
”چلتے ہو تو چین چلو“۔ آخری قسط
جمعرات 23 اپریل 2015

عبدالرؤف
(جاری ہے)
افغانستان کا امن قائم ہونے کی صورت میں گوادر منصوبے کے ذریعے براہ راستہ افغانستان تا وسطی ایشیاء کے سمندری حدود سے محروم ممالک کو رسائی حاصل ہو گی۔ وسطی ایشیا کے لیے مجوزہ راہ داری منصوبہ جو کہ اففانستان کے صوبے دالبندین سے قندھار کی مغربی سمت پھر ہرات سے ہوتی ہوئی ترکمانستان اور مغرب کی جانب اشک آباد شمال میں ازبکستان کے علاقے تاشقندجا پہنچے گی۔ وہاں سے ایک اور سڑک تاجکستان کے علاقے دوشنبے اور ایک بڑی سڑک قازقستان کے شہر الماتے تک جائے کی اس طرح یہ سارا علاقہ گوادر کی سمندری حدود سے استفادہ حاصل کرے گا۔
غور طلب بات یہ ہے یہاں سے اس راہ داری کی دوڑ میں ایران اور ہندوستان بھی مل چکے ہیں۔ ایران کی بندرگاہ چہار بہار جو کہ آبنائے ہرمز کے نزدیک واقع ہے۔ اس بندرگاہ کا تعمیراتی ٹھیکا ایرانی صدر حاتمی کے دورہ ہندوستان کے موقع پر دیا گیا۔ ہندوستان نے چہار بہار سے وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے افغانستان میں سڑکوں کی تعمیر بھی مکمل کر دی ہے
اور افغانستان کے صوبے بامیان سے چہار بہار تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ہندوستان کی یہ کوششیں گوادر میں چین کی موجودگی کی وجہ سے کیں۔ سویت یونین کے زوال کے بعد وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا کی طرف گیس پائپ لائن منصوبہ زیرِ غور تھا۔ مگر افغانستان پر امریکی حملے کے بعد یہ عارضی طور پر بند ہو گیا۔ اب دوبارہ سے اس پر غور ہو رہا ہے۔ اس منصوبے کو TAPIیعنی ترکمانستان، افغانستان ، پاکستان اور انڈیا گیس پائپ لائن کا نام دیا گیا تھا۔ جو کہ افغانستان سے بلوچستان کے راستے سے گزرتی ہوئی پاکستان آنی ہے۔ دوسری IPIیعنی ایران، پاکستان اور انڈیا (چائنہ کی شمولیت بھی متوقع ہے) گیس پائپ لائن جس پر ایران کی طرف سے کام ہو چکا ہے۔ یہ گیس پائپ لائن صوبہ بلوچستان سے ہی پاکستان داخل ہونی ہے۔ اس لئے بلوچستان میں شورش کے حالات پیدا کرنا کن کن طاقتوں کی مجبوری ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کو پاکستان کی جغرافیائی حدود کا موتی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ گہرے پانی کی بندر گاہ ہے جہاں پر دنیا کے بڑے بحری جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔ پھر گوادر کاشغر روٹ جہاں جہاں سے گزرے گا وہاں ترقی کے نئے سے نئے باب رقم ہوں گے۔ گوادر کاشغر روٹ میں تبدیلی کی وجہ خود چین ہے۔چین اس کو مستقبل میں محفوظ رکھنے کے لیے بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں سے نہیں گزارنا چاہتے ورنہ آئے دن حملوں کا خطرہ برقرار رہے گا۔ چین کے صدر محترم شی چن پنگ جس طرح کی تاریخ ساز سرمایہ کاری لے کر پاکستان پہنچے بالکل اسی طرح پاکستان نے بھی اپنے معزز مہمان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سرخ کارپٹ استقبال پھر پاکستان کے صدر وزیر اعظم مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر اہم شخصیات بنفس نفیس استقبال کے لیے نور خان ائیر بیس پر موجود تھیں۔ دنیا بھرکے ذرائع ابلاغ بشمول ہندوستانی میڈیا بہت غور سے اس سارے دورے اور اس سرمایہ کاری کے نتائج پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے بقول گوادر بندرگاہ اور توانائی منصوبے پاکستان، چائنہ، مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کو ایک لڑی میں پرو دیں گے۔ تقریبا 46ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوئے۔ جو کہ آنے والے سالوں میں خطے کی مجموعی صورت حال کو تبدیل کر دیں گے۔ (امیریکہ نے پاکستان سے زیادہ ترفائدے سفارتی دباؤ کی بنیاد پر حاصل کیے۔ کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی 1.5 ارب ڈالر کی مدد بھی پاکستان کو متعدد دھمکیوں اور کانگرس کی منظوری کے بعد ملتی ہے ) پاکستانی قیادت اب کسی پارٹی کی خارجہ پالیسی کو ملکی خارجہ پالیسی میں بدلنا ہو گا خلوص نیت سے چین کی طرف سے تجارتی مدد کو استعمال کر کے پاکستانی عوام جو پہلے ہی معاشی پریشانیوں اور توانائی بحران سے اپنی کمر دہری کرتی جا رہی ہے۔ اُس کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ چین کے معاشی فائدے کو اپنے فائدے میں بدل کر ہم کہہ سکیں گے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی بن چکی ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
عبدالرؤف کے کالمز
-
شام کابحران
جمعرات 17 مارچ 2016
-
جنگ کی کہانی میری زبانی
اتوار 6 ستمبر 2015
-
”ہر کمال راہ زوال“
جمعرات 13 اگست 2015
-
”چلتے ہو تو چین چلو“۔ آخری قسط
جمعرات 23 اپریل 2015
-
”چلتے ہو تو چین چلو“۔ قسط نمبر1
منگل 21 اپریل 2015
-
ملت، ملک، قوم
منگل 2 ستمبر 2014
-
غیظ و غضب کے دن
جمعرات 14 اگست 2014
-
جنگ کی بھاشا
جمعرات 1 مئی 2014
عبدالرؤف کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.