
جوابِ شکوہ۔۔۔!
جمعرات 16 جون 2016

عمران احمد راجپوت
(جاری ہے)
یہی وجہ تھی کہ ہم نے قرآن کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث اور علماء دین کے اقوال کے حوالے بھی پیش کئے تاکہ یہ کالم دینی لحاظ سے غیر جانبدارہوکر پیش کیا جائے ۔
لیکن یہاں ایک بات بھول گئے کہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسی سوچ بھی# پروان چڑھ رہی ہے جوسیکولر/ لبرل ازم کے نام پر مغربی ذہنیت کا پرچار چاہتی ہے جو معاشرے میں موجود نوجوان نسل میں تیزی سے پھیلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔حالانکہ خود مغرب کے نوجوانوں میں اِس وقت سب سے زیادہ اور تیزی سے پھیلنے والا ہمارا دین اسلام ہے جبکہ ہمارے یہاں اُسی تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مغربی زہن ہے۔جن کا کہنا ہے کہ برسوں سے مرد عورت پر حکومت کرتا آیا ہے جس کی بدولت عورت ہمیشہ ظلم و ذیادتی کا شکارہوتی رہی ہے جنھیں نہ مذہب تحفظ فراہم کرتا ہے اور نہ ریاست بلکہ دونوں مل کرمردوں کو عورت کے استحصال کا موقع فراہم کرتے آئے ہیں ۔ قارئین یہ وہ نعرہ مستانہ ہے جسے سن کر ہمارے معاشرے کی نئی نسل بالخصوص خواتین نہ صرف معاشرتی بغاوت پر اُترآئی ہیں بلکہ مذہب سے بے زار اور منحرف ہوتی نظر آتی ہیں ۔اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کا جو مقام ہے اور جس طرح سے اُس کااستحصال ہوتا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کبھی مذہب کی آڑ لیکر تو کبھی گھسے پٹے پرانے رسموں رواج لیکر مرد نے ہمیشہ عورت کے ارمانوں کا خون ہی کیا ہے کبھی باپ بن کر تو کبھی بھائی بن کر تو کبھی شوہر بن کر مردنے ہمیشہ عورت کی تذلیل کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے رواں رکھے جانے والے سلوک نے عورت کے دل و دماغ پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے جس کی بدولت عورت کے دل میں مرد کے لئے نفرتوں نے جنم لینا شروع کردیااوراب صورتحال یہ ہے کہ آج عورت مرد زاد سے اس قدر منحرف ہوچکی ہے کہ اپنے اندر انتقام کی آگ بھڑکائے بیٹھی ہے۔ آج کی عورت اب برابری کے حقوق نہیں بلکہ حقوقِ نسواں کے نام پر اتنے حقوق چاہتی ہے کہ وہ مرد زادسے کھل کر صدیوں پر محیط اپنے اوپر ہونے والے ایک ایک ظلم کا حساب لے سکے جس کی پشت پناہی مغربی سوچ کے حامل لبرل خیالات کے لوگ کرتے دکھائی دیتے ہیں جوکہ ایک خاص قسم کی لادینی سوچ کے تحت اس پر کارفرماہیں مغرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مسلم معاشروں میں تہذیب و تمدن اور اسلامی شعار کوجڑ سے اکھاڑ پھینکے جس کے لئے ضروری تھا کہ معاشرے میں موجود اُس مظلوم طبقے کی حمایت حاصل کی جائے جو صدیوں سے مرد کے ہاتھوں ٹشو پیپر بنتی رہی ہے۔ لہذا انھیں استعمال کرنے کے لئے مادر پدر آزادی کا نعرہ لگاکر انسانیت کے عظیم رشتے میں پھوٹ ڈالنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے ۔
مغرب کے اِس دوہرے معیارکااندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اِس وقت مغرب میں اسلامی شعار کو پھیلانے اور اُسکی آئیڈیالوجی کو اپنانے کی کھلی آزادی حاصل ہے جہاں اسلام کی آئیڈیالوجی کو اپنا کر دنیا کو مسخر کیاجارہا ہے۔ جبکہ ہمارے مشرقی معاشرے میں چند مذہبی لبادوں اور ریاستی ستونوں میں چھپے غداروں سے مرد عورت کے نام پر انسانیت کی تفریق کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے کبھی عورت کو اختیارات دینے کی بات کرکے مرد کو دھمکایا جاتاہے تو کبھی مرد کو اختیارات دیکر عورت کو محکوم بناکر اُس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ سادہ لوح انسان بجائے اِسکے دونوں باہم مل کر حقوقِ انسانی کی بات کریں آپس میں اُلجھ کر زمینی خداؤں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
جبکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت کیا مرد کو پوری طرح اختیارات حاصل نہیں ہیں جہاں اختیارات کی بندربانٹ مغرب کے زرخریدضمیرفروشوں کے ہاتھوں میں ہے جنھیں حقوقِ نسواں کا پاس ہے نہ حقوقِ مرداں کا کچھ خیال جب تک معاشرہ ایسے لوگوں کے زیرتسلط رہیگا یہ ہمیں اسی طرح لڑاتے رہیں گے۔میرا تنقید نگاروں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ آپ نے میری سوچ میرے خیالات کو جس طرح اپنی ذہنیت کے ترازو میں تولہ ہے مجھے اِس کا زرا برابر غم نہیں کیونکہ آپ کی سوچ کے معیار پر میرا کچھ اختیار نہیں لیکن میں فکر مند ہوں آپ کی اِس سوچ پر کہ کس طرح وہ معاشرے میں تباہی کا باعث بن سکتی ہے کس طرح نسلوں میں نفرتوں کے بیج بو سکتی ہے ۔ ہم عورت مرد کی تفریق کے حامی نہیں ہیں ہمارے نزدیک تو دونوں پہلے انسان ہیں بالکل یکساں برابری کی سطح پر جہاں تک معاشرے میں عورتوں پر ہونے والی ظلم و زیادتی اور ناانصافی کی بات ہے تو ہم نے معاشرے میں ایسے مردوں کو بھی دیکھا ہے جو عورتوں کی جہالت اور تنگ نظری کا شکار ہوتے رہے ہیں ایسی عورتوں کو بھی دیکھا ہے جنھوں نے معاشرے کے معاشرے تباہ کردئیے۔ لیکن اِسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم مر د اور عورت کے درمیان تفریق کو ہوا دیں اور اصل حقائق سے آنکھیں موند کر ایک دوسرے کو کوستے رہیں یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں جتے رہیں۔یقین جانیئے ہم نے کبھی عورت کے بنیادی حقوق کی مخالفت نہیں کی بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ صرف بنیادی حقوق ہی کیوں تمام انسانی حقوق ملنے چاہئیں لیکن تمام انسانوں کو جس میں مرد عورت دونوں شامل ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمران احمد راجپوت کے کالمز
-
عہدِ راحیل شریف اور کراچی کے عوام۔۔۔!
جمعہ 9 دسمبر 2016
-
شادی کس سے کریں...!
بدھ 21 ستمبر 2016
-
آؤ ایدھی بنیں۔۔۔!
پیر 11 جولائی 2016
-
جوابِ شکوہ۔۔۔!
جمعرات 16 جون 2016
-
اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز قرآن وسنت کی روشنی میں۔۔۔!
اتوار 5 جون 2016
-
یومِ تکبیر ۔۔۔مجتبیٰ رفیق اور گھانس کھاتی عوام
اتوار 29 مئی 2016
-
موجودہ دور میں ماں کا کردار اور ہمارے معاشرتی رویے
منگل 17 مئی 2016
-
آفتاب احمد کی ہلاکت ۔۔۔ذمہ دار کون
ہفتہ 7 مئی 2016
عمران احمد راجپوت کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.