سے جب ہزارہا
سال بعد ہم بھی
کِسی زمانے کے ٹیکسلا یا ہڑپہ بن کر تلاشے جائیں
تو اُس زمانے کے لوگ ہم کو
کہیں بہت کم نسب نہ جانیں! پروین کی ایک غزل جس کا مطلع کچھ یوں ہے،
اس سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں
وہ خود آئے تو بہت سرد رویہ کر لیں

جبکہ اس شعر کا مقطع کچھ اس طرح ہے کہ کوئی پوچھے کہ زباں کیا ہے تری تو پروین/وقت ایسا ہے کہ بہتر ہے تقیہ کر لیں۔
یہاں فقہی احکام کے مطابق تقیہ مومن کے لئے پردہ ہے۔یہاں تقیہ سے مراد اپنے عقائد کو دشمنوں کے خوف سے چھپا کر خاموشی سے ان پر عمل پیرا ہونا ہے۔پاکستان میں مسلکی اختلاف کی بناء پر لوگ ایک دوسرے کی زندگی کے دشمن ہو جاتےہیں اور بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے سو ایسے میں پروین شاکر جیسے بالغ نظر تخلیق کاروں کے یہاں چپ سادھ لینے کو ہی عافیت جانا گیا۔ان کا رثائی شعور یقیناً مستقبل میں محققین کے لئے ایک نئے زاویے سے تحقیق کا موضوع بنے گا۔

Browse More Urdu Literature Articles