Mao Zedong - Article No. 950

Mao Zedong

ماؤزے تنگ 1976ء۔1893ء - تحریر نمبر 950

ماؤزے تنگ نے اشتراکیت پسند جماعت کو چین میں اقتدار لایا اور اگلے ستائیس برس وہ اس بزی قوم کی غیر معمولی اور دوررس تبدیلیوں کا نگران رہا۔

ہفتہ 29 اگست 2015

ماؤزے تنگ نے اشتراکیت پسند جماعت کو چین میں اقتدار لایا اور اگلے ستائیس برس وہ اس بزی قوم کی غیر معمولی اور دوررس تبدیلیوں کا نگران رہا ۔
وہ ایک آسودہ حال کسان کے گھر ہونان صوبے میں”شاؤشان“ کے قصبہ میں1893ء میں پیدا ہوا ۔1911ء میں جب وہ اٹھارہ سال طالب علم تھا ۔چنگ “خاندان کی بادشاہت کے خلاف بغاوت نے سراٹھایا ۔ یہ خاندان سترھویں صدی سے ملک پر حکمران تھا ۔
چند ماہ میں ہی شاہی حکومت کا تخت الٹ دیا گیا ۔چین ایک جمہوری ریاست بن گیا ۔ بدقسمتی سے انقلابی رہنما ایک مستحکم اورمتحدحکومت قائم کرنے کے اہل نہیں تھے ۔ انقلاب کے بعد غیراستحکام پذیری اور خانہ جنگی کاایک طویل دور شروع ہوا جو 1949ء تک جاری رہا۔
نوجوانی میں ماؤاپنے سیاسی نظریات میں بائیں نقطہ نظر کی طرف جھکاؤرکھتا تھا ۔

(جاری ہے)

1920ء تک وہ ایک کٹرمارکسی بن گیا۔

1921ء میں وہ چین کی اشتراکیت پسند تنظیم کے بارہ بانی رہنماؤں میں شامل تھا۔تاہم آہستگی کے ساتھ تنظیم کی سربراہی کی طرف بڑھا ۔1935ء میں کہیں جاکر وہ تنظیم کا سربراہ بن گیا ۔
اس دوران میں چین کیاشتراکی جماعت اقدار کے لیے آہستگی سے طویل جدوجہد میں مصروف رہی ۔1927ء اور1934ء میں جماعت کوبڑے نقصانات کاسامنا کرناپڑا ۔تاہم اس نے خود کوفنا ہونے سے بچالیا۔
1935ء کے بعد ماؤکی قیادت میں جماعت کی طاقت میں بتدریج اضافہ ہوا۔ 1947ء تک یہ قومیت پسند حکومت کے خلاف ‘جس کاسربراہ چیانگ کائی شیک تھا ‘ ایک مکمل جنگ لڑنے کے لیے تیار تھی ۔1949ء میں ان کی فوجوں نے فتح حاصل کی اور اشتراکیت پسندوں ن چین کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ماؤ ‘ چین کی قیادت سونپی گئی‘وہ اڑتیس سالہ جنگ سے کٹ پھٹ چکاتھا ۔
وہ مفلسی کاشکار ایک ترقی پذیرملک تھا ‘ جس کی روایت کے غلام لاکھوں کسان ان پڑھ تھے۔خود ماؤ چھتیس سال کاتھا ‘ جبکہ ابھی اسے بہت کچھ کرنا تھا ۔
دراصل ماؤ کااصل کام ہی اب شروع ہوا تھا۔اس کی وفات کے سن1976ء تک اس کی پالیسیوں نے چین کی حالت کوبدل کررکھ دیا ۔ اس تبدیلی کا ایک پہلوملک کاجدیدبن جاناتھا۔خاص طور پرصنعت سازی میں بڑی ترقی ہوئی۔
جس کے ساتھ عوامی صحت اور تعلیم کامعیار بھی بلند ہوا۔یہ تبدیلیاں اگرچہ بہت اہم تھیں ‘ لیکن ایس تبدیلیاں قریب اسی دور میں دیگر ممالک میں بھی رونماہورہی تھیں ۔ صرف یہی تبدیلیاں ماؤ کواس فہرست میں جگہ پانے کااستحقاق نہیں دیتی ہیں ۔ماؤکی حکومت کادوسرا بڑا کارنامہ چین کے معاشی نظام کا سرمایہ داری سے بدل کراشتراکی ہوجاناتھا ۔ ماؤ کی وفات کے چند سال بعد اس کے جانشین ”تنگ زیاؤینگ “نے چین میں کھلی منڈی کی معاشیات کے متعدداصولوں کوملک میں متعارف کروانا شروع کردیا۔
ہم ابھی حتمی طورپر نہیں جانتے کہ یہ عمل مزید کتنا عرصہ جاری رہے گا۔ تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگلے پانچ یادس برسوں میں چین اشتراکیت پسندی کالبادہ اتارپھینکے گااور بارہ ایک سرمایہ دار معیشت والی قوم بن جائے گی۔سوماؤ کی پالیسیاں ‘جیسی یہ کبھی موثرمعلوم ہوتی تھیں بعد ازاں اپنی تاثیرکھوبیٹھیں ۔
ماؤکااعتقاد تھا کہ شہروں میں موجود صنعتی مزدور اشتراکی جماعت کی اصل طاقت ہیں ۔
یہ خیال مارکس کے نظریات کے عین مطابق ہے ۔ تاہم قریب 1925ء میں ماؤ اس نتیجہ پر پہنچا کہ کم ازکم چین میں جماعت کی اصل طاقت کسانوں پر منحصر ہے ۔ اس خیال کے مطابق اس نے مختلف اقدامات کیے ۔ قومیت پسندوں کے خلاف ‘ اپنی طویل جدوجہد کے دوران ماؤ کی طاقت کی بنیاد مضافات کے کسان ہی رہے ۔ اسی خیال کو اس نے اپنے اقتدار کے دور میں بھی اپنا رہنما بنایا۔
مثال کے طور پر روس میں سٹالن نے صنعتی ترقی پر زور دیا۔ماؤکی توجہ عمومی طور پرزرعی اور دیہاتی اصلاح کی طرف مبذول رہی۔تاہم ماؤ کی قیادت کے دوران چین نے صنعتی اعتبار سے بھی زور افزوں ترقی پائی ۔
سیاسی اعتبار سے ماؤنے ایک مکمل مطلق العنان اختیار کیا ۔ماؤکے دور میں کم ازکم بیس ملین یا30 ملین سے بھی زائد شہری موت کے گھاٹ اتاردیے گئے ۔
اور یوں اس کا دور اقتدار انسانی تاریخ میں خونیں ترین سیاسی دور ماناجاتا ہے ( صرف ہٹلر ‘ سٹالن اور چنگیزخان ہی ماؤ کے اس اعزاز کے حصول میں رکاوٹ بن سکتے ہیں )۔ماؤکی وفات کے بعد ملک میں کچھ شہری آزادی کاچلن عام ہوا ۔تاہم ” تنگ زیاؤینگ “نے چین کے پھر سے ایک جمہوری ریاست بننے کے ہرا مکان کوختم کردیا۔بعض اوقات تو انتہائی سفاکی اور درزندگی کامظاہرہ کیا گیا ‘ جس کی ایک مثال بیجنگ میں تیا ننمن سکوائر میں جون 1989 میں ہونے والا قتل عام ہے ۔

بلاشبہ ماؤزے تنگ ہی تھا ‘ جو اس اشتراکی حکومت کی تمام پالیسیاں وضع کرتا تھا ۔تاہم اس نے فردواحد کی حکومت کو اس طرح ملک پر منطبق نہیں کیا ‘ جیسا وطیرہ سٹالن نے اپنے دور میں اپنایا۔تاہم یہ امرواضح ہے کہ 1949ء سے ماؤ کی موت کے سن 1976ء تک ‘چینی حکومت میں ماؤ ایک نہایت اہم اور بااثر شخصیت رہا۔
ایک منصوبی جس کی بنیادی ذمہ داری اسی کے سراتی ہے ‘وہ1950ء کی دہائی کا وہ عظیم پیش رفت کا منصوبہ تھا ۔
متعدد ناقدین کاخیال ہے کہ یہ منصوبہ جوچھوٹی سطح پر زیادہ پیداوار کے طریقہ ہائے کار کے اطلاق پر مشتمل تھا ‘ جودیہاتی علاقوں میں قابل عمل ہوسکتا تھا ‘ تاہم یہ ناکام ثابت ہوا (ایک اور منصوبہ جس پرماؤ نے متعدد چینی رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود نہایت اصرار کیا‘ وہ عظیم پرولتاریہ کاتہذیبی انقلاب “ کامنصوبہ تھا ۔ جس پر 1960ء کی دہائی کے اواخر میں عمل درآمد کیا گیا۔
یہ ایک بڑی تبدیل تھی۔ایک اعتبار سے تویہ ماؤ اور اس کے حامیوں کے بیج ایک خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گیا تھا جبکہ دوسری طرف اشتراکیت پسند جماعت کی نوکر شاہی اس کے دباؤ تلے آگئی ۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ جب “عظیم پیش رفت “ کاآغاز ہوا توماؤ اپنی عمر کی چھٹی دہائی میں تھا اور جب ثقافتی انقلاب کااجراء ہوا تو وہ ستربرس کاہوچکاتھا۔اور تب وہ قریب 80برس کاتھا ‘جب اپنی پالیسی میں ایک ذرامائی تبدیلی کرکے اس نے امریکہ سے دوستانہ تعلقات کاآغاز کیا۔

کسی بھی حالیہ سیاسی شخصیت کے اثرات کاتعین کرنا ‘ ایک دشوار گزار عمل ہے ۔ اس کتاب کی اشاعت اول میں میں نے ماؤکو زیادہ بلند درجہ پر شمار کیا تھا کیونکہ میراخیال تھا کہ اشتراکی نظام جواس نے چین میں رائج کیاتھا ‘طویل عرصہ تک باقی رہے گا ۔ لیکن اب ایساممکن دکھائی نہیں دیتا۔معلوم ہوتا ہے کہ چین آہستہ آہستہ اشتراکیت پسندی کی بیڑیاں اتاررہا ہے اور وہ آمرانہ نظام حکومت جاماؤنے اختیار کیاتھا ‘کوہنوزموجود ہے ‘ لیکن زیادہ دیر رہتا دکھائی نہیں دیتا ۔
ماؤکی زندگی میں یہ واضح ہوگیاتھا کہ وہ ایسی اثرانگیز شخصیت ہے جیسی عظیم ہستی ‘ شی ہوانگ تی ‘ کی تھی ۔دونوں چینی تھے اور دونوں نے اپنے ملک میں انقلابی تبدیلیاں متعارف کی تھیں ۔تاہم چین پر ”شی ہوانگ تی ‘ کے اثرات قریب بائیس صدیوں تک باقی رہے ‘ جبکہ ماؤکے اثرات تھوڑے ہی عرصہ میں ماندپڑرہے ہیں ۔
ماؤ کا لینن سے موازنہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
دونوں کازمانی دور ایک ہی ہے۔جس طرح ماؤنے چین میں مارکسیت کوقائم کیا ‘ اسی انداز میں لینن نے روس میں اسی نظام کو رائج کیا۔ بادی النظر میں ماؤدوسرے سے زیادہ اہم شخصیت معلوم ہوتاہے ۔چین کی آبادی روس کی آبادی سے تین گنا زیادہ ہے۔تاہم لینن ماؤسے پہلے ظاہرہوا ‘ اور اس نے ماؤکے لیے مظال قائم کی۔اور ماؤکی فکر کومتاثر بھی کیا۔مزید آں دنیا کی اولین اشتراکیت پسند حکومت قائم کرکے لینن کے اثرات عالمگیر ہیں۔ماؤکی نسبت لینن کے اپنے ملک سے باہر گہرے اثرات ظاہر ہوئے۔ان نقاط کے پیش نظر ہی درست معلوم ہوتاہے ‘ کہ یہاں ماؤکولینن سے کم درجہ دیا جائے ۔

Browse More Urdu Literature Articles