
تحمل ، رواداری اور برداشت کا فقدان کیوں؟
منگل 24 فروری 2015
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہو تی ہے وہاں بے چینی ، شدت پسندی ، جارحانہ پن ، غصہ، تشدد، لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں، معاشرے کا ہر فرد نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے، یہ نفسانفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے 1979 سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے افراد کی اکثریت کی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت معاشرے سے عنقا ہو چکی ہے۔ ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے، بے صبری ، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پر دھرا دکھائی دیتا ہے۔جنرل ضیا کا دور حکومت جس میں فرقہ واریت ، علاقائی اور لسانی تفریق میں اضافہ ہوا یہی وہ دور ہے جس نے ایک پر امن ، تحمل اور روادری پر مبنی معاشرے کو عدم برداشت ،نفرت اور تعصب کی آگ میں جھونک دیا جس کی تپش آج ہر پاکستانی محسوس ہی نہیں کر رہا بلکہ جل رہا ہے اس آگ سے نجات اسی صورت مل سکتی ہے ہر فرد اپنی اصلاح کی طرف توجہ دے اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے اور وہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لے تو یقینا ً دوسرے کو بھی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کرنا پڑے گا اور معاملہ وہیں رفع دفع ہو جائے گا، مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کا چلن بالکل بدل چکا ہے، بات کو ختم کرنے کی بجائے بڑھاوا دیا جاتا ہے۔عدم رواداری کے اس بڑھتے ہوئے خوفناک رجحان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات پیش آ رہے ہیں کہ جن کا ذکر کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ۔
جس طرح خرابی ایک روز میں پیدا نہیں ہوتی اسی طرح خرابی کو دور بھی ایک روز میں نہیں کیا جا سکتا تحمل، رواداری اور عدم برداشت کی وجوہات کو جانے بغیر ان کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی بیانیے میں تبدیلی لانے کے ساتھ سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں تبدیلی ناگزیر ہے جس میں نفرت ، تعصب اور تفاخر کا درس عام ملتا ہے۔ اسی طرح محراب و منبر سے منسلک افراد کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے جوش خطابت میں تبدیلی لاتے ہوئے افراد معاشرہ میں محبت ، یگانت اور رواداری کے فروغ پر مبنی بیانیے کو ترجیح دیں ، معاشرے میں جہالت اور تنگ نظری بہت زیادہ ہے، علم کا پھیلاوٴ نہیں ہے ، جہالت کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ پڑھتے اور کہتے ہیں وہی ٹھیک ہے یعنی ہم مختلف رائے کا احترم نہیں کرتے اور جاننے کی بجائے اسی کو ٹھیک سمجھتے ہیں جو ہمارے مطابق ٹھیک ہوتا ہے ، جہاں جہالت ہو گی وہاں عدم برداشت بڑھے گی، یہی کچھ ہمارئے معاشرے کے ساتھ ہو رہا ہے آج ہمیں اپنے بچوں کے لئے جدید سائنسی بنیادوں پر علم کو فروغ دینے کی ضرورت کے ساتھ بالغ افراد کی تربیت کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی ، تفریحی سرگرمیوں آرٹ اور کلچر کی ترویج کے لئے کام کرنا ہو گا اس سے عام آدمی کی سوچ میں وسعت پیدا ہوگی جس کا خاطر خواہ اثر معاشرے پر پڑے گا اور جارحیت ، غصہ اور تشدد میں کمی ہو گی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے کلچر کی ترویج ہو گی۔ خو ف کے ماحول کو خوشگواریت میں بدلنا ہو گا یہ اقدامات اب ناگزیر ہو چکے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.