Mohandas Gandhi 1869 To 1948 - Article No. 924

Mohandas Gandhi 1869 To 1948

موہن داس گاندھی 1948ء۔ 1869ء - تحریر نمبر 924

یہ سچ ہے کہ گاندھی کا پرامن سرکاری نافرمانی کا منصوبہ انگریزوں کو ملک سے نکل جانے پر مجبور کر یدنے والے عوامل میں اہم ہے۔

منگل 28 جولائی 2015

موہن داس ۔ کرم چند ۔ گاندھی خود مختار ہندوستان کی تحریک کا ایک غیر معمولی رہنما تھا ۔اسی بنیاد پر متعدد افراد نے اپنا خیال طاہر کیا کہ اس کا نام سوعظیم شخصیات کی فہرست میں شامل ہونا چاہیے ۔ یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ انگلستان کی آزادی جلد یا بدیر ضروری واقع ہوتی ۔ ان تمام تاریخی عوامل کی قوت کے پیش نظر جو کالونیانی نظام کی شکست وریخت پر کمربستہ تھے آج ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر گاندھی نہ بھی ہوتا ہندوستان 1947ء میں آزاد ہوہی جاتا ۔

یہ سچ ہے کہ گاندھی کا پرامن سرکاری نافرمانی کا منصوبہ انگریزوں کو ملک سے نکل جانے پر مجبور کر یدنے والے عوامل میں اہم ہے ۔ یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ اگر ہندوستانی زیادہ پر زور حربے استعمال کرتے تو آزادی کا یہ عمل سریع الرفتار ہو جاتا ۔

(جاری ہے)

چونکہ یہ فیصلہ کرنا تو دشوار ہے کہ گاندھی نے مجموعی طور پر ہندوستانی آزادی کے عمل کو تیز کیا یا مدہم، ہم البتہ یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ اس کی ( کم ازکم اس حوالے سے کاوشوں کے اثرات نہایت محدودتھے ۔

یہ نقطہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ گاندھی ہندوستانی خود مختاری کی تحریک کابانی نہیں تھا ۔ (انڈین نیشنل کانگریس 1885ء میں قائم کی جاچکی تھی ) نہ ہی تب قہ ممتاز ترین سیاسی قائدین میں شمار ہوتا تھا جب تقسیم کا عمل مکمل ہوا ۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ گاندھی کی بنیادی اہمیت اس کا اہنسا ( Non violence) کی پالیسی پر اصرار تھا اس کے خیالات واقعتا خود اس کے نہیں تھے ۔
اس نے خود ایک جگہ کہا کہ یہ تھوریو ٹالسٹائی اور عہد نامہ جدید اور متعدد ہندی تحریروں سے مستعار شدہ ہیں ۔ اس امر میں البتہ کچھ شک نہیں ہے کہ گاندھی کی پالیسیاں اگر عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کر لیتی تو یہ دنیا کو بدل سکتی تھیں ۔ بدقسمتی سے حتیٰ کہ ہندوستان میں بھی ان کا کچھ پاس نہ کیا گیا ۔ 55۔ 1954ء میں پرتگیزیوں کو گوا پر سے اپنا تسلط ہٹانے پر قائل کرنے کے لیے یہ پالیسی اختیار کی گئی ۔
تحریک ناکام ثابت ہوئی ۔ چند سال بعد آخر ہندوستانی حکومت نے وہاں حملہ کردیا ۔ گزشتہ چالیس برسوں میں ہندوستان نے پاکستان سے تین اور چین سے ایک سرحدی جنگ لڑی ۔ دیگر ممالک بھی گاندھی کی پالیسیوں کو اختیار کونے میں متامل ہیں ۔ ان پالیسیوں کے منظر عام پر آنے کے بعد اسی برسوں میں دنیا کی تاریخ نے دوخونین جنگوں کا کرب سہا ہے ۔
تو کیا یہ نتیجہ درست نہیں ہے کہ بطور فلسفی گاندھی مکمل طور پر ناکام رہا ۔
موجودہ دور میں یہ بات زیادہ واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے ۔یہ بات بھی اہم ہے کہ یسوع کی موت کے چالیس برس بعد ہر باشعور اور باخبررومی باشندہ اسی نتیجہ پر پہنچا ہوگا کہ یسوع ناکام رہا ۔ چاہے اس نے یسوع کے تمام افکار کو بغور سمجھا ہو ۔ نہ ہی 450قبل مسیح میں کوئی یہ پیشین گوئی کر سکتا تھا کہ کنفیوشس اس قدر اثراانگیز شخصیت ثابت ہوگا ہونے والے تمام واقعات کی روشنی کا مقام البتہ ضرور بنتا ہے کہ تکریم کے ساتھ اس کا نام اس کتاب میں یہاں شامل کیا جائے۔

Browse More Urdu Literature Articles