حقیقت میں ارطغرل غازی مسلمان تھے یا بت پرست؟

پیر 1 جون 2020

Azam Peerzadah

اعظم پیرزادہ

وزیر اعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر پی ٹی وی پر چلنے والے شہرہ آفاق ڈرامے ارطغرل غازی سے اس وقت پاکستان کا بچہ بچہ نا صرف واقف ہو چکا ہے بلکہ وہ نسل جو تصوراتی اور فکشنری ہیروز کے سحر سے باہر نہیں نکلتی تھی وہ بھی اب ارطغرل،بامسی اور ترگت کو اپنا ہیرو ماننے لگ گئی ہے۔جہاں نوجوان لڑکے حلیمہ جیسی صابر، وفا شعار اور بہادر لڑکی کے خواب دیکھنے لگ گئے ہیں تو وہیں دوسری طرف لڑکیاں بھی ارطغرل جیسا دلیر،ذہین اور دھن کا پکا مرد اپنے خوابوں میں سجائے بیٹھی ہیں۔

ایسے میں اچانک اس سوال کا جنم لینا بے حد معنی خیز ہے کہ کیا حقیقت میں ارطغرل غازی ایسے ہی تھے یا ان سب باتوں کے بالکل برعکس وہ ایک بت پرست تھے؟
اس سے پہلے کہ اس سوال کے جواب کو تلاش کیا جائے۔ ہمیں چاہئے کہ اس سوال کی حقیقت سے بھی واقف ہو جائیں. اس سوال کے لئے جو حوالہ دیا جاتا ہے وہ کتاب تاریخ دولت عثمانیہ سے لیا گیاہے جو ڈاکٹر محمد عزیر کی لکھی ہوئی ہے اور 1939میں پہلی دفعہ شائع ہوئی اور اس وقت تک ڈاکٹر محمد عزیر پی ایچ ڈی درحقیقت مولوی محمد عزیر ایم اے تھے اور اسی کتاب کے دیباچے میں سید سلیمان ندوی نے مصنف موصوف کو اسی نام سے مخاطب کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس کتاب میں ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں کہ اب سے بایئس سال قبل تک یہ امر عموماََ مورخین کے نزدیک مسلم تھا کہ ارطغرل اور اس کے ساتھی ایشیائے کوچک میں داخل ہونے سے پہلے ہی مسلمان تھے۔لیکن 1916میں مسٹر ہربرٹ گینس نے اپنی مستند تالیف اساس سلطنت عثمانیہ کو شائع کر کے یہ تازہ تحقیق پیش کر دی ہے کہ سوگوت میں بودوباش اختیار کرنے کے وقت عثمان اور اس کے قبیلے کے لوگ بت پرست تھے۔

مزید اسی طرح کے ایک اور شبہہ کا اظہار مولوی محمد عزیرنے ایک اور برطانوی مصنف ڈاکٹر جولیس گرمانی کی کتاب ترکوں کی اسلامی خدمات کا حوالہ دے کر بھی لکھ جو کہ 1932 میں لکھی گئی تھی۔
بلاشبہ ایک اچھے مورخ کی طرح ڈاکٹر عزیر نے اپنی معلومات کو باقاعدہ حوالوں سے مزین کر کے پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دیا لیکن اس سے یہ مطلب اخذ کرلینا کہ اب یہ معلومات حتمی ہیں اور ان پر ایمان لے آنا کسی طور بھی عقل مندی نہیں۔

ایک طالب علم ہونے کہ ناطے میں ان معلومات کو قطعاََ سچ نہیں مانتا کیونکہ ضروری یہ ہے کہ ان معلومات کا حالات و واقعات کی ترتیب اور دیگر مورخین کی دی گئی معلومات سے موازنہ بھی کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔سادہ الفاظ میں تاریخ کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جانا چاہئے۔ سو آئیے اب پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔اور چند دلائل سے اپنا موقف ثابت کرتے ہیں کہ ارطغرل غازی پیدائشی مسلمان تھے۔

1۔ ارطغرل کا انتقال 1288کے قریب قریب بتایا جاتا ہے۔اور مولوی محمد عزیر صاحب کے مطابق 1916تک یعنی سوا چھ سو سال تک یہ بات متفق علیہ تھی کہ ارطغرل اور ان کا قبیلہ مسلمان تھے۔پھر یکا یک کہاں سے یہ تحقیق سامنے آگئی؟ اور کیوں؟
اسکا جواب ہے کہ یہ نئی تحقیق اس وقت کی گئی تھی جب خلافت عثمانیہ اپنے آخری دور سے گزر رہی تھی اور اس کی ساکھ بچانے کے لئے اس وقت کے عثمانی خلیفہ سلطان حمید الدین نے مسلمانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے سوگوت میں ارطغرل غازی کے مزار کی تعمیر نو کی اوران کے ساتھی مجاہدین کا ایک علامتی قبرستان بھی آباد کیا جس کا مقصد ترکوں کو ان کے آباؤ اجداد کی طرف راغب کرنا تھا۔

ایسے میں اس وقت کے دشمن انگریز اور برطانوی کالونی کے زیر انتظام امریکہ تک کے مصنفین کا ترک مسلمان ہیروز کو کافر یا بت پرست ظاہر کرنے کی کوشش کرنا کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔
2۔خود مولوی محمد عزیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جو کہ 717سے 720تک خلیفہ رہے ان کے دور سے ہی ماوراء النہر کے ترک بادشاہوں کو باقاعدہ اسلام کی دعوتیں دی جا چکی تھیں اور ان میں سے اکثر اسلام قبول بھی کر چکے تھے۔

اور دسویں صدی تک ماوراء النہر کی ترک قوم کے دس ہزار خیمے اسلام قبول کر چکے تھے جو ساغون اور کاشغر کے علاقوں میں آباد تھے۔اسی دوران اسلام ترکوں میں اتنی تیزی سے پھیل رہا تھا کہ دو لاکھ سے زائد ترک خیمے مسلمان ہو چکے تھے۔خود آخری عباسی خلیفہ کی ماں بھی ترک النسل تھی اور اسی وجہ سے معتصم باللہ نے سامرا میں بہت سے ترکوں کو آباد کر کے اس کو اپنا پایہ تخت بنایا ہوا تھا۔

حتیٰ کہ چنگیز خان کے پوتے برکہ خان اپنی فوج سمیت مسلمان ہو چکے تھے ایسے میں تیرہویں صدی تک تاتاریوں سے برسرِ پیکار رہنے والے ارطغرل اور ان کے قبیلے کا اسلام نہ لانے کا سوال اٹھانا بلا جواز اور غیر منطقی ہے۔
3۔مولوی محمد عزیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بروصہ اور نبی شہر کے درمیاں ایک جنگ میں ارطغرل نے سلطان علاؤالدین کیکوباد کے نائب کی حیثیت سے تاتاریوں اور بازنظینیوں کی ایک متحدہ فوج کو بری طرح شکست دی تو اس کے صلے میں سلطان علاؤالدین نے نا صرف ارطغرل کو صدر سلطانی کا علاقہ دیا بلکہ اپنی فوج مقدمة الجیش کا سپہ سالار بھی مقرر کر دیا۔

اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ایک ایسا سلطان جو ایک ساتھ بت پرست تاتاریوں اور صلیبیوں کے ساتھ نبرد آزما ہو اور مسلم امہ کی آخری امید ہو وہ بھلا ایک بت پرست کو اپنی فوج کا سپہ سالار صرف اس کی بہادری کی وجہ سے کیوں بنائے گا؟
4۔ 1301 میں اچانک عثمان اول کی قیادت میں عثمانی سپاہیوں کا بازنظینیوں کے ساتھ شدید لڑائی اور شہنشاہ تک کی فوج کو شکست دینا ایک معجزے سے کم نہیں جس کی منطق ڈاکٹر ہربرٹ گینس کے نزدیک عثمان کی فوج کا نو مسلم ہونا بتایا جانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کھسیانی بلی کا کھمبا نوچنا۔

۔۔یعنی عثمانی فوج نے اپنے سے کئی گنا بڑی اور منظم فوج کو صرف اس لئے شکست دے دی کہ وہ سب تازہ تازہ جذبہ ایمانی سے منور ہوئے تھے۔ الحمداللہ مسلمان نیا ہو یا پرانا لیکن جب بھی بات دین کی اور اسلام کی بقاء کی آتی ہے تو مسلمان واقعی ایسی تاریخیں رقم کرجاتا ہے کہ اس کے دشمنوں کی آہ و بکا صدیوں تک سنی جا سکتی ہے۔
5۔ اب ذرا دیگر دلائل کو بھی مختصراََ دیکھ لیں تو ارطغرل غازی کی ایک مسلمان سلجوقی شہزادی حلیمہ خاتون سے شادی اور ارطغرل کے والد سلیمان شاہ کا نام بذات خود ایک دلیل ہے کہ کیا کسی بت پرست نے اپنا نام سلیمان شاہ رکھا یاشہزادہ نعمان کی بیٹی حلیمہ خاتون نے ایک بت پرست سے شادی کی؟ مزید اگر دیگر مورخین کو دیکھا جائے تو ابن اثیر، فرشتہ،علامہ شبلی نعمانی، حسرت موہانی اور نجیب اکبر آبادی کی کتب میں تفصیل سے ارطغرل اور ان کے اجداد کے مسلمان ہونے کا تذکرہ ملتا ہے اس کے ساتھ ساتھ جدید انگلش مورخین کیرولائن فنکل (عثمان کا خواب 2005)، سٹینفورڈ جے شاء(سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی 1977)، لیسلے پی پیریئس(دی امپیریل حرم 1993)وغیرہ نے اپنی کتب میں تفصیلی ذکر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عثمان اور ان کے اجداد مسلمان تھے۔

فنکل کی کتاب عثمان کا خواب میں سوگوت اور اس کے نواح میں تومسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر بہت سے عیسایؤں تک کے اسلام قبول کرنے تک کے شواہد کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس تمام بحث سے حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ارطغرل غازی اور ان کے اجداد نہ صرف مسلمان بلکہ عظیم ترین مجاہدین بھی تھے۔جنہوں نے کمزور پڑتی ملت اسلامیہ کا بھرپور دفاع کر کے ناصرف تاتاریوں اور بازنطینیوں کو شکست دی بلکہ اپنی مسلسل اور ان تھک جدو جہد سے ایک نئی اسلامی خلافت کی بنیاد بھی رکھی جس نے بلا مقابلہ 400سال تک مسلمانوں پر متفقہ حکومت بھی کی۔

ایسے میں ارطغرل غازی کے مسلمان ہونے پر سوال ایک ایسا ہی شوشا ہے جس کی مثالیں اس سے پہلے بھی کئی مل چکی ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ آج کے اس کونٹیٹ وار کے دور میں ہم پر مسلط قوموں کی پالیسی ہی یہی رہی ہے کہ ہم سے ہمارے ہیروز اور راہ نما چھین لئے جائیں۔یہی وجہ ہے کہ محمد بن قاسم ہوں یا محمود غزنوی،ٹیپو سلطان ہوں یا صلاح الدین ایوبی حتیٰ کہ قائد اعظم محمد علی جناح تک سب کے کرداروں کو مشکوک بنا نے کے لئے ہر ماہ دو ماہ بعد کوئی نہ کوئی شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے اور ہمارے نام نہاد لبرل دانشور اس کو سچ مان کر انگریز مصنفین کی بات کو حرف آخر مان لیتے ہیں۔لیکن اگر ہم ان حقائق کا پوسٹ مارٹم کر لیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :