Jalti Hawa Ka Geet - Article No. 2583

Jalti Hawa Ka Geet

جلتی ہوا کا گیت - تحریر نمبر 2583

ثروت کا فن مسلسل ارتقاء کی منازل طے کر رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ایک عالم ان کا سواگت گہرے سرخ گلابوں سے کرے گا

بدھ 27 ستمبر 2023

ڈاکٹر ثروت زہرا
کبھی کبھی الفاظ اپنے پورے وجود کے ساتھ دھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ایسے کہ ان کی خوشبو ذہن کی پوروں میں اُتر جاتی ہے ان میں رکھا ہوا دل نبضوں میں دھڑکتا ہے، پس لفظ چُھپے ہوئے نوحے اور سرشاریاں یوں محسوس ہوتے ہیں کہ ان میں ایک عالم کے پورے اور ادھورے عکس دکھائی دینے لگتے ہیں اردو شاعری میں ایسی ہی ایک مثال ثروت زہرا نے قائم کی ہے وہ کراچی میں پیدا ہوئیں اور یہیں سے اپنی تعلیم مکمل کی، اسی شہر سے بطور شاعرہ انہیں پہچان ملی پیشے کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر اور شاعری ان کی فطرت میں شامل ہے جو انہیں ورثے میں ملی ان کے والد کاظم عباس زیدی بھی شاعر ہیں۔
متحدہ عرب امارات منتقل ہونے سے قبل وہ کچھ عرصہ اسلام آباد میں مقیم رہیں، اسلام آباد کے ادبی حلقوں کی جانب سے انہیں بھرپور پذیرائی حاصل رہی جس کے بعد ان کا شمار ممتاز شعراء میں کیا جانے لگا 2003 میں ان کتاب جلتی ہوا کا گیت اکادمی ادبیات کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی 160 صفحات پر مشتمل یہ کتاب نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے ادبی حلقے انہیں فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اور پروین شاکر کا تسلسل قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے ہاں مجرد تصورات (Abstract Conceptions) کو جس آسانی سے بیان کیا جاتا ہے اس خوبی نے انہیں ان کی تمام ہمعصر شاعرات سے ممتاز کر دیا ہے سائے کا اضطراب اس دعویٰ کی ایک خوبصورت دلیل ہے۔

(جاری ہے)



سائے کا اضطراب
آج تم تک پہنچ کر
تمہاری آنکھوں کے آئینوں میں جھانک کر
خود کو ٹٹولا تو معلوم ہوا
میرا جسم تو تم تک آتے آتے
کہیں بیچ رستے میں گم ہو گیا تھا
میرا دل کسی اور سینے میں دبا دیا گیا تھا
میرے ہونٹ سرخیوں کی تہوں کے نیچے پڑے پڑے
سیاہ ہو چکے تھے
میری خوشبو
جو میں تمہارے لئے لا رہی تھی
کسی پچھلے جھونکے نے
اپنے جسم میں ٹانک لی تھی
میرا خواب اپنی رات کی کوکھ میں
غلطی سے، کسی اور کیلئے
صبح کا پہلا حرف رکھ چکا تھا
میرے قلم کی روشنائی کو
لفظ کا ایک سمندر پی چکا تھا
اور میری آنکھوں کی پتلیوں میں
ناچتی روشنی کی
کسی سراب سے دوستی ہو چکی تھی
اور اب وہ اسی کے ساتھ بہہ رہی تھی
سو اب تمہاری آنکھوں کے آئینوں میں
میں نہیں
صرف ایک سائے کا اضطراب ڈولتا نظر آ رہا ہے

دل سینے میں دبا دیا گیا، ہونٹ سرخیوں کی تہوں کے نیچے پڑے پڑے سیا ہ ہو گئے اور تمہاری آنکھوں میں سائے کا اضطراب اردو شاعری میں بہت نایاب اور نادر تصورات ہیں جو ان کے فطری شاعرہ ہونے کا پتہ دیتے ہیں ثروت کی شاعری 90 کی دہائی میں منظر عام پر آئی جب وہ میڈیکل کی طالبہ تھیں انہوں نے نثری نظموں سے شاعری کی شروعات کی ان کی ابتدائی نظموں میں بیان کا وہی حسن ہے جو ابتدائی شاعری میں رومان پرور شاعری کا خاصہ ہوا کرتا ہے ایک طرف تو ان کی تشبیہیں (Similes) اور (Metaphors) استعارے کسی اور جہان میں لے جاتے ہیں تو دوسری جانب محبوب سے مخاطب ہو کر ان کا لہجہ خالص مشرقی عورت کی تصویر پیش کرتا ہے ناز، ادا اور لگاوٹ سے بھرا ہوا لہجہ جس پر غیر کا تصور بھی گراں گزرتا ہے خواہ وہ ان کی کوتاہی کیوں نہ ہو لیکن ان کو اپنے جذبے کی سچائی پر بھرپور اعتماد ہے یہ لہجہ آگ اور پھول کے رشتے کی مانند ہے کلاسیکی شعراء میں یہی لہجہ داغ دہلوی کا ہے جنہوں نے اس لگاوٹ سے اپنے محبوب سے باتیں کی ہیں ثروت بھی اسی قبیل کی فرد ہیں۔


یہ کوتا میری سوتن ہے
اے میری سکھی کیا تجھ سے کہوں
میرے ہر گھر کے رستے سے
پہلے اس کا گھر پڑتا ہے
اس میرے سونے آنگن میں
جب ساجن آنے لگتا ہے
میں جانوں اسکی آہٹ پر
یہ پنے کواڑ بجاتی ہے
اور مجھ کو خوب جلاتی ہے
یہ کوتا میری سوتن ہے

ان حرفوں کے اور باتوں کے
کچھ ایسے جال یہ بُنتی ہے
ساجن آئے مجھ سے ملنے
اور یہ اس سے مل جاتی ہے
میں اپنے گھر کے جھروکوں سے
بس اس کو تاکا کرتی ہوں
اور دل میں کڑھتی رہتی ہوں
یہ کوتا میری سوتن ہے

یہ میرے سپنوں خوابوں کو
جو سارا دن میں چنتی ہوں
ساجن کے آنے آنے تک
کاغذ کو بانٹ کے جاتی ہے
اور مجھ کو خوب جلاتی ہے
یہ کوتا میری سوتن ہے

جب جذبے برکھا لاتے ہیں
تو میرے سنگھار سے پہلے ہی
میرے اس مسیّ کاجل سے
لہجوں کو رنگ پلاتی ہے
ساجن کو چھب دکھلاتی ہے
اور مجھ کو خوب جلاتی ہے
یہ کوتا میری سوتن ہے

ان کی جلتی ہوئی روح جب غمِ دنیا سے روشناس ہوئی تو ان پر آگہی کے نئے دروا ہوئے ان میں بیان کا جو (Natural spark) ہے اس نے انہیں (بالخصوص نظم پر عبور نے) باقی تمام ہمعصر شاعرات سے ممتاز مقام عطا کیا ہے چونکہ پیشے کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر ہیں یہی وجہ ہے ان کا ڈکشن بالکل جدا گانہ ہے، جیسے کوکھ دماغ میں (Squeeze) ہو گئی، شعور کی (DTT) رپورٹ، خوابوں کا (Abortion) اور ہوائیں حاملہ ہیں جیسی (Imageries) ان کی ایجادیں ہیں جو پڑھنے والے کو اپنے حصار میں رکھتے ہیں جبکہ ان کی شاعری میں پنہاں گہری حساسیت اس بات کی غماز ہے کہ چیڑ پھاڑ کے عمل سے گذرنے کے باوجود بھی وہ سراپا دل ہیں اس کے علاوہ ادبی پس منظر نے ان کے خیال کو اور بھی جلا بخشی ہے جبکہ ان کے خیال کا کینوس لامحدود ہے جو نئی نئی تشبیہات سے کھرے اور سچے لفظوں میں اپنا اظہار کرنا جانتا ہے۔
عام طور پر خواتین سے روایتی شاعری کی توقع کی جاتی ہے جو ایک محدود پیمانے سے پرے نہیں دیکھ سکتیں ایسی شاعری جس میں محبوب کا ہجر، وصل کی سرشاریاں اور رُت جگوں کے ذائقوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا، ثروت کا معاملہ یہاں بھی مختلف ہے انتہائی داخلی جذبات اور ذاتی کرب میں بھی وہ پوری کائنات کا نوحہ بیان کر دیتی ہیں ان کی یہ نظم میرا بچہ لاکھوں میں ایک، ایک بے بدل نظم ہے۔


میرا بچہ لاکھوں میں ایک
میرے بچے
تو بھی سرکاری اسپتالوں میں
کلبلاتے ہوئے
ہزارو ں بچوں میں سے ایک ہے
جنہیں مائیں
جراثیم زدہ بستروں پرکراہتے ہوئے جنم دے رہی ہیں
اور سیلن زدہ کمروں کی
اجڑی ہوئی ہوا، انہیں
زند گی کی پہلی سانس دے رہی ہے
میرے بچے
تو بھی ان ہزاروں آوازوں میں سے ایک ہے
جنہیں سننے کیلئے
کوئی بھی زمانہ دروازے سے کان لگائے نہیں کھڑا ہے
تو بھی ان ہزاروں جسموں میں سے ایک ہے
جنہیں جسم کی کوکھ سے زمین کی کوکھ تک
تسلسل میں شامل ہو جانا چاہیے
میرے بچے
تجھے بھی زمانے کے انبوہِ بے کراں میں
شامل ہونے کیلئے پیدا ہو جانا چاہیے

آگہی اور وہ ہر دم جاگتے رہتے ہیں یہاں تک کہ گہرے خنک اندھیرے بھی ان کی اس خوبی کو بجھا نہیں سکتے انہوں نے دل کی آنکھ اور بصیرت سے یوں کام لیا ہے کہ اب ان کی شاعری کو محض خاتون کی شاعری کہنا درست نہیں ہو گا جبکہ (E.S.P) یعنی (Extra Sensory Perception)ماورائے حواس تناظر مغرب کی میراث نہیں ہمارے ہاں بھی اس کی بہت درخشندہ مثالیں موجود ہیں جدید حسیت کی شاعرہ ہونے کے باوجود انہوں نے حسیات سے آگے جا کر ایک منزل کو سر کر لیا ہے جسے بصیرت کہتے ہیں۔


خود کلامی
کیا میں بس جسم ہوں
اور کچھ بھی نہیں
خوف کی قسم ہوں
اور کچھ بھی نہیں
آپ کے خوابوں کے رنگوں میں چھپا؟
آپ کا اسم ہوں
اور کچھ بھی نہیں
جو تیرا حسنِ نظر مانگتا ہے
میں وہ طلسم ہوں
اور کچھ بھی نہیں۔۔؟؟

یہی نہیں انہوں نے خواتین کی معاشرے میں حالتِ زار کو نہ صرف اپنی شاعری میں سمویا بلکہ اس صورتِ حال کے خلاف اپنے انداز میں اپنے حصے کی شمع کو روشن بھی کیا اور اس ظلم کے آگے سر نہ جھکانے کا اعلان بھی کیا وہ معاشرہ جس میں عورت ہزار راتوں تک اپنی وفا اور اپنے اخلاص کو تسلیم کئے جانے کے انتظار میں پنجوں کے بل کھڑی رہتی ہے اور اس سعی اور انتظار کے جواب میں اسکی صدا، صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے، معاشرے کی بے رحمی، زر پرستی اور سفاکیت نے عورت کے کردار کو یوں محدود کر دیا ہے کہ اب یا تو قلب و نظر کی تجلیوں کا باعث ہے، یا قدموں کی دھول جسے نظر اٹھا کر دیکھنے کی اجازت نہیں ثروت نے بڑی جرآت سے اپنی بات کہی اور سر اٹھا کر چلنے کا اعلان بھی کیا۔


بنتِ حوا ہوں میں یہ میرا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
میں تماشا نہیں اپنا اظہار ہوں
سوچ سکتی ہوں سو لائق دار ہوں
میرا ہر حرف ہر اک صدا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
مجھ میں احساس کیوں ہو کہ عورت ہوں میں
زندگی کیوں لگوں؟ بس ضرور ت ہوں میں
یہ میری آگہی ہی میرا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
میرا آنچل جلے اور میں چُپ رہوں!!
ظلم سہتی رہوں اور میں چُپ رہوں
جانتی ہوں میرا بولنا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
میرے جذبے رہیں دل کے زندان میں
میری گستاخیاں آپ کی شان میں
آپ کا ذکر بھی تو کڑا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے

انہوں نے غزل بھی لکھی ہے اور خوب لکھی ہے ان کے فن کو اگر مختلف حصوں میں تقسیم کر کے دیکھا جائے تو ایک خوش آئند بات سامنے آتی ہے کہ ان کا فن مسلسل ارتقاء پذیر ہے جو ایک (Genuine) اور سچے شاعر کی پہچان ہے وہ جمود کا شکار دکھائی نہیں دیتیں اور اسی طرح وہ غزل لکھنے کے معاملے بھی ارتقاء پذیر ہیں۔
فکر سے کسی کو بھی ماوراء نہیں کہتے
بندگی کے طالب کو ہم خدا نہیں کہتے

اپنے اپنے حصے کی ہم شکست کھاتے ہیں
جیت جانے والے کو بے وفا نہیں کہتے

اگرچہ ان کی شاعری کا بنیادی بیان داخلی محسوسات ہیں لیکن اس کے باوجو د انہوں نے ماورائے ذات اظہار بھی کیا ہے۔
نظم کی طرح ان کی غزل کی امیجریز بھی نادر و نایاب ہیں جیسے، قلم کی روشنائی نے سیاہ کر دیا مجھے اور جنونِ بندگی نے بے پناہ کر دیا مجھے اپنی ذات میں بالکل نئے تجربات ہیں بعض اوقات لکھنے والے کو خود بھی اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کس بے پنا ہ صلاحیت کا مالک ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس کے کلام کا موازنہ دیگر شعراء کے کلام سے کرتے ہیں بالخصوص وہ شعراء جو ایک ہی زمانے سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے کچھ شعراء ایسے ہیں جن کا کلام پڑھ کر ہمیشہ تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے۔


ہوا کا لمس مسلسل جلا رہا ہے مجھے
قسم خدا کی تیرا ہجر کھا رہا ہے مجھے

بلاشبہ ہجر ایک درد ناک تجربہ ہے مگر اپنے محسوسات کا سچا اظہار کرنے والا ہی یہ بتا سکتا ہے کہ عشق کی منزلیں طے کرتے ہوئے ہجر کو کیسا پایا

رگوں میں رقص کا عالم یہ ساعتوں کا جنوں
میرے خیال سے کوئی بلا رہا ہے مجھے

لرز رہا ہے ہواؤں کے خوف سے یہ بدن
میرا وجود بھی اب تو ڈرا رہا ہے مجھے

بیاج نیند کے پہلو میں کون رکھے گا
جگانے والا تو یونہی جگا رہا ہے مجھے

جو لڑکھڑائے گی دنیا تو کون تھامے گا
نظر سے کوئی برابر پلا رہا ہے مجھے

ثروت بھی ان شاعروں میں شامل ہیں جن کی نظم کی طرح غزل میں بھی ابلاغ ہے دل میں اُتر جانے والی بے ساختگی ہے ان کے ذوقِ محبت نے جو مرحلے طے کئے ان کا اثر براہِ راست ان کی شاعری پر پڑا اور ان تجربات نے ان کے فن کو بھی امر کر دیا ہے وہ پاکستان کے علاوہ متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، امریکہ اور بھارت میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شریک ہو چکی ہیں متحدہ عرب امارات اور پاک ہند کے کئی مشاعروں میں انہوں نے کمپئرنگ کے فرائض بھی انجام دئیے تمام بڑے قلمکاروں کی طرح شاعری میں وہ ایک نقطۂ نظر رکھتی ہیں وہ نقطۂ نظر جو ایک فلاحی اور انسانی آسودگیوں سے مزین معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرتا ہے ان کے درد کا بیان ذات سے شروع ہو کر پوری کائنات کو خود میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔


نیو ملینئم
مچھلیاں
مرتبانوں سے سر ٹکرائیں
ہم
ہوا بند شیشوں میں ٹھٹھرا کریں
چہچہاہٹ ریکارڈر پہ چلتی ہوئی
اور پرندے
ہواؤں سے سہما کریں
پھول!!
مصنوعی بارش میں بھیگے ہوئے
زندگی!
صرف اور وم سے دھویا کریں
کانچ کی بوتلوں میں
بکے روشنی
اور موسم تمازت سے بھاگا کریں
روح اور جسم کے بیچ ہے دھند سی
اپنے سایوں کو کس سمت ڈھونڈا کریں
اس زمیں سے خلاء تک دھواں ہی دھواں
رات کے نین کاجل کو ترسا کریں
عینکوں پر جمی گرد کی دھوپ سے
کس طرح؟
بولیے کس طرح
اُس کے چہرے کو دیکھا کریں

ثروت کا فن مسلسل ارتقاء کی منازل طے کر رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ایک عالم ان کا سواگت گہرے سرخ گلابوں سے کرے گا۔

کیا معنی و الفاظ میرا حال کہیں گے
جب درد گلہ گھونٹ لے ہر بار گلو میں 2013 ان کی کتاب وقت کی قید سے شائع ہوئی اور اب 2023 میں کتنے یگ بیت گئے زیرِ اشاعت ہے جو گفتگو کی متقاضی ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles