Maan Aur Parveen Shakir - Article No. 2581

Maan Aur Parveen Shakir

ماں اور پروین شاکر - تحریر نمبر 2581

تہذیب،علم،وقار،شائستگی اور ضبط کی جو تربیت پروین کی والدہ نے انہیں دی اس کی خوبصورت جھلک ہمیں پروین شاکر کی تحریروں میں نظر آتی ہے اردو ادب کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تب بھی ہمیں ایسی مثال نہیں ملتی جو پروین کے تہذیب یافتہ فکری رویے میں نظر آتی ہے

Nusrat Zehra نصرت زہرا منگل 4 جولائی 2023

ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں

پروین شاکر کی والدہ محترمہ افضل النساء بیگم بنت سید کاظم حسین مجھے اب بھی یاد آتی ہیں رضویہ امام بارگاہ میں زنان خانے میں ہونے والی مجالس میں شرکت کرتیں اور خاموشی سے چلی جاتیں ایک دن وہ دوران مصائب گریہ و زاری کر رہی تھیں تو ایک خاتون جنہیں سب شاندار خالہ کے نام سے جانتے ہیں کہنے لگیں کہ یہ افضل باجی ہیں پہلے اسی علاقے میں رہتی تھیں اب نارتھ ناظم آباد چلی گئی ہیں اور ان کی دو بیٹیاں ہیں ایک نسرین شاکر اور ایک کا کار حادثے میں انتقال ہو گیا وہ عبداللہ کالج میں پڑھاتی اور پھر افسر بن کر اسلام آباد شفٹ ہو گئی تھی وہ بھی بچپن میں مجالس و سوز خوانی میں حصہ لیتی اور اس کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اس کا نام پروین شاکر تھا۔

(جاری ہے)

اس بڑھاپے میں انہیں پروین کی جوانمرگی کا صدمہ اٹھانا پڑا۔میں اس وقت بھی پروین کی مداح تھی مگر ذہن میں کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ ایک دن پروین کے فن و شخصیت پر تحقیقی کتاب،مقالے اور مضامین بھی لکھوں گی۔
2002ء میں ایک خاتون نے بتایا کہ افضل باجی کا انتقال ہو گیا۔سال 2009ء میں معروف شاعرہ شاہدہ حسن صاحبہ کے توسط سے پروین کی بڑی بہن نسرین شاکر کا فون نمبر ملا،جس گھر میں وہ مقیم تھیں وہاں طے شدہ وقت پر ملاقات ہوئی۔
وہ دن مجھے اب بھی یاد ہے 16 اگست 2009ء! نسرین شاکر اسی دن میری آپا بن گئیں بڑی محبت سے ملیں اور بڑی خاطر تواضع کی میں نے ملاقات کا مقصد بتایا کہ پروین شاکر کی زندگی اور شخصیت پر کتاب لکھنے کا ارادہ ہے بہت خوش ہوئیں اور ان کی بے پناہ حوصلہ افزائی اور محبت سے کتاب مکمل ہوئی۔پروین شاکر کی شخصیت کے بنیادی ستون ان کی والدہ کے حوالے سے خصوصی بات چیت ہوتی۔
اس ضمن میں انہوں نے ایک ڈائری بھی دکھائی جو ان کی والدہ نے بنا رکھی تھی جس میں پروین سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کی تاریخ درج تھیں۔ایک صفحے پر لکھا تھا یااللہ تیرا شکر ہے آج پارہ سے بات ہو گئی تاریخ تھی 18 دسمبر 1994ء پروین نے ماں سے بڑی محبت کی ان کی خواہش کے مطابق انہیں حج و زیارات پر بھیجا۔وہ ایک مثالی اولاد تھیں اور جب وہ امریکہ سے ایم پی اے کر کے لوٹیں تو ماں سے درخواست کی کہ ان کے پاس اسلام آباد آ جائیں مگر ماں کراچی ہی میں رہنا چاہتی تھیں لہٰذا یہ نہ ہو سکا البتہ جب پروین کی حادثاتی موت ہوئی تو وہ اسلام آباد شفٹ ہو گئیں۔


گنگا سے!

جگ بیتے،دجلہ سے اک بھٹکی ہوئی لہر۔۔۔۔
جب تیرے پوتر چرنوں کو چھونے آئی تو تیری ممتا نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔۔۔۔
اور تیرے ہرے کناروں پر۔۔۔۔
تب انناس اور کھٹل کے جھنڈ میں گھرے ہوئے۔۔۔۔
کھپریلوں والے گھروں کے آنگن میں کلکاریاں گونجیں۔۔۔۔
میرے پرکھوں کی کھیتی شاداب ہوئی۔۔۔۔
اور شگن کے تیل نے دیے کی لو جو اونچا کیا۔
۔۔۔
پھر دیکھتے دیکھتے پیلے پھولوں اور سنہری دیوں کی جوت۔۔۔۔
ترے پھولوں والے پل کی قوس سے ہوتی ہوئی۔۔۔۔
مہران کی اور تک پہنچ گئی۔۔۔۔
میں اسی جوت کی ننھی سی کرن۔۔۔۔
پھولوں کا تھال لئے تیرے قدموں میں آ بیٹھی ہوں۔۔۔۔
یوں بے انت سمے تک تیری جوانی ہنستی رہے۔۔۔۔
پر یہ شاداب ہنسی کبھی تیرے کناروں کے لب سے اتنی نہ چھلک جائے کہ میری بستیاں ڈوبنے لگ جائیں۔
۔۔۔

گنگا پیاری!

یہ جان کہ میرے روپہلے راوی اور بھورے مہران کی گیلی مٹی میں مری ماں کی جان چھپی ہے۔
مری ماں کی جان نہ لینا۔
مجھ سے مرا مان نہ لینا!

پروین کی یہ دعا تو حرف بہ حرف قبول ہوئی اور خدا نے ان کی ماں کو سلامت رکھا البتہ وہ خود عین جوانی میں ماں کو تنہا چھوڑ کر ملک عدم سدھار گئیں۔نامور شاعر اور دانشور جناب احمد ندیم قاسمی نے بعد پروین ایک مضمون میں اس دلدوز منظر کو کچھ اس طرح بیان کیا تھا جب وہ تعزیت کے لئے پروین کی رسم قل پر ان کے گھر پہنچے تو والدہ افضل النساء بیگم پروین کی ہنستی مسکراتی ہوئی تصویر کے سائے میں بیٹھی بین کر رہی تھیں۔
میری پارہ کو لوگ توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔قاسمی صاحب نے لکھا کہ انہیں اس موقع پر یہ شعر یاد آیا۔

مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا ہے کوئی
وہ مہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا!

پروین نے اپنی دوسری کتاب صد برگ کا انتساب بھی اپنی عظیم ماں کے نام لکھا اور خوشبو کے دیباچے میں لکھتی ہیں۔"

ہاں۔۔۔۔
ضرور کہیں زمین بدصورت بھی ہوگی۔
۔۔۔
مگر اس نے کبھی ایسا نہیں سوچا۔۔۔۔
ماں سے محبت کرتے ہوئے اس کا چہرہ کبھی دیکھا نہیں جاتا!

خوشبو جو پینتالیس سال گزر جانے کے باوجود آج تک اسے محبت کی کتاب قرار دیا جاتا ہے۔خوشبو بیسویں صدی کی انتہائی باشعور،تعلیم یافتہ،خلاق اور حساس ذہن کی تخلیق تھی۔ان کی شاعری میں موجود ندرت احساس اور جذبوں کی تہذیب کا جو ایک خاص نکاس رہا اس کا ایک سبب ان کی عظیم ماں کی تربیت اور انہیں یہ احساس دلانا رہا کہ محنت ہی ان کی زندگی کے سارے خوابوں کو پورا کرنے کا ایک وسیلہ ہو گی۔
بچپن ہی سے اہل تشیع گھرانوں کی یہ تہذیب ہوا کرتی ہے کہ بچیوں کو سوز و سلام کی مجالس میں لے جایا جاتا یا انہیں گھروں میں برپا کیا جاتا ہے۔تہذیب،علم،وقار،شائستگی اور ضبط کی جو تربیت پروین کی والدہ نے انہیں دی اس کی خوبصورت جھلک ہمیں پروین شاکر کی تحریروں میں نظر آتی ہے اردو ادب کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تب بھی ہمیں ایسی مثال نہیں ملتی جو پروین کے تہذیب یافتہ فکری رویے میں نظر آتی ہے ان کی والدہ کا تعلق بہار کے سادات گھرانے سے تھا اور پروین کی پیدائش سے قبل ان کی ڈاکٹر نے یہ کہا تھا کہ ان کی خراب صحت کے باعث بچہ پیدا نہ ہو تو ان کے لئے زیادہ بہتر ہے تاہم خوشبو کا وجود ناگزیر تھا سو وہ ہو کے رہا۔
24 نومبر کو ایک دھان پان سی خاتون نے اپنی دوسری بیٹی کو جنم دیا۔بچی کا نام پروین بانو رکھا گیا۔پروین ابتداء ہی سے ماں سے بہت قریب تھی ماں اس کے ہر سکھ دکھ کی رازدار اور گواہ تھی۔پروفیسر سحر انصاری بتاتے ہیں کہ جن دنوں وہ کالج میں زیر تعلیم تھیں اور مشاعروں میں حصہ لیتی تھیں پروین نے انہیں بتایا کہ وہ انگریزی میں اس لیے ایم اے کرنا چاہتی ہیں کہ والدہ کی خواہش ہے کہ پڑھ لکھ کر ایک کامیاب انسان بنے۔
سحر صاحب نے بھی تائید کی کہ بہتر مضمون ہے،ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لئے یہ بہت معاون ہو گا۔پروین کی ازلی ذہانت نے یہاں بھی انہیں نمایاں اور ممتاز رکھا۔ڈاکٹر نسرین شاکر مرحومہ بتاتی تھیں کہ پروین امی کی چہیتی بیٹی تھی ان کی توجہ اور محبت ہمیشہ اس کے ساتھ رہی۔مگر میری نظر تو ان نظموں پر جا کر ٹھہر جاتی ہے جو پروین کی والدہ محترمہ کے لئے نہیں مگر پھر بھی ان میں وہ بڑے فخر سے سر اٹھائے نظر آتی ہیں۔
اسٹینو گرافر سے لے کر کسٹم اینڈ ایکسائز کے محکمے میں ڈائریکٹوریٹ آف انسپکشن اینڈ ٹریننگ کے عہدے تک اگر کسی شخصیت کی طبیعت کے ستھرے پن،مذاق کی شائستگی اور مزاج کی سادگی نے ان کے دل پر بڑے گہرے نقوش مرتسم کئے وہ ایک متوسط گھرانے کی روایتی عورت جس نے پیش منظر اور پس منظر بدل دینے والی شخصیت کو جنم دیا اور اسے اس مقام تک پہنچایا کہ آج پوری دنیا میں پروین کی علمیت،تہذیب اور دانش کا چرچا ہے۔پروین کے لئے ان کی ماں کی محبت،وطن سے وفاداری اور اپنے لوگوں کے مسائل کے ساتھ وابستگی اور اپنے بیٹے سے محبت ہی ان کی زندگی کا حاصل تھے اور ان انمول رشتوں سے ان کی شاعری نے جو شباب پایا وہ رہتی دنیا تک دنیائے ادب کے لئے زندگی کرنے کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles