انسان تو زندہ ہیں لیکن انسانیت مر گئی ہے

جمعرات 4 جون 2020

Azam Peerzadah

اعظم پیرزادہ

راولپنڈی کی زُہرا  شاہ  یا  لاہور کی مون مارکیٹ میں غبارے بیچنے والا کم سن غریب محنت کش کوئی ہمارے بچے تھوڑا ہیں جن کو اگر کوئی گھور کر بھی دیکھ لے تو ہم اس کی آنکھیں نوچ لیں گے۔یہ تو زُہرا شاہ  تھی نا ایک غریب بے سہارا اور لاچار بچی۔۔یقیناََ اس کا ہی قصور ہوگا کہ اس نے اتنے قیمتی طوطے اڑا دئیے۔ظاہر ہے زُہرا جیسی تو کئی ملازمائیں مل جائیں گی وہ بھی بلامعاوضہ بس دو وقت کی روٹی اور سال کے سال آپ کے بچوں کی اترن پہن کر خوش ہونے والی معمولی مازمہ۔

۔۔ غلطی بھلا اتنی چھوٹی تھوڑی تھی کہ اسے معاف کر دیا جاتا یا زندہ رہنے دیا جاتا۔۔۔ اچھا ہی ہوا کہ مر گئی ورنہ جب تک زندہ رہتی پتا نہیں اور کتنی دفعہ بے چاری کو مرنا پڑتا۔۔۔
لیکن پتا نہیں کیوں ایک خیال دل میں آرہا ہے کہ اگر ان طوطوں کو پتا ہوتا کہ ان کی آزادی کی قیمت زُہرا کی جان ہے تو  قسم لے لیں  وہ طوطے پنجرے میں ہی خوشی خوشی مرنا پسند کر لیتے لیکن آزادی کا خیال تک نہ لاتے اپنے دل میں۔

(جاری ہے)

لیکن پھر یاد آتا ہے کہ نہیں بھلا جانوروں میں انسانیت کہاں سے آگئی یہ تو ہم انسان ہی نبھا سکتے ہیں بس۔۔۔
اب وہ پارک میں چہل قدمی کرنے کے لئے آئے ہوئے اعلیٰ نسل کے قیمتی کتوں کو ہی دیکھ لیں اگر ان میں انسانیت ہوتی تو وہ بھلا ایک چھوٹے سے بچے کو کیوں کاٹتے جو پہلے ہی حالات کی چکی میں پسا ہواغبارے بیچ کر اپنے پیدا ہونے کا خراج ادا کررہا تھا۔

کیا ان کتوں کو سیر کروانے لے کو باہر آئے ہوئے مالکان بھی انسان نہیں تھے کہ اپنے ہی کتوں کے وحشی ہونے پر بے بسی سے تماشا ہی دیکھتے رہے۔کیا وہ کتے اپنے مالکان کو کاٹتے تو تب بھی وہ کتے ایسے ہی پچکار کر سنبھالنے کی کوشش کی جاتی جیسے اس بچے کو بچانے کی کی گئی؟
ایسے میں ذہن میں سوال آتا ہے کہ جانورکون تھے؟کاٹنے والے یا ان کو باہر لانے والے؟ کیونکہ کوئی ایک بھی انسان ہوتا تو انسانیت کا مظاہرہ ضرور کرتا۔


لیکن چلو اللہ کا شکر ہے کہ زُہرا کا قاتل اور کتے کا مالک دونوں اب پکڑے جا چکے ہیں اور قانون کے آہنی شکنجے میں ہیں۔اب کم از کم دو چار دن سلاخوں کے پیچھے رہیں گے نا تو خود ہی عقل ٹھکانے آجائے گی۔میں تو کہتا ہوں کہ ایک آدھے گھنٹے کے لئے حوالات کا پنکھا بھی بند کردینا چایئے۔اتنی گرمی میں بغیر پنکھے کے رہیں گے نا تو لگ پتا جائے گا۔۔

۔اور ہاں کم سے کم پانچ پانچ ہزار تو بچوں کے والدین کو ملنا چایئے تاکہ ان کے زخموں پر کچھ تو مرہم رکھا جائے۔لیکن ایسے میں ہمارے قانون کے رکھوالوں کا خطیرحصہ بھی نہیں بھولنا چاہئے جنھوں نے آن واحد میں مجرموں کو پکڑ کر اپنا حق ادا کردیا۔اب اگر عدالت ان کو رہا کر دے نا کافی ثبوتوں یا گواہوں کی عدم موجودگی پرتو؟۔۔۔ دیکھیں قانون کا تو کوئی قصور نہیں نا۔

۔۔اب قانونی تقاضوں اور مجبوریوں کو بھلا میرے آپ کے جیسے لوگ کیا سمجھ سکتے ہیں؟ سو بلا وجہ شور مچا مچا کر عدل کی نیند میں خلل نہ ڈالیں۔
ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تک سزا اور جزا کا نظام مضبوط نہیں ہوگا کوئی تعلیم کوئی کتاب ہمیں انسانیت نہیں سکھا سکے گی۔تعلیم شعور دے سکتی ہے لیکن اند رکے حیوان کو صرف اور صرف سزا کا خوف ہی جاگنے سے روک سکتا ہے ورنہ ایک لمحہ میں انسان کو انسانیت کا لبادہ اتارنے میں دیر نہ ہو۔

حضرت علی کے نام سے منسوب کیا جانے والا ایک قول شدت سے یاد آرہا ہے کہ ظالم پر رحم کھانا مظلوم پر ایک اور ظلم ہے۔کیا ابھی بھی کسی آسمانی مدد کا انتظار ہے؟یا ہم صرف لکھ لکھ کر صفحے کالے کرنے والے کتابی دانشور ہی رہ گئے ہیں یا ظلم کے ساتھ سمجھوتا کر لیا ہے کہ جب تک اس آگ کی تپش ہمیں یا ہمارے بچوں کو نقصان نہیں پہنچائے گی ہم سکون سے سوئے رہیں گے یا بہت زیادہ رنجیدہ بھی
 ہوئے تو ایک آدھی ٹوئیٹ، فیس بک سٹیٹس یا کوئی کالم لکھ کر اپنا احتجاج نوٹ کروا دیں گے اور بس۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :