ادیب کو موت

جمعرات 8 مارچ 2018

Abdul Razzaq Barohi

عبدالرزاق بروہی

عجب ریت پڑ چکی ہے کہ اہل دانش معاشرے میں موجود برائیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہوئے جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی ہمارا المیہ ضرور رہا ہے مگر اہل دانش بہت حد تک اس دائمی مرض سے بچے ہوئے تھے۔ مگر جب سے "مجھے کیوں نکالا" والی گردان شروع ہوئی ہے اور عطاءالحق قاسمی صاحب کا پی ٹی وی کا کیس کھلا ہے تو حالات کچھ اس طرح کے نظر آتے ہیں،
"ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے دانش ور اور سیاسی کارکنان"
استاد محترم جناب وجاہت مسعود صاحب نے تو قاسمی صاحب کو پابلو نرودا کے ہم پلہ قرار دے دیا۔

افسوس یہ لکھتے ہوئے انہیں اتنا بھی خیال نہیں رہا کہ قاسمی صاحب کا قد بڑھانے کے چکر میں انہوں نے پابلو نرودا کو زمین دوز کر دیا۔
قاسمی صاحب کی ادبی خدمات کے بارے کوئی دو رائے نہیں ہے۔

(جاری ہے)

بطور مزاح نگار، ڈرامہ نویس اور کالم نگار انہوں نے جو نام کمایا وہ نا صرف قابل رشک ہے بلکہ موجودہ دور میں شاید ہی کوئی ان کا ہم پلہ ہو۔ مگر بہت ادب کے ساتھ وجاہت مسعود اور عطاٰء الحق قاسمی صاحب سے گستاخی کی اجازت چاہوں گا۔

قاسمی صاحب نےاپنی ادبی خدمات کا صلہ سفارت کاری، الحمرا اور پی ٹی وی کا چیئرمین بننے صورت میں بھر پور معاوضہ بھی وصول کر لیا ہے۔میاں نواز شریف صاحب کی شخصیت پرستی میں وہ اس حد تک چلے گئے کہ انہیں شاید خود بھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کب کی ادبی خود کشی کر چکے ہیں۔ موجودہ نسل میں قاسمی صاحب کی پہچان ادیب اور مزاح نگار سے ذیادہ نواز شریف صاحب کے ترجمان کی ہے۔


قاسمی صاحب نے سپریم کورٹ میں چلنے والے کیس سے متعلق اپنے حق میں ایک کے ساتھ دو کالم فری لکھ کر اپنے حمایتی کا لموں کی ہیٹ ٹرک کر ڈالی، اس سلسلے میں میری بھی کچھ گزارشات ہیں۔
ٹی وی کی صنعت سے جو لوگ وابستہ ہیں انہیں اچھی طرح علم ہوگا کہ ٹی وی کی صنعت کا دارومدار اشتہارات پر منحصرہوتا ہے اسی لیے شائقین کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں کہ پروگرام کو اتنے اشتہارات مل جائیں کہ یہ منافع بخش ہو جائے اور اگر منافع بخش نا سہی تو کم از کم اپنے اخراجات ہی پورے کر لے۔


قاسمی صاحب نے جو پروگرام شروع کیا "کھوئے ہوئوں کی جستجو" اس میں فقط اپنی ذات کی تشہیر، تعلقات بڑھانے اور مظبوط کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ پروگرام اپنے مواد ، میزبان اور پریزینٹیشن کے لحاظ سے انتہائی نچلے درجے کا پروگرام تھا۔ قاسمی صاحب نے یہ احسان جتانے کی کوشش کی کہ پی ٹی وی پر انہوں نے اس پروگرام کا معاوضہ وصول نہیں کیا۔

گزشتہ دس سالوں سے ٹی وی کی صنعت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے میں یہ بات انتہائی وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ اس معیار کے پروگرام کی ایک قسط بھی کسی پرائیویٹ چینل پر نہیں چل سکتی۔ اور اگر کہیں ایسا پروگرام دو سال چل جائے تو وہ چینل یا اس کا میزبان پھر کہیں چلنے کے قابل نہیں رہتے۔ ماضی میں جو ایسے گوہر ء نایاب پروگرام چلے ان کھوئے ہوئوں کی جستجو تا حال جاری ہے۔


یہ پروگرام دوسال تک پرائم ٹائم میں چلا (پرائم ٹائم ٹی وی کا سب سے مہنگا ٹائم سلوٹ ہوتا ہے۔ اس میں اشتہارات کا ریٹ سب سے ذیادہ ہوتا ہے اور چینل اپنے بہترین پروگرام اس دورانیے میں پیش کرتے ہیں) دوسال میں پی ٹی وی نیٹ ورک پر سب سے ذیادہ پرومو/ٹریلر اس پروگرام کے چلے جبکہ اخبارات میں سب سے ذیادہ اشتہارات بھی اس پروگرام کے شائع کیےگئے اور پی ٹی وی کا مختلف اخبارات کے ساتھ بارٹر اس ایک پروگرام کی وجہ سے قبل از وقت ختم ہو گیا۔

پی ٹی وی کے تمام سینٹرز میں قوی ہیکل بل بورڈز بھی لگائے گئے اس کے باوجود یہ پروگرام عام عوام اوراشتہاری کمپنیوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ پی ٹی وی میں مشہور ہوگیا "قاسمی صاحب پی ٹی وی چلانے آئے تھے مگر یہاں تو پی ٹی وی ہر وقت قاسمی صاحب کو چلا رہا ہوتا ہے"۔ یہ سرکار کی مہربانی ہے کہ اس طرح کا پروگرام دو سال اور مبلغ بیس کروڑ روپے کے عوض برداشت کرلیا۔


قاسمی صاحب نے ڈاکٹر یونس بٹ اور ریما خان کے پروگراموں کا ذکر کیا مگر شاید دانستہ طور پر فائزہ بخاری کے پروگرام کا ذکر نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب اور ریما دونوں بہت بڑے اور قابل احترام نام ہیں مگر ان دونوں پراگراموں کا معیار اس نوعیت کا تھا کہ ایک مرتبہ چلنے کو بعد دوبارہ چلانے کی نوبت نہیں آئی۔ اسی طرح اگر فائزہ بخاری کے پروگرام کے اخراجات منگوائے جائیں تو پھر قاسمی صاحب ماہانہ دو کروڑ میں پڑیں گے۔


قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں چیک کا ذکر کیا تھا جو ڈائریکٹر فنانس کی طرف سے انہیں پیش کیا گیا تھا مگر انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ میں عرض کرتا چلوں کہ چیئرمین پی ٹی وی کا عہدہ اعزازی ہوتا ہے جس میں تنخواہ نہیں ہوتی البتہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹینگ کا ایک عدد چیک ملتا ہے جو کہ چیئرمین کا حق ہوتا ہے۔ جس رقم پر قاسمی صاحب کا حق تھا وہ وصول کرنے سے انکاری رہے جبکہ پندرہ لاکھ روپے جن پر ان کا حق نہیں تھا وہ خوشی سے وصول کرتے رہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ آج قاسمی صاحب کو اپنی ادبی خدمات گنوانی پڑ رہی ہیں اور مسجد میں چندہ دینے جیسے کاموں کی تشہیر کرنی پڑ رہی ہے۔ مسجد میں جیب سے پیسے دینے سے چیئرمین شپ حلال ہرگز نہیں ہو جاتی اگر یہی معیار رکھنا ہو تو پاکستان کے تمام محکموں پر سب سے ذیادہ حق ملک ریاض، امریکہ اور سعودیہ عرب کا بنتا ہے۔ ویسے بھی مسجد میں قالین کے اخراجات آپ کی ذاتی گاڑی پر آنے والے اخراجات (سات لاکھ روپے) سے کم ہی ہوں گے، گاڑی کے اخراجات سرکار نے برداشت کئے ہیں۔


قاسمی صاحب سے حلال اور حرام کی بات کی تھی، چیئرمین پی ٹی وی کے عہدے پر تعیناتی سے پہلے اس منصب کے معیار میں تبدیلی کی گئی کیونکہ قاسمی صاحب اس معیار پر پورا نہیں اترتے تھے، میری ناقص رائے میں یہ تبدیلی بے ایمانی کے زمرہ میں آتی ہے اور کیا صرف ایک شخص کے لئے کسی عہدے کے معیار میں ردبدل کرنے کے بعد وہ عہدہ اور تنخواہ حلال ہو جاتی ہے؟؟؟۔

اگر یہی معیار رکھنا ہے تو خدارا اس ملک کو تباہ کرنے والے آمروں کو بھی برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔ ان آمروں کو بھی وزارت اور صدارت کے منصب پر بٹھانے کے لئے نادیدہ قوتوں نے منصب کے معیار میں ردبدل کیا تھا جبکہ یہاں دیدہ قوتوں نے منصب کے معیار میں ردبدل کیا دونوں صورتوں میں مقصد ایک تھا کسی نا اہل شخص کو اس منصب کے لئے اہل بنانا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آمروں نے قابض ہونے کے بعد ردبدل کروائی جبکہ یہاں عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی تبدیلی آ گئی۔


عمران خان کے سیاست میں آنے کا سب سے ذیادہ نقصان اس قوم کا ہوا کیونکہ ایک غیر متنازعہ ہیرو ہم نے کھو دیا۔ افسوس کا مقام ہے قاسمی صاحب آپ کی ادبی خدمات کو شخصیت پرستی کی دیمک نے کھوکلا کردیا، جس ادیب کو آپ نے بہت محنت کرکے بڑا کیا تھا وہ سرکاری عہدوں کی لالچ کی زد میں آکر اب انتقال کر چکا ہے۔ اس قوم نے ایک بہت اچھا ادیب کھو دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :