میدانِ تعلیم اور سازشیں اشرافیہ کی

پیر 29 دسمبر 2014

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالک ِ کائنات، خدائے برحق و لایقِ عبادت، اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے، جو ازل سے ابد تک میرے جدِّامجد اور میرا کھلادُشمن ٹھہرا۔
اک جملہ مسلسل میرے کانوں کو چیرتا چلا جا رہا ہے اور سننے کو ملتا ہے کہ ہمارے بد ترین حالات کے ذمہ دار یہود و نصرانی ، ہندو اور کافر ہیں، یہی بد بخت آئے دن ہمارے گرد سازشوں کے جال بنتے چلے جا رہے ہیں اور ہمیں دن بہ دن تباہی و بربادی اور غربت و افلاس کی جانب دھکیل رہے ہیں، لیکن ان باتوں کے بر عکس اگر حقیقت کی جانب نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہود و نصرانی، ہندو اور کافروں کی سازشیں پاکستان کے رعایا کے خلاف نہیں بلکہ اقوام المسلمین کے خلاف ہو رہی ہیں اور ان سازشوں کے گھیراؤ کے باوجود بہتوں مسلم ممالک ترقی و راحت کی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)


کیا ان ممالک کو سازشوں سے فرق نہیں پڑتا یا پھر انہوں نے سازشوں کے سدِ باب کے لیے بہترین حکمتِ عملی اپنائی ہوئی ہے؟؟؟
میں سوچوں میں گم تحقیق کی غرض سے چھان بین میں مشغول رہا کہ آخر کار وہ کونسی وجوہات ہیں جنہوں نے میرے ملک کے معصوم رعایا کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے تب مجھے معلوم ہوا کہ اس قوم کی خستہ حالی کی اصل وجہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ ہمارے ہی ملک کے نام نہاد اشرافیہ ہیں جو ہمارے خلاف سازشوں کے جال بن رے ہیں اور اپنے مکروہ مفادات کی خاطر ہمیں زندگی کے سب سے اہم” شعبہ تعلیم “میں عالمی سطح پر بہت بری طرح متاثر کر چکے ہیں کیونکہ گزشتہ 67 سالوں سے اقوامِ پاکستان کو غلامی کی غرض سے نسل در نسل جاہل رکھنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔


مجھے نہائت دکھ اور تکلیف کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج تک ہمارے ملک میں سرکاری و غیر سرکاری مدارس، اسکول و کالج یا کوئی ایک بھی یونیورسٹی قائم نہیں جو بین الاقوامی میدانِ تعلیم میں نمائیاں حیثیت کی حامل ہو البتہ چند ایک غیر سرکاری ادارے قدرے بہتر تو ہیں لیکن غریب عوام وہاں حصولِ تعلیم کی غرض سے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔
ان بدترین حالات میں پاکستان کی شرح خواندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں تسلی دینے کی غرض سے بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے 56% رعایا زیورِ تعلیم سے آراستہ ہیں حالانکہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو صرف اور صرف اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ہم انہیں سازشوں کی وجہ سے بد حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔


اگر حقیقت پر مبنی بات کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ بیشتر علاقوں میں اسکول تو موجود ہیں لیکن کہیں تو چوہدری صاحب کے ڈھور ڈنگر بندھے ہوئے ہیں تو کہیں ظالم وڈیروں کے حکم کے مطابق غریبوں کی اولاد تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ، اسی وجہ سے آج ہمارے بچے ، ہمارا مستقبل سڑکوں پر بھیک مانگتے، اینٹوں کے بھٹوں میں کام کرتے، کمسنی میں ہی فیکٹریوں( وغیرہ ) اور اپنے غریب ماں باپ کے ساتھ زمینوں میں ہل چلاتے نظر آ رہے ہیں، یہی وہ گھناؤنی سازشیں ہیں جو ہمیں بد سے بدترین حالات کی جانب دھکیل رہی ہیں، اور یہیں واضع کرتا چلوں کہ حصولِ علم کا مقصد رزق کمانا نہیں ہوتا، اگر علم کا مقصد صرف رزق کمانا ہی ہوتا تو کرئہ ارض پر موجود تمام چرند و پرند بھوکے مر جاتے، مزید یہ کہ رزق تو آوارہ جانوروں کو بھی مل جاتا ہے حالانکہ میں نے اپنی زندگی میں بارہویں گریڈ کا کچھوا کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی بائیسویں گریڈ کا ہاتھی دیکھا ہے لیکن سب پل بڑھ رہے ہیں۔


حصولِ تعلیم کا اصل مقصد تو عقل و شعور پا لینا ہے، تعلیم یافتہ بندے کو تو زندگی جینے کا طریقہ و سلیقہ آ جاتا ہے، پڑھے لکھے انسان محض جذبات کی رو میں بہہ کر حیوانیت پر مبنی فیصلے نہیں کرتے بلکہ مسائل کے مفید حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ انسان تو حکمرانوں کا چناؤ بھی عقل و شعور سے کرتا ہے اور انتخاب کے وقت محض اپنے ملک و قوم کی بہتری کو مدِ نظر رکھتا ہے اسی لیئے تو پڑھے لکھے افراد اپنی بات ایوانوں تک پہنچانے اور اپنے حق پانے کا حقیقی راستہ جانتے ہیں۔


اگر اسلامی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ خالقِ کائنات نے بھی انبیاء کرام  کے ذریعے نوعِ بشر کو تعلیم و تربیت کے جواہر سے آراستہ کرنے کی جانب توجہ دلائی ہے اسی لیئے تو قرآن پاک کے تقریبًا78 ہزار الفاظ میں سے جس پہلے لفظ کا انتخاب کیا گیا وہ لفظ ” اقراہ “ ہے یعنی ” پڑھ “ اور کلام اللہ کی تقریبًا 6 ہزار آیتوں میں سے جو پہلی 5 آیتیں نازل فرمائیں وہ بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت بیان کرتی ہیں۔

لہذا اگر ہم اپنی اولاد کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کا روشن مستقبل دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں آگے بڑھ کر مثبت فیصلے کرنے ہوں گے اور اپنے معصوم بچوں کو ہر حال اور ہر قیمت پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہو گا بیشک ایسے وقت میں ہمیں بے تحاشہ مشکلات کا سامنہ بھی کرنا پڑے گا لیکن یہ عارضی مشکلات اس وقت آسانیوں میں بدل جائیں گی جب ہم اپنی سوچ اور نیت کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطرپختہ بنا لیں گے جیسا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا : اعمالوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :