Pur Israr Shakhs - Article No. 1134

Pur Israr Shakhs

پُر اسرار شخص - تحریر نمبر 1134

راشد نے کہا ” ویگن سے اُترتے ہوئے رقم چھپالینا

پیر 26 دسمبر 2016

جاوید راہی :
بعض اوقات انسان کے ساتھ ایسے محیرالعقول واقعات پیش آتے ہیں جن کا اثردیر تک قائم رہتا ہے اور ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا۔ اسی طرح کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی نظر عطا کررکھی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت حالات وواقعات سے بہترآگاہ رہتے ہیں۔ یہ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ ہے جو کہ ایک سفر کے دوران میرے ساتھ پیش آیا۔
قارئین کی دلچسپی کومدنظررکھتے ہوئے میں یہ واقعہ یہاں من وعن بیان کررہا ہوں ۔
یہ قریب دس برس پرانی بات ہے میں بس کے ذریعے لاہور سے سیالکوٹ جارہا تھا۔ سیالکوٹ میں میرے ایک ماموں کا گھر تھا جو اپنے کاروبار کے سلسلے میں وہاں رہتے تھے ۔ ماموں کو کچھ پیسے دینے تھے اور وہ رقم میں سنبھال کرلے جارہا تھا۔

(جاری ہے)

چونکہ رقم زیادہ تھی اس لیے میں نے عام ویگن سے جانے کے بجائے معروف کمپنی کی بس میں جانے کو ترجیح دی تھی ۔

بس میں میرے ساتھ ایک پنتیس چالیس سالہ شخص بیٹھا تھا جو اپنے لہجہ سے سیالکوٹ کارہائشی معلوم ہوتا تھا۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ راشد نامی وہ شخص سیالکوٹ کے نواحی قصبہ آلو چک میں رہتا ہے ۔ میرے ماموں کاگھر سیالکوٹ کے گاؤں لنگڑیالی میں تھا۔ دونوں مقام پاس پاس ہی تھے ۔ درمیان میں نالہ ایک پڑتا تھا جس میں آنے والا سیلاب اکثر دونوں طرف کے رہنے والوں کے لیے کافی مسائل پیدا کرتا تھا ۔
راشد چونکہ آلو چک کا رہنا والا تھا اس لیے میں نے راشد سے ماموں کا ذکر کیا تو اس کی آنکھوں میں ایک عجب چمک عود کرآئی ۔ پھر کچھ ہی لمحوں میں اس نے مجھے ایسی باتیں بتائیں جو میرے لئے بے حد حیران کن تھیں ، کئی لوگ ہاتھ دیکھ کریاستاروں کا حساب لگا کر مختلف پیش گوئیاں کرتے ہیں اور بعض دفعہ یہ پیش گوئیاں بالکل درست ثابت ہوتی ہیں لیکن راشد نے میرا ہاتھ دیکھا اور نہ ہی میری تاریخ پیدائش وغیر ہی پوچھی لیکن اس نے میری اور میرے ماموں کی زندگی کی کچھ ایسی باتیں بتائیں جو ہمارے سوا کسی کومعلوم نہیں ہوسکتی تھی ۔
خاص طور پر راشد جیسے اجنبی کوتوہرگزان باتوں کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔
راشدنے مجھے میری گھریلو زندگی ، تعلیمی سرگرمیوں اور کاروبار کی بے حداہم اوریاد گار باتیں بتائیں اور پھر میرے ماموں کے بارے میں بھی حیرت انگیز تفصیلات بتا کر مجھے حیران کردیا۔ راشد نے جب یہ بتایا کہ میرے ماموں قریب پانچ برس قبل لاہور میں ایک زبردست حادثے کاشکار ہوئے تھے تو مجھے اس کی باتوں کی صداقت کایقین ہوگیا کیونکہ حیقیتاََ ٹھیک پانچ برس قبل میرے ماموں کو حادثے میں سینے اور پسلیوں میں ایسی چوٹیں آئی تھیں کہ ان کا بچ جانا بہت مشکل ہوگیا تھا۔
تاہم کئی روز ہسپتال میں رہنے کے بعد ان کی جان بچ گئی تھی ۔ یہ سب باتیں کافی اہم اور پرانی تھیں ، راشد کی زبانی یہ باتیں سن کر مجھے حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے ۔ میں راشد کی باتوں سے حیران توتھا مگر دل میں یہ خیال بھی آرہا تھا کہ ہوسکتا ہے راشد کو یہ باتیں کسی واقف حال کے ذریعے معلوم ہوئی ہوں اور وہ محض مجھ پر رعب ڈالنے کے لئے یہ سب معلومات بتاکر مجھے متاثر کررہا ہے ۔
تاہم اُس کے چہرے کے تاثرات سے ایسا لگتا تھا جیسے اُس کی نظروں کے سامنے کوئی فلم چل رہی ہے اور وہ اُس کے مناظر دیکھ کر مجھے تفصیلات بتارہا ہے ۔
اسی طرح گپ شپ کرتے سیالکوٹ آگیاا ور ہم بس کے اڈے سے الگ الگ ویگنوں پر اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے کے لئے تیار ہوگئے ۔ جاتے جاتے راشد نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ” جب ویگن سے اُترنے لگو۔
تو اپنے پاس موجود تمام رقم کہیں چھپالینا ۔ میں نے حیرانگی سے اسے دیکھا مگر وہ مسکراتا ہوااپنی ویگن کی تلاش میں چلا گیا ۔
میں نے بھی اپنی منزل کی طرف جانے والی ویگن پکڑی اور کنڈیکٹر کواپنے سٹاپ کابتا کر پچھلی نشست پر بیٹھ گیا۔ میں خیالوں میں مگن راشد کی باتوں پر غور کر رہا تھا۔ راشد کو آخر یہ سب باتیں کیسے پتہ چلیں ، یہ سوال مجھے مسلسل پریشان کررہا تھا ۔
اُس نے جو کچھ بتایا تھا سب سچ تھا ، اور اسی لیے میں زیادہ حیران تھا لنگڑیالی قصبہ میں داخل ہوتے ہی مجھے راشد کی بات یاد آئی ۔ اُس نے کہا تھا کہ ویگن سے اُترکر اپنے پاس موجود رقم کہیں چھپالینا۔ چونکہ رقم زیادہ تھی اس لیے احتیاط بھی ضروری تھی۔ بے اختیار میں نے پرس میں موجود ساری رقم نکال کراپنی جرابوں میں ڈال لی اور جوتے پہن لئے ۔ صرف دو تین سوروپے اپنے پرس میں رہنے دئیے ۔

ویگن سے اُترنے کے بعد میں سیدھا اس گلی کی طرف بڑھا جس میں میرے ماموں کا گھر تھا، ابھی چند ہی قدم اٹھائے تھے کہ اچانک اندھیرے میں سے دو ڈاکو نمودار ہوئے اور انہوں نے مجھے دبوچ لیا۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں چاقو تھا۔ اس نے غراتے ہوئیے کہا ، ” اپنا پرس میرے حوالے کردو “ میں نے ڈرتے ڈرتے اپنا پرس اسے تھما دیا۔ اس نے پرس کی تلاشی لی ، جو دو تین سوروپے اس میں تھے وہ نکالے اور پھر کچھ دیر مجھے گھورتا رہا۔
پھراس نے مجھے زور سے دھکہ دیا اور دونوں فرار ہو گئے ۔ کچھ دیر میں اپنے حواس بحال کرتا رہا۔ پھر اٹھ کر اپنا خالی پرس اُٹھایا اور ماموں کے گھر کی طرف دوڑ لگادی ۔
آج بھی یہ واقعہ یاد کرکے میں حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔ سب سے زیادہ حیرت مجھے راشد کی حیران کن اور پُراسرار شخصیت پر ہوتی ہے کہ آخر وہ کیا چیز تھا اور اسے یہ سب باتیں کیسے معلوم تھیں ․․․․ آج بھی ان سوالوں کا جواب مجھے نہیں مل سکا مگر راشد کی شخصیت میری یادوں کا مستقل حصہ بن چکی ہے ۔

Browse More Urdu Literature Articles