
گرجا گھروں پر حملہ اور زندہ جلانے کا واقعہ قابل مذمت
جمعرات 19 مارچ 2015
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
انہی کا لموں میں اس بات کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ جب تک کسی مرض کی درست تشخیص نہ کی جائے اس کا اعلاج ممکن نہیں ہوتا ہم اپنے ملک کو لگی بیماری کی درست تشخص کرنے سے قاصر ہیں اسی لئے اس کا علاج بھی نہیں کر پار ہے اور بیماری ہے کہ جان لینے پر تلی بیٹھی ہے۔ دہشت گردی کوئی آسمانوں سے وارد نہیں ہوئی ہمارئے ہی کئے کا بھگتان ہے ہم نے ماضی میں جو پالیسیاں بنائیں آج ان کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ مذہبی انتہا پسندی نے معاشرے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور قومی افق پر کوئی اسی وژنری قیادت بھی نظر نہیں آتی جو اس دیمک کے خاتمے کے لیے جرات مندانہ اقدمات کر سکے ۔
یوحنا آباد کا واقعہ ہمارے لئے بہت سارے سبق لئے ہوئے ہے اور ہمارے کان اور آنکھیں کھولنے کے لئے بھی کافی ہے کہ کس طرح اس واقعے کے فوری بعد ہجوم نے مشکوک جانتے ہوئے دو افراد پر بے پناہ تشدد کیا اور بعد ازاں انہیں زندہ جلا کر خود ہی منصف اور مدعی کا کردار ادا کیا ۔کیا کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کی کوئی مثال ملتی ہے؟ جبکہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات اب معمول بنتے جارہے ہیں کیوں؟ ریاست اپنی رٹ کھو چکی ہے جبکہ ریاستی مشینری ناکارہ اور نااہل ہو چکی ہے، عدالتی طریقہ کار سے لوگ متنفر اور مایوس ہوچکے ہیں۔پاکستان میں مسیحی برادری پر توہین مذہب کے الزام میں حملوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں تاہم امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے بعد سے یہاں مسیحی برادری کے گرجا گھروں کو شدت پسندی کے واقعات میں نشانہ بنانے کا رجحان بھی شروع ہوا ہے 2001 سے لیکر اب تک مسیحی برادری پر ہونے والے حملے ،بم دھماکے، املاک کو جلایا جانا یا ان کے ساتھ زندہ جلائے جانے کے درجنوں واقعات ہو چکے ہیں مگر رد عمل میں کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا جس طرح لاہور میں یوحنا آباد واقعے کے بعد دیکھنے کو ملا جس نے پاکستان کو دنیا بھر میں بد نام کیا۔
ملک ہوں یا معاشرے قانون کی حکمرانی کے بغیر اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں اور حکومت کی اس کمزوری کو دیکھتے ہوئے گروہ جتھے مظبوط ہو کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ سانحہ لاہور جس میں مشتعل ہجوم نے دو بے گناہ افراد پر شہریوں اور پولیس کے سامنے تشدد کیا اور جلا کر مار دیا اپنی سفاکی میں دہشت گردی کی واردات سے کم واقع نہیں ہے اس لئے جہاں اس واقعے میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جانا ضروری ہے تو دوسری جانب بم دھماکوں میں مارے جانے والے افراد کے ساتھ بھی انصاف کیا جانا بہت ضروری ہے ۔جبکہ اس سے قبل بھی ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے واقعات کے مجرموں کو قرار واقع سزا دے کر ریاست کی عملدار کو یقینی بنائے بغیر ہم مہذب معاشرے کے قالب میں نہیں ڈھل پائیں گے اور حکومت کو قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے ریاستی مشنیری کی انسانی بنیادوں پر تربیت کے ساتھ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے پر بھی توجہ دینی ہو گی اور اسکے ساتھ ہی عدالتی نظام کی مکمل اوور ہالنگ کا بھی وقت تقاضا کر رہا ہے۔ جبکہ انتہا پسندانہ رویوں میں اضافہ کرنے والے اسباب کے خاتمے کے لئے ملکی نصاب اور نفرت انگیز تقاریر اور لٹریچر کا خاتمہ بہت ضروری ہے، تحمل اور رواداری پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے جہاں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے وہیں معاشرے کے اندر بھی تبدیلی کے لئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب مسیحی برادری کے ساتھ ہونے والے ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستان کی اکثریت ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتی پائی جاتی ہے بلکہ ان کے ساتھ شانے سے شانہ ملائے احتجاج بھی کرتی رہی ہے سانحہ یوحناآ باد کے بعد بھی اس واقعے کی مذمت بھی کی گئی اور مجرموں کو قرار واقع سزا دینے کی بات بھی سامنے آئی لیکن اس کے ساتھ ہی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں دو افراد کے زندہ جلائے جانے کے واقعے نے مسیحی برادری کے کیس کو کمزور کیا ہے اور عوام کی ہمدردیوں کو بھی قد غن لگائی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسیحی براداری کے تمام بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھ کر اس واقعے کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ یہ کیوں ہوا اور کرنے والے کون ہیں کیا ان کی صفوں میں سماج دشمن عناصر تو نہیں گھس آئے کیونکہ مظلوم کے ساتھ ساری دنیا ہوتی ہے جبکہ ظالم کا ہمائتی کوئی نہیں ہوتا ۔ علاوہ ازیں حکومت کو رٹ آف سٹیٹ کو قائم کرتے ہوئے ہر مظلوم کو انصاف میا کرنا چاہے اور اس طرح کے واقعات آئندہ نہ ہوں ان کی روک تھام کے لئے مربوط کوششیں کرنی چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.