Sialkot (sarzameen E Iqbal) - Article No. 2074

Sialkot (sarzameen E Iqbal)

سیالکوٹ (سرزمینِ اِقبال) - تحریر نمبر 2074

جنگِ عظیم دوئم کے بعد، سیالکوٹ امرتسر کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا صنعتی شہرقرار پایا۔ شہر کی بھرپور ترقی کو دیکھتے ہوئے ریاست کشمیر کے لوگ بھی ضلع سیالکوٹ میں آن بسے

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری جمعہ 14 جون 2019

جنوبی ایشیاء کے چند امیر ترین شہروں میں سے ایک سیالکوٹ، صوبہ پنجاب کے شمال مشرقی کونے میں واقع ایک گنجان آباد ضلع ہے جس کے مشرق میں ضلع نارووال، مغرب میں ضلع گجرات ، جنوب میں ضلع گوجرانوالہ اور ضلع شیخوپورہ جبکہ شمال میں مقبوضہ جموں کشمیر واقع ہے۔ ''ورکنگ باؤنڈری'' اسے مقبوضہ کشمیر کے ضلع جموں سے الگ کرتی ہے۔3،016 مربع کلومیٹر پر محیط ضلع سیالکوٹ ''رچنا دوآب'' کا ایک اہم اور زرخیزعلاقہ ہے۔
کشمیر ہلزکی آغوش میں آباد اس ضلع کو ایک جانب سے ''نالہ ڈیک'' اور دوسری جانب ''دریائے چناب'' نے گھیر رکھا ہے۔ ضلع سیالکوٹ کی کُل آبادی 3،893،672 نفوس پر مشتمل ہے اور اس میں 7 ٹاؤنز اور2،348 دیہات شامل ہیں۔کشمیر کے پہاڑوں سے ٹکراکر وادی کے گلزاروں سے مہکتی ہوئی ہوائیں، بادلوں سے سرسراتی ہوئی جب سیالکوٹ پہنچتی ہیں تو یہاں کا ہر ایک شجر جھوم جھوم کر فضا کو نشیلا اور خمار آلود کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ روحانی ماحول بڑے بڑے درویشوں اور عارفوں کو دھیان سے گیان کی منزل تک لے جاتا ہے اور اسی وجہ سے اسے”مہاتماؤں کی سرزمین“کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔راجہ سل نے یہ شہر آباد کر کے اسکا نام ’سل کوٹ‘ رکھا جو بدلتے بدلتے سیالکوٹ بن گیا۔ بدبوسیدہ کھنڈر، سلاطین کے مزارات، مسمار قلعے، قدیم گیان، نو آبادیاتی دور کے چرچ، چپہ چپہ پر پرانے نقش و نگار اسکی گزشتہ بڑائی کے افسانے دوہر اتے ہیں جس قدر یہ انقلابات اور زمانے کی نیر نگیاں سیالکوٹ کے حصہ میں آئی ہیں۔
شاید ہی کوئی کوئی اور شہر(ماسوائے ملتان کے) ان کا متحمل ہو سکا ہو۔ اس علاقے کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ نہ صرف ہندو اور مسلمان بلکہ سکھوں، فارسیوں، افغانیوں، ترکوں اور مغلوں نے بھی اس علاقے کی طرف ہجرت کی ہے۔ سیالکوٹ کی قدیم و زرخیزتاریخ کو 4 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور قدیم شہر ''ساگالہ'' کا ہے۔ آس پاس کے علاقے کی کھدائی سے یہاں قدیم یونانی تہذیب کے آثار ملے ہیں جن میں یونانی سِکّے اور اسٹوپے شامل ہیں۔
قدیم یونانی کتابوں میں اس شہر کا ذکر ''ساگالہ'' کے نام سے ملتا ہے جو انڈو یونانی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ ضلع کی مختلف جگہ پہ کھدائیوں سے اس دور کے قدیم یونانی نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اسکے بعد ہندو راجہ سل کا دور آیا جس نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ راجہ سلبان(سالبان) نے اسے کشمیر کا حصہ بنا کہ یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا اور اسے اس شہر کے نام پہ ''سیالکوٹ قلعہ'' کا نام دیا۔
دوسرا دور''مسلم سلطنت'' کا دور ہے جو شہاب الدین محمد غوری کی حکومت کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ غوری لاہور تو فتح نہ کر سکا لیکن اس نے سیالکوٹ کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں ایک گیریژن کی بنیاد رکھی- 1520 میں عثمان غنی کی قیادت میں مغل افواج شہر میں داخل ہوئیں۔ اکبر کے دور میں موجودہ ضلع سیالکوٹ،''رچنا بار سرکار'' کے نام سے صوبہ لاہور کا حصہ تھا۔
پھرشاہ جہاں کے دور میں علی مردان خان یہاں کا حکمران رہا۔ 18 ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 40 سال تک اس علاقہ پہ اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1849 کی جنگ سے سیالکوٹ کی تاریخ کے تیسرے دور(نوآبادیاتی دور) کا آغاز ہوتا ہے جب انگریزوں نے رنجیت سنگھ کو ہرا کر سیالکوٹ سمیت پورے پنجاب پہ قبضہ کر لیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں سیالکوٹ میں تعینات رجمنٹ نے بغاوت کر دی اور مقامی افراد نے بھی انگریز سرکار کے خلاف ہتھیار اُٹھا لیئے۔
بہت سے لوگوں نے سیالکوٹ کے قلعے میں پناہ لی اور اپنی جان بچائی تاہم انگریز سرکار نے اس بغاوت کو کچل دیا۔ سیالکوٹ شہر کی بھرپور ترقی بھی اسی نوآبادیاتی دور میں ہوئی۔ 1889 میں ''مرے کالج''کی بنیاد رکھی گئی۔ 1980 میں وزیرآباد - سیالکوٹ ریلوے ٹریک کو جموں تک توسیع دی گئی جبکہ ''سیالکوٹ تا نارووال' ریلوے لائن 1915 میں کھول دی گئی۔ اسی دور میں سیالکوٹ دھاتی اشیاء کے حوالے سے اُبھر کر آیا۔
سیالکوٹ کی ''سرجیکل صنعت'' کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔ انگریز دور میں یہاں کے ''مشن اسپتال'' کے تمام تر آپریشنوں کے لیئے اوزار شہر میں مرمت کیئے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ ان کو بنانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا یہاں تک کہ 1920 تک سیالکوٹ کے آلاتِ جراحی پورے برِصغیر میں استعمال ہونے لگے۔ دوسری جنگِ عظیم کی بدولت یہ صنعت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب تاجِ برطانیہ نے اپنی سرجیکل اوزاروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیئے یہاں نت نئی تکنیک متعارف کروائی۔
اور جنگِ عظیم دوئم کے بعد، سیالکوٹ امرتسر کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا صنعتی شہرقرار پایا۔ شہر کی بھرپور ترقی کو دیکھتے ہوئے ریاست کشمیر کے لوگ بھی ضلع سیالکوٹ میں آن بسے۔ بڑی تعداد میں بسنے والی عوام کے ٹیکسوں سے شہر کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا یہاں تک کہ سیالکوٹ کا شمار برِصغیر کے ان چند شہروں میں ہونے لگا کہ جسکا اپنا ذاتی بجلی فراہم کرنے کا ادارہ تھا۔
آزادی کی تحریک شروع ہونے کے کافی عرصے بعد بھی سیالکوٹ پر امن رہا جبکہ اسکے قرب و جوار میں لاہور، امرتسر اور لُدھیانہ فسادات میں جلتے رہے۔تحریک پاکستان میں اس شہر کا ایک اہم کردار تھا۔ پاکستان کا نظریہ پیش کرنے والے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال اسی دھرتی کے سپوت تھے۔ جبکہ 1994 کا تاریخی ''سیالکوٹ کنونشن'' بھی یہاں منعقد ہوا جس میں قائدِ اعظم سمیت مسلم لیگ کے بڑے بڑے رہنماؤں نے شرکت کی اور آخر کار1947 میں تقسیمِ پاکستان کے وقت اسے پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔
سیالکوٹ کا 4 اور آخری دور اسکی موجودہ تاریخ ہے۔ تقسیم کے بعد بہت سے مسلمان مہاجرین یہاں آ بسے۔ یہاں ہجرت کر کے آنے والوں نے ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ دوبارہ پروان چڑھایا اور حکومتِ پاکستان نے بھی انکی بھر پور مدد کی۔ 1960 کے دوران ضلع بھر میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور سیالکوٹ کو جی ٹی روڈ سے ملا دیا گیا۔ 1965 کی جنگ میں بھارت نے جموں کی طرف سے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔
پاک فوج نے کامیابی سے شہر کا دفاع کیا اور سیالکوٹیوں نے بے جگری سے اپنی فوج کا ساتھ دیا۔ غیور شہری بھارتی ٹینکوں کے سامنے بم باندھ کہ لیٹ گئے اور چونڈہ کے محاذ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ یہ وہ محاذ ہے جہاں جنگِ عظیم دوئم کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔ اہلِ سیالکوٹ کی بہادری کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 1966 میں سیالکوٹ کے باسیوں کو ''ہلالِ استقلال'' سے نوازا(اہلیانِ لاہور اور سرگودھا کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے)۔
1971 کی جنگ میں بھی سیالکوٹ کا بھر پور دفاع کیا گیا یہاں تک کہ بھارتی علاقے ''چھمب سیکٹر'' پہ پاک فوج کا قبضہ ہو گیا۔ 1991 میں ضلع سیالکوٹ کی ایک تحصیل نارووال کو الگ کر کے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ ضلع سیالکوٹ میں پسرور، سمبڑیال،ڈسکہ اور سیالکوٹ کی تحصیلیں شامل ہیں۔ 3،016 مربع کلومیٹر رقبے کے حامل ضلع سیالکوٹ کی آبادی لگ بھگ اٹھتیس لاکھ ترانوے ہزار چھ سو بہتر(3،893،672) نفوس پر مشتمل ہے۔
طبعی خدوخال کے لحاظ سے سیالکوٹ کی زمین ہموار اور زرخیز ہے۔ ضلع کے شمال مغرب میں ''بجوات'' کا جنگلی حفاظتی علاقہ ہے جو دریائے چناب اور اسکے معاون توی دریا کے درمیان ہے۔ دریائے چناب ضلع سیالکوٹ اور گجرات کی سرحد پہ بہتا ہے۔ جموں کے پہاڑوں میں ایک چھوٹے سے نالیکی شکل میں بہتا یہ دریا سرحد کے اس پار ''چندربھاگ'' کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
سرحد کے اِس پار اِسے ''چناب'' کا نام دیا گیا ہے۔چناب کا نام 'چن' اور 'آب' سے مل کر بنا ہے جس میں چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے،یہ دریائے چندرا اور دریائے بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے، جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔ بالائی علاقوں میں اس کو ''چندرابھاگا'' کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
یہ جموں و کشمیر کے جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا بذریعہ کوہِ پیر پنجال ضِلع سیالکوٹ کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ مرالا کے مقام پر اِس کے سینے پہ بندھ باندھا گیا ہے جِسے ''مرالا ہیڈورکس'' کہا جاتا ہے۔ یہاں سے دو بڑی نہریں ''مرالا راوی لِنک کینال'' اور ''اَپر چناب کینال'' کے نام سے نِکالی گئی ہیں۔ یہ بند ضلع کا ایک مشہور تفریحی مقام ہے۔نالہ ڈیک سیالکوٹ کے مغرب میں بہتا ہے۔
یہ ایک برساتی نالہ ہے جو مقبوضہ جموں کشمیر سے سیالکوٹ میں داخل ہوتا ہے جسکے ایک طرف تحصیل پسرورجبکہ دوسری جانب ضلع نارووال کا علاقہ ہے۔ سیالکوٹ کی آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ سردیوں میں کم سے کم 2- ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سیالکوٹ کا شمار پنجاب کے ان چند اضلاع میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔
سالانہ بارش کی اوسط 980 ملی لیٹر ہے۔ ضلع کا بیشتر رقبہ زرخیز ہے جس پہ چاول،گندم، گنا، مکئی، جوار،آلو،لہسن اور دالیں کاشت کی جاتی ہیں جبکہ کئی مقامات پہ امرود، جامن اور انار کے باغات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ضلع کا 6،401 ایکڑ رقبہ جنگلات نے گھیر رکھا ہے۔ سیالکوٹ پنجاب کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے جسکی مشہور صنعتوں میں کھیلوں کا سامان بنانے، آلاتِ جراحی، چمڑے کی مصنوعات، کیمیکل بنانے، کوکنگ آئل اور ویجیٹیبل گھی، ٹائر اور ربڑ کی مصنوعات، ادویات بنانے، سٹیل کے برتن بنانے، آٹا پیسنے، دستانے بنانے، موسیقی کے آلات بنانے اور چاول چھڑنے کے کارخانے شامل ہیں۔
پاکستان کے امیر ترین شہروں میں سے ایک، سیالکوٹ کی سب سے بڑی صنعت کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعت ہے۔ 100 سال سے بھی زیادہ پرانی یہ صنعت شروع میں کرکٹ، ہاکی اور پولو کا سامان بناتی تھی۔ 1918 میں فٹبال بھی ان میں شامل ہو گئی جوسنگاپور میں مقیم برطانوی فوج کے لیئے بنائی جاتی تھی۔ آج کھیلوں کی دنیا کی تمام مشہور کمپنیاں اس شہر سے پوری دنیا میں سامان برآمد کر رہی ہیں۔
عالمی سطح پر فٹبال کی 60 سے 70 فیصد طلب سیالکوٹ سے پوری کی جاتی ہے۔ سیالکوٹ کی تقریباً تمام مصنوعات برآمد کر دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر پاکستان کی کل برآمدات میں 9 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ یہ برآمدات ''سیالکوٹ ڈرائی پورٹ'' کے علاوہ لاہور اور کراچی سے بھی بھیجی جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ سیالکوٹ - لاہور موٹروے بھی تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے جو اس شہر کی ترقی کو ساتویں آسمان تک لے جائے گی۔
اقبال کے شاہینوں کی محنت اور لگن سے پاکستان کے نقشے پر ایک اور ائیر پورٹ ''سیالکوٹ ائیرپورٹ'' کے نام سے ابھر کہ سامنے آیا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد ''نجی انٹرنیشنل ائرپورٹ'' ہے جہاں سے اندرونی پروازوں کے علاوہ خلیجی ممالک کو بھی پروازیں جاتی ہیں۔ اقبال کے دیس کی سب سے بڑی پہچان خود شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ہیں۔ سیالکوٹ کے پرانے حصے میں قائم انکے گھر ''اقبال منزل'' کو دور دور سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔
یہ گھرعلامہ اقبال کی جائے پیدائش ضرور ہے مگر یہ مکان اُن کے بھائی شیخ عطا محمد کے حصہ میں آیا تھا جبکہ سیالکوٹ ہی میں علامہ اقبال کے والد کا ایک اور مکان تھا جو علامہ کے حصے میں آیا تھا۔ 1971میں حکومت نے پاکستان کے قومی شاعر کی جائے پیدائش کو قومی یادگار قرار دے کر یہ مکان شیخ عطا محمد کی اولاد سے خریدا تھا مگر نو مرلے کے اس تین منزلہ مکان کی حالت بہت بوسیدہ تھی۔
اب اس عمارت کو حکومتِ پاکستان نے قومی ورثہ قرار دے دیا ہے اور نئے سرے سے اس کی تزئین و آرائش کروا کر اسکے کچھ حصوں کو سیاحوں کے لیے کھول دیا ہے۔ اقبال منزل کے علاوہ سیالکوٹ میں کلاک ٹاور، جگّن ناتھ ٹیمپل، سیالکوٹ کیتھیڈرل، ہیڈ مرالہ، پورن بھگت، درگاہ امام الحق، تیجا سنگھ ٹیمپل، مرے کالج، سینٹ جیمس کیتھیڈرل، سیالکوٹ کینٹ اور قلعہ سیالکوٹ مشہور و معروف جگہیں ہیں۔
سیالکوٹ قلعہ پاکستان کے پرانے ترین اور تاریخی قلعوں میں سے ایک ہے۔ یہ قلعہ دوسری صدی میں ہندو بادشاہ راجہ سلوان نے تعمیر کروایا۔ اس قلعہ کو دس ہزار مزدوروں نے دو سال میں تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر لکڑی کے پٹھوں، کنکریوں اور اینٹوں سے کی گئی اور یہ سارا سامان بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے منگوایا گیا۔ ایک سیاح کے لیئے اس شہر میں بہت کچھ ہے۔
سیالکوٹ پنجاب کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جو قدیم و جدید کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اب آتے ہیں اس ضلع کی مشہور اور قد آور شخصیات کی طرف۔ سیالکوٹ نے بڑے بڑے سیاستدان، شاعر،فلسفی، لیڈر، ناول نگار، قلمکار،اداکار و موسیقار، کھلاڑی،صحافی، مصنف اور بزنس پیدا کیے ہیں جن پہ بلا شبہ پورے ملک کو فخر ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل شخصیات قابلِ ذکر ہیں : 1۔
شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان اور عظیم فلسفہ دان، ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال۔ 2۔ مسلم سکالر و مشہور لیڈر، مولانا عبید اللہ سندھی۔ 3۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ، سرظفر اللہ خان۔ 4۔ عظیم انقلابی شاعر، فیض احمد فیض۔ 5۔ گلزاری لال نندا، بھارتی وزیرِاعظم و سیاستدان۔ 6۔ پہلے پاکستانی ائر چیف، ائرمارشل ظفر چوہدری۔ 7۔ بھارتی جرنلسٹ، کلدیپ نائر۔
8۔ اردو شاعر اور مصنف، امجد اسلام امجد۔ 9۔ متحدہ پنجاب کے رہنما، سر فضل حسین۔ 10- مصنف راجندر سنگھ بیدی۔ 11۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو،وحید مراد۔ 12۔ مشہور مصنفہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار، عمیرہ احمد۔ 13۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اہم کھلاڑی، شعیب ملک۔ 14۔ بھارتی اداکار، راجندر کمار۔ 15۔ برِصغیر کے نامور غزل گائیک، محمد علی۔
16۔ صحافی و کالم نگار، حامد میر۔ 17۔ بھارتی فلم سٹار، دیو آنند(شکرگڑھ میں پیدا ہوئے جو اس زمانے میں سیالکوٹ کا حصہ تھا) 18۔ پاکستانی کرکٹر ظہیر عباس۔ 19۔ صوفی رائٹر، بابا محمد یحیٰ خان۔ 20۔ سابقہ قائم مقام صدرِ پاکستان، خواجہ محمد صفدر۔ 21۔ چاچا کرکٹ، چوہدری عبدالمجید۔ 22۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی، چوہدری امیر حسین۔ 23۔سیاستدان و سابقہ وزیر برائے خاندانی منصوبہ بندی، فردوس عاشق اعوان 24۔خواجہ محمد آصف

Browse More Urdu Literature Articles