
یومِ تکبیر ۔۔۔مجتبیٰ رفیق اور گھانس کھاتی عوام
اتوار 29 مئی 2016

عمران احمد راجپوت
طاقت کے نشے میں دھت ہر بڑی ریاست اپنے سے کمزور اور چھوٹی ریاست کو اپنی کالونی بنانے پر بضد ہے جس کی وجہ سے چھوٹے ممالک بھی اپنی بقا اور سلامتی کے لیے اپنی ساری توانائی اپنے دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں جس کے باعث ان غریب ممالک میں غربت مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل میں مستقل اضافہ ہورہا ہے ۔
(جاری ہے)
پاکستان کا شمار بھی چند ایسے غریب ممالک میں ہوتا ہے جسے اپنی سلامتی پر لاحق اُمڈتے خطرات کے پیش نظر مجبوراً اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا جس کے بعد سرحدیں مضبوط ہوتی گئیں اور قوم جیسے سوکھے کے مرض میں مبتلا ہوکر کمزور سے کمزورتر ہوتی رہی۔
51 سال پہلے دشمن کو للکارنے والا وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا یہ بیان ہم گھانس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے قوم کے وجود پر ایک ایسی چھاپ چھوڑ گیا جس سے 51 برس بعد بھی جان نہ چھڑائی جاسکی مجتبیٰ رفیق سمیت ملک کے کروڑوں ہونہاروں کے مستقبل طاقت کے خونی کھیل میں رنگ دئیے گئے۔
کہنے کوآج کے دن ہمیں دنیا کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے ایٹمی لحاف سے ڈھانپ دیا گیا تھا صدر وزیراعظم سمیت قوم کا بچہ بچہ خوشی سے جھوم رہا تھا بیرون ملک سے پوسٹ گریجویشن کرکے آنے والے مجتبیٰ رفیق کا خوشی کے مارے ٹھکانانہ تھا ملک پر فخر کرتایہ نوجوان جھومتا جارہا تھاآج کے دن اِس سمیت ملک کا ہر نوجوان خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے اپنا مستقبل روشن تصور کررہا تھا ۔
آج کے اِس اہم دن کو قومی دن قرار دیدیا گیا بڑا دن تھا بڑا نام تجویز کیا جانا تھا وزیراعظم صاحب نے قوم سے رائے طلب کی ملک کے ہونہار مجتبیٰ رفیق نے اِس اہم دن کو یوم تکبیر کے نام سے پکارے جانے کی تجویز پیش کی جسے وزیراعظم نے سراہا اور قوم کے اس ہونہار کو قومی ہیرو قرار دے کر اسے اعزازی سرٹیفکیٹ سے نوازنے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ نوکری اورانعام و اکرام سے نوازے جانے کا وعدہ بھی کیا لیکن صرف وعدہ۔جس کے بعد قوم کے نوجوانوں کی کتاب بند کردی گئی اور کہانی ختم کردی گئی وہ قومی ہیرو مجتبیٰ رفیق تاحال نوکری سے محروم ہے آج نہایت کسم پُرسی کی زندگی گزار رہا ہے بیروزگاری کے سبب گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے حکمران جماعت کے دفتروں میں گورنمنٹ نوکری کے حصول کے لیے اپنی جوتیاں رگڑنے پر مجبور ہے آج بھی پنجاب کی سڑکیں اسکے پاؤں کے چھالوں سے رستا خون اپنے اندر جذب کررہی ہیں مجھ سمیت بیشتر کالم نگاروں نے اس کے لیے آوازِ حق بلند کی لیکن ہمارے چنگھاڑتے قلموں سے نکلنے والی گونج دونوں تینوں شریفوں کے آگے بے سود ثابت ہوئیں۔
ملک کا مضبوط ہونا انتہائی اہم ہے لیکن قوموں کا زندہ رہنا اُس سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے لہذا اِس طرف توجہ دینا بھی ریاست کی اولین ترجیح ہوناچاہیے۔
ایٹمی طاقت بنے 19 سال بیت چکے ہیں لیکن قوم آج بھی گھانس کھانے پر مجبور ہے کہنے کو ہماری سرحدیں مضبوط ہوگئیں لیکن ہم اندر سے اتنے ہی کمزور اور لاغر ہوتے جارہے ہیں ہم بحیثیت قوم اندر ہی اندر گھلتے جارہے ہیں کیونکہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ہم پر ڈرون سے بم برسائے جارہے ہیں جو ہمارے ایٹمی حصاروں کو توڑکر آتے ہیں اور ہمیں منہ چڑا کر چلے جاتے ہیں اور ہم بے بس ولاچار دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمران احمد راجپوت کے کالمز
-
عہدِ راحیل شریف اور کراچی کے عوام۔۔۔!
جمعہ 9 دسمبر 2016
-
شادی کس سے کریں...!
بدھ 21 ستمبر 2016
-
آؤ ایدھی بنیں۔۔۔!
پیر 11 جولائی 2016
-
جوابِ شکوہ۔۔۔!
جمعرات 16 جون 2016
-
اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز قرآن وسنت کی روشنی میں۔۔۔!
اتوار 5 جون 2016
-
یومِ تکبیر ۔۔۔مجتبیٰ رفیق اور گھانس کھاتی عوام
اتوار 29 مئی 2016
-
موجودہ دور میں ماں کا کردار اور ہمارے معاشرتی رویے
منگل 17 مئی 2016
-
آفتاب احمد کی ہلاکت ۔۔۔ذمہ دار کون
ہفتہ 7 مئی 2016
عمران احمد راجپوت کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.