رحمت اللعالمین اورعصرِ حاضر

ہفتہ 3 جنوری 2015

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالک ِ کائنات، خدائے برحق و لایقِ عبادت، اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے، جو ازل سے ابد تک میرے جدِّامجد اور میرا کھلادُشمن ٹھہرا۔
ماہِ ربیع الاول کی شروعات ہو چکی اور نگری نگری بسنے والے امتِ محمدیہ (مسلمانوں) کے جذبات میں خوشیوں کی لہر تہوارِ عیدین سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔اور یقیناہونی بھی چاہیے کیونکہ یہ ماہِ مقدس اہلِ عالمین (تمام جہانوں کے رہنے والوں) کے رہنماء، صادق و امین، باعثِ رحمت و راحت، سرورِ انبیاء، حبیبِ کبریا حضرت محمد مصطفی ﷺ ( آپ پہ لاکھوں، کروڑوں درود و سلام) کی ولادتِ با سعادت کا عظیم ترین مہینہ ہے۔


اگر رنگ و نسل ، فرقہ واریت ، لسانی و نظریاتی اور مذہبی اختلافات کو بھلا کر دلوں کو کینہ و بغض سے پاک رکھ کے خاتم الانبیاء کی صفاتِ با برکات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ کہنا ہر صورت درست ہو گا کہ اس ماہ ِ عظیم کی خوشیوں کا اظہار تو کرئہ ارض پر بسنے والے ہر ذی روح کو جوش و ولولہ کے ساتھ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ رب العزت کے نہائت مقدس و برگزیدہ نبی، صاحبِ معجزات، روح اللہ حضرت عیسیٰ  جب حکمتِ خدا وندی کے تحت بلا لیئے گئے تو اولادِ آدم پھر سے اختلافات و فتنہ گری میں مبتلا ہو گئے تو آہستہ آہستہ ظلم و ستم کے بادل چھانے لگے۔

(جاری ہے)

پاک و ناپاک، حلال و حرام ، جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہو گئی۔ طاقتور کمزوروں کو لوٹنا تو ایک طرف ظلم کی اس حد تک آن پہنچے کہ ان کی بیویوں اور بچوں کو بھی غلام بنانے لگے غرضیکہ جاہلیت اس انتہا کو پہنچ چکی کہ کسی نے اپنی بہن سے شادی کر رکھی تو کسی نے اپنی ہی بیٹی کے ساتھ۔
لوگ بت پرستی، سورج، چاند، ستاروں، گائے، سانپ وغیرہ کی دوبارہ سے پوجا کرنے لگے اور انہی وجوہات کی بناء پر معاشرے میں تباہی و بربادی کے اندھیرے چھا گئے۔


آپ ﷺ کی ولادتِ با سعادت سے پہلے اک مدت تک قریش معاشی بد حالی کا شکار تھے لیکن جس مبارک سال آپ ﷺ کا ظہور ہوا تو نہ صرف قریش خوشحال ہو گئے بلکہ ویران و بنجر زمینیں سر سبزو شاداب ہو گئیں اور فارس کا آتشکدہ جو ہزار سال سے روشن تھا معجزاتی طور پر بجھ گیا۔ منصبِ نبوت پر فائز ہونے سے پیشتر ہی لوگ آپ ﷺ کو صادق و امین گردانتے تھے لیکن جب مالکِ کائنات کے حکم سے آپ ﷺ نے تبلیغِ اسلام کی دعوت عام کا آغاز کیا اور لوگوں کو بدکاری و گمراہی کے راستے پر چلنے والوں کے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے صراطِ مستقیم کو اپنانے کی ہدایت کی تو ظالمین نے آپ ﷺ پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی، جبر بھی ایسا دردناک کہ جسے دیکھتے ہوئے بادشاہِ برحق نے فرشتہ وحی کو حکم صادر کیا کہ محمد کو میرا پیغام پہنچا دو اگر وہ اظہار کریں تو میں ان پہاڑوں کو ظالمین و مشرکین پر گرا دوں اور کچھ شک نہیں کہ یہ بدبخت تباہ و برباد ہو جائیں گے لیکن آپ ﷺ نے رحمان و سخی سے دعا کی
پروردگارہ!!!
یہ راہِ حق بھلا بیٹھے ہیں اور ابلیس کے شکنجہ میں پھنس چکے ہیں ان کو سیدھا راستہ دکھا، ان کے دل نرم کر دے اور ان کو ہدایت نصیب فرما۔

آمین
( آپ نے جبر نہیں چاہا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : اور ہم نے تم کو تمام جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا۔ القرآن21:107 ) خالقِ کائنات نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور جانب ِ مدینہ ہجرت کرنے کی نوید سنا دی۔ سر زمین مدینہ پر قدم رکھنے کی دیر تھی کہ لوگ آپ کے اخلاقیات و تعلیمات سے متاثر ہو کر گروہ در گروہ آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور یوں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔

آپ کی رہنمائی میں پہلی آزاد اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی، جہاں آپ ﷺ نے لوگوں کو توحید، رسالت، مساوات، بھائی چارے، محبت و یگانگت، کا درس دیاوہیں کفر و باطل ، ظلم و ستم، ناجائز و حرام غرضیکہ ہر راہِ گناہ سے بچنے کی نہ صرف تلقین کرتے تھے بلکہ عملی نمونہ بھی پیش کیا۔
تقریباً 20 سالوں پہ محیط عرصہ میں نہ صرف مکہ معظمہ بغیر خون ریزی کے فتح کیا گیا بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو کھول کھول کر بیان کر دیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ سے آج تک اقوامِ عالم کے بڑے بڑے مفکر ، محقق، تاریخ دان، جغرافیہ دان، غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ سے منسلک افراد آج بھی آپ ﷺ کی بہترین تعلیمات کا نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ تحقیق کی غرض سے آپ کی تعلیمات سے بیحد فائدہ بھی حاصل کر رہے ہیں، یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا کے بیشتر قوانین آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر آج بھی قائم ہیں جیسا کہ 1892ء میں جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  علمِ قانون حاصل کرنے کی غرض سے لندن تشریف لے گئے تو لنکز ان ( Lincoln's Inn) یونیورسٹی کا انتخاب کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں پر حضرت محمد ﷺ کا نامِ مبارک دنیا کے بہترین قانون بنانے والوں میں سب سے نمایاں لکھا ہوا تھا۔

1935ء میں امریکن سپریم کورٹ (American Supreme Court) نے بھی آپ کی ہستی مبارک کا دنیا کے سب سے بہترین قانون بنانے والوں میں نمائیاں طور پر اعتراف کر لیا۔ 2008 ء کے بعد جب دنیا بھرکا معاشی نظام بری طرح متاثر ہوا تو Roger Scruton ( British Scholar) نے گہرے مطالعہ اور غور و فکر کے بعد جو مضمون تحریر کیا تو اس کا عنوان کچھ یوں رکھا۔
BQO: Muhammad (PBUH) was right about debt.
مجھے شکوہ تو اقوامِ عالم سے ہے ا لبتہ میں خصوصی طور پر اپنے بھائیوں کو مخاطب کرنا چاہتا ہوں کیونکہ قرآن و حدیث کے احکامات ہم پر فرض ہیں لیکن ہم اپنے فرائض سے غفلت برتتے نظر آ رہے ہیں حالانکہ دوسرے مذاہب تک حق کا پیغام پہنچانا ہماری اولین ذمہ داری ہے لیکن ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس تک نہیں ہے۔

ہم مسلمان تو ایک بار پھر فتنہ گری اور فرقہ واریت جیسی غلیظ دلدل میں بہت بری طرح پھنس چکے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ مسلمین کو تو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا گیا تھا لیکن آج ہم رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات نہ صرف بھلا بیٹھے ہیں بلکہ شیطانی چیلوں (یہود) کی سازشوں کا شکار ہوتے ہوئے محض چند روپوں اور دنیاوی آسائشوں کی خاطر اسلام کے نام پر اپنے ہی بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔


آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا ائے اقوامِ عالم (خواہ کسی بھی گروہ سے تعلق ہو) اگر کسی پر ظلم کرنا مقصود ہو تو اتنا ہی جبر کرنا جتنا برداشت کر سکو کیونکہ شائید تمہیں معلوم نہیں کہ اگر آج اس کی باری ہے تو کل آپ بھی اسی طرح مصیبت میں گھر جاؤ گے کیونکہ ” دنیا مکافاتِ عمل “ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :