ملت، ملک، قوم

منگل 2 ستمبر 2014

Abdul Rauf

عبدالرؤف

برسوں پہلے کی بات ہے ایران کی سرزمین سے ایک قافلہ حجاز کی طرف جا رہا تھا۔ قافلے کے ہمراہ ایک زمان و مکاں سے عاری ایک بزرگ بھی تھے۔ صحرا سے گزرتے ہوئے قافلے پر صحرائی ڈاکووٴں نے حملہ کر دیا۔ لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہواہر طرف چیخ و پکار سنائی دینے لگی۔ چند لوگ بھاگے بھاگے بزرگ کے پاس آئے اور کہا کہ جناب والا ابھی منزل کوسوں دور ہے اگر ہم اپنی مال ومتاع یہیں گنوا بیٹھے تو سفر کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔

آپ اِن لوگوں کو نصیحت فرمائیں۔ بزرگ نے کہا صاحبو وہ لوگ یہاں لوٹنے آئے ہیں۔ میری نصیحتیں سننے نہیں آئے ہیں۔ جاوٴ ان کا کام اُن کو کرنے دو اور تم اپنا کام کرو۔
وہ مقاصداپوزیشن اور حکومت دونوں کے یکساں ہیں۔ یعنی اقتدار کا جنون۔ اپنے اسی جنون کی تکمیل کی خاطر قائد عوام سے ان کی قربانی مانگتا ہے۔

(جاری ہے)

شہر اقتدار میں شاید انقلاب بھی آجائے اور آزادی بھی مل جائے مگر ہم چونکہ ایک غریب قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور کم ترقی یافتہ ہیں اس لیے غریب قوم کے ہاں انسانی قدروں کی پامالی پر کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔

اس جمہوریت کے لبادے میں لسانی اور فرقہ واریت کے عفریب چھپے ہوئے ہیں۔ اخلاقی طور پر کمزور معاشرہ آزادی اور انقلاب تو برپا کر سکتا ہے مگر اس کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ جیسا کہ مصر کے التحریر اسکوائرمیں ہوا۔ نہ ہی حسنی مبارک، نہ ہی محمد مرسی موجود ہیں۔ جنرل اسیسی کی شکل اسرائیل کے ایک ہمدرد کی حکومت میں وجود آ چکی ہے۔
آج شام خریداری کے لیے بازار گیا تو دکانوں کے اندر اور باہر لوگ کھڑے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔

میں سمجھ گیا یہ انڈیا پاکستان کا کرکٹ میچ نہیں بلکہ اسلام آباد کے ڈی گراوٴنڈ میں ہونے والا دھرنا ہے۔ ۱۴ دن سے جاری اس میچ کا نتیجہ دیکھنے کے منتظر ہیں۔ ہر خاص و عام، اخبار، ٹی وی پر دھرنا کا ہی موضوع ہے۔ اس دھرنے کی سب سے نمایاں خاصیت نے دیگر تمام مشکلات پر عارضی پردہ تان کر رکھ دیا ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کی بھی اَنا سے لوگوں کی جانیں نہ ضائع جائیں۔

ملک پر چھائے ہوئے تاریکی کے بادلوں کو اور گہرا نہ کر دے۔ملت کے جسم پر لگے زخموں میں سے ایک اور زخم کے اضافے کا باعث نہ بن جائے۔ کاش مرا یہ وہم صرف وہم ہی رہ جائے۔ اِس دھرنے کے متعلق میں تمام خدشات، خیالات غلط ہو جائیں۔(کالم کا اِبتدائی حصہ دو دن پہلے لکھا گیا۔)
بالآخر کنٹینروں میں پکنے والی کھچڑی کے اصل باورچی مجمع سے باہر آگئے ہیں۔

کوئی بھی ذی شعور شخص جو فرقہ واریت سے بچنے کی کم از کم ذہنی کوشش کر رہا ہو۔ وہ اس موجود آگ کو سمجھ سکتا ہے اور ایسے بہت سارے لوگ موجود بھی ہیں۔ طاہر القادری صاحب ہفتہ کی شام سے پہلے جتنے بھی الٹی میٹم دیتے رہے وہ نہ صرف جذباتی بلکہ اشتعال انگیز بھی تھے۔ جب کہ ڈاکٹر صاحب نے پوری دنیا کو کفن اور دفن کی باتیں سنائیں(ڈاکٹر صاحب غریب عوام کی نفسیات کو خوب جانتے ہیں)۔

آج ڈاکٹر صاحب نے واقعی پارلیمنٹ کی طرف کوچ کرنا تھاتو مجمع کو پر اَمن رہنے کا کہا کہ کوئی توڑ پھوڑ نہ کرے۔ اس سے پہلے وہ روحانی وابستگی رکھنے واے اپنے لوگوں کو سب سے پہلے شہید ہونے کا کہہ چکے تھے۔ لیکن ۵۰۰ افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر میڈیا پر مسلسل یہ اعلان کر رہے ہیں کہ حکومت نے پر اَمن مظاہرین پر حملہ کر دیا۔

ان کے پر امن مظاہرین ڈنڈوں، پتھروں، گیس ماسک کے ساتھ پارلیمنٹ ہاوٴس کی بیرونی دیوار کے جنگلے کو ٹرک کی ٹکر سے توڑ چکے ہیں۔ پولیس کے ساتھ مارا ماری جاری ہے۔ حکومت تمام کوتاہیوں کے باجود یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ مظاہرین پارلیمنٹ ہاوٴس پر قبضہ کر لیں۔ سب سے اہم کہ تمام حساس عمارتوں پر تو فوج موجود ہے۔ توکیا جو خدشہ عرصے سے ذہن میں بل کھا رہا ہے کہ فوج اور عوام آمنے سامنے؟
پہلے بھی یہ بات بہت دفعہ کر چکا ہوں، تیونس میں سبزی فروش کی خودکشی سے شروع ہونے والے مظاہرے، پھر شام میں چند بچوں نے دیواروں پر حکومت کے خلاف نعرے لکھے۔

بہر حال یہ تلخق حقیقت ہے پاکستان کو Arab Spring جیسا ماڈل بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دیگر شہروں کو ایسے مظاہرین سے محفوظ کرنا ہوگا۔ میرے خیال میں نواز شریف صاحب اس خطے میں موجود اقتدار کی شطرنج کے بین الاقوامی کھلاڑیوں سے مات کھا رہے ہیں۔ کسی نہ کسی حد تک الیکشن ۲۰۱۳ء کے نتائج موجودہ منصوبے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں NATO فورسز افغانستان سے اپنا انخلا کر رہی ہیں۔

بڑی تعداد میں تھنک ٹینک یہ لکھ رہے ہیں کہ NATO فورسز کے انخلاء سے پہلے پاکستان اپنے آپ کو اندرونی طور پر مضبو کرنا ہو گا۔ آپریشن شمالی وزیرستان اس سلسلے کی کڑی ہے۔ دوسری طرف انہی دنوں میں مشرقی سرحدوں پر پنجاب کے اہم محاذ پر انڈیا چھیڑ خانی کر رہا ہے۔ مغربی سرحدوں پر جنگ کے ساتھ ساتھ افغانستان حملوں کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اندرونی طور پر قوم کئی سال سے بجلی اور مہنگائی کے بدترین بحران میں مبتلا ہے۔

ایسے میں مظاہرین فوج سے چند میٹر کے فاصلے پر موجود ہیں ارو ریاست کی پہلی فورس پولیس سے ابتدائی جھگڑوں میں مصروف ہیں۔ پھر ایک لفظ اور بھی غور طلب ہے کہ دونون طرف کے قائدین نے اپنے پہلے دن کے موٴقف میں کوئی لچک نہیں دکھائی اور ہمارے جمہوری حالات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت وقت کے لیے وزیر اعظم کا استعفیٰ ایک مشکل اور اَنا کا مسئلہ رہے گا۔

پارلیمنٹ ہاوٴس پر دھاوے سے پہلے تک آخری اطلاع یہ تھی کہ حکومت اور تحریک انصاف کسی حتمی معاہدہ کی طرف پیش قدمی کرنے لگے ہیں۔ پھر بھی آگے جانے کا ارادہ کیوں کیا گیا؟ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک دن پہلے جب آگے جانے کا اعلان کیا تو تحریک انصاف نے یہ اعلان ملتوی کر وایا۔ اس کی وجہ گزشتہ رات تحریک انصاف کے کارکن کم تعداد میں تھے اس لیے شاہ محمود قریشی نے ایک رات کی مہلت مانگی تھی۔

موجودہ صورت حال پر میڈیا کا کردار بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ اس لڑائی میں دو بڑے میڈیا ادارے اپنی صحافتی ذمہ داریوں سے آگے نکل کر حالات کو خراب کر رہے ہیں۔
نیک نیتی پر مبنی کوششوں سے ابھی بھی حالات کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ حکومت وقت ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں اس بات کو اَنا کا مسئلہ نہ بنائے۔ مزید تین دن تک حالات ٹھیک نہ ہوے تو وزیراعظم کا اِستعفی کا دباو بڑھ جائے گا۔

کسی بھی صورت حال میں قتل و غارت نہ ہونے دیں۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ساتھ جلد سے جلد بیک ڈور چینل رابطے پیدا کر کے مسئلے کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ اسی دھرنوں کے متعلق تجزیہ نگاروں کے تجزیے غلط ثابت ہوتے رہے۔ شام کو کچھ کہا جاتا، صبح اس کا اُلٹ ہوتا۔ موٴرخ ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھے گا اور عمران خان کو صرف چند دن بعد اپنی غلطی اور کسی سے بہکاوے میں آنے کا احساس ہو جائے گا ۔

آپ سب نے چغل خور کا قصہ تو پڑھ رکھا ہوگا ایسے ہی چغل خور عمران خان صاحب کے دائیں بائیں موجود ہیں جاوید ہاشمی صاحب نے اپنی انکشافات سے بھرپور پریس کانفرنس تو کر دی اب دیکھنا یہ ہے پاکستانی فوج اور عمران اِس پہ کیا ردعمل دیتے ہیں غور طلب بات ہی ہے وہ کونسی ایسی طاقت ہے جو اِس معاملے پہ اِتنا فساد کروا رہی ہے؟۔پاکستان کی عوام آج بھی پاک فوج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور فوج اِس کو خوب جانتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :