کرونا، فکر انگیزیاں

جمعہ 27 مارچ 2020

Babar Nazir

بابر نذیر

آج صبح سے ہی دل سائیں جی سے ملنے کو کر رہا تھا۔ گھر سے نکلا تو گلی کے نکڑ پر وہ کھڑے تھے۔ علیک سلیک کے بعد ان سے موجودہ صورت حال پر تبصرہ چاہا۔ لیکن انہوں نے انتہائی بیزاری سے میری بات کو رد کر دیا اور الٹا ایک سوال جڑ دیا۔ 
میاں! بتاؤ انسان دولت کیوں کماتا ہے۔ ان کے بظاہر بے محل سوال پر تھوڑا چونک گیا اور پھر سوچ کر گویا ہوا۔ ظاہر ہے سائیں جی اچھی اور آسودہ زندگی بسر کرنے کے لئے۔

اچھا یہ بتاؤ یہ اچھی اور آسودہ زندگی کیا ہوتی ہے۔ میں نے کہا اس سے مراد اچھا گھر۔ اچھی تعلیم اچھی صحت کی سہولت وغیرہ۔
 پھر سائیں جی بولے یعنی تمہارے خیال میں ایک غریب اور امیر شخص میں ان چیزوں کی فراہمی اور عدم فراہمی کا فرق ہوتا ہے۔ میں بولا ہاں میرے خیال میں تو ایسا ہی ہے۔

(جاری ہے)

آپ کیا کہتے ہیں۔ بولے میری چھوڑ و اپنی بات کرو۔ یہ بتاؤ! اگر کسی امیر شخص کو ان سب سہولیات میں سے اپنی دولت کو صرف ایک مد میں خرچ کرنے کو کہا جائے تو وہ کہاں خرچ کرے گا۔

میں جھنجھلا سا گیا تھوڑا سوچ کر بولا میرے خیال میں تو اگر کسی بھی شخص کی جان اور صحت پہ بات آجائے تو وہ اپنی سارے دولت دے کر اچھی صحت کا سودا کرنے میں ایک لمحے کے لئے نہیں سوچے گا۔
 میرا جواب سن کر سائیں جی زیر لب مسکرائے۔ اس معنی خیز مسکراہٹ سے مجھے یہ محسوس ہوا وہ اپنے سوالات سے مجھے کہیں لے جانا چاہ رہے تھے اور میں اپنے جوابات سے اُدھر ہی جا رہا تھا۔

پھر سائیں جی بولے اچھا میاں یہ بتاؤ کہ دنیا کی تمام تر دولت ہونے کے باوجود اگر ایک شخص کو صرف اتنی ہی صحت کی سہولیات میسر ہوں جو شاید ایک عام آدمی کو میسر ہوتی ہے۔ اور اپنی تمام تر دولت کے باوجود وہ نازل کی گئی بیماری سے اپنی جان بخشی نہ کروا سکے تو ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ میں بولا میرے خیال میں اس سے بد نصیب شخص کوئی نہیں ہو سکتا جس نے عمر بھر دولت کمائی ہو اور ضرورت پڑنے پر یہ دولت اس کی کچھ مدد نہ کر سکے۔

 سائیں جی پھر مسکرائے اور بولے۔ میاں! کرونا وائرس کی آفت نے بھی غریب اور امیر ایک ساتھ لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ چاہے وہ ملکوں کی سطح پر ہو یہ انفرادی سطح پر۔ دیکھ لو دنیا میں ترقی یافتہ ملک بھی اس آفت کے سامنے اتنے بے بس ہیں جتنے ترقی پذیر ملک اور انفرادی سطح پر کسی کے پاس چاہے جتنی مرضی مال و دولت ہے اس کو کرونا کا اتنا ہی خطرہ ہے جتنا عام آدمی کو۔

اور اگر کسی امیر کو یہ وائرس لاحق ہوجائے تو بہترین صحت کی سہولتیں بھی اس کو نہیں بچا سکیں گی۔
 میاں! سمجھنے کی بات یہ ہے اسباب کی اس وقت تک کوئی بھی وقعت اور حیثیت نہیں ہے جب تک خالق کی مرضی اس میں شامل نہیں ہوتی۔ تو دولت ہوں یا اسباب اگر خالق اُن سے نفع کی صفت ختم کر دے تو ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہو جاتا ہے۔ اور یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔

ایک ناچیز سی مخلوق میں خالق نے نقصان کی صفت رکھ دی ہے اور باقی ساری دنیا کے اسباب سے نفع کی صفت چھین لی ہے۔ دیکھو کیسابھونچال آگیا ہے کہ سنبھالنے کو نہیں دے رہا۔ تو سبق یہ ہے مشرق ہو کہ مغرب فرد ہو کہ معاشرہ ہم نے اسباب اور صفات کے اس فرق کو سمجھ کر آگے چلنا ہے اسباب میں خوب سے خوب تر ہونے کے ساتھ ساتھ ہم نے خالق کو بھی راضی رکھنا ہے اور سبب کے کارگر ہونے کو اُس کی مشیت کے ساتھ منسوب کرنا ہے۔ ورنہ یہی کچھ بار بار ہوگا اور خالق کی مشیت ایک ناچیز مخلوق کے پلڑے میں ہوگی اور ہم تمام اسباب کے ہوتے ہوئے بے یار و مدد گار ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :