کمیشن نہیں جرائم کا سدِباب

جمعہ 16 جنوری 2015

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالک ِ کائنات، خدائے برحق و لایقِ عبادت، اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے، جو ازل سے ابد تک میرے جدِّامجد اور میرا کھلادُشمن ٹھہرا۔
بظاہر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مالک الموت نے سر زمین پاکستان پے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، چند دنوں میں سینکڑوں پاکستانی موت کی آغوش میں سو گئے، کہیں بمب دھماکہ تو کہیں ٹارگٹ کلنگ، کہیں ٹریفک حادثات تو کہیں جبرو تشدد و زناء، کہیں خوراک کی کمی تو کہیں ادویات کی عدم دستیابی نتیجہ صرف موت اور بس موت۔


بدقسمتی سے جب حادثات ہو گزریں تو ہمارے مختلف ادارے بھی انکوائریوں کی غرض سے زیادہ تو نہیں لیکن چار دن سر گرم نظر آتے ہیں، پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور نافذ العمل قانون کو صد فی صد یقینی بنانے کی یقین دہانی بھی کروائی جاتی ہے اور سب سے اہم لیکن اصلیت میں فضول کام کمیشن کا قیام بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

(جاری ہے)


ماضی کے صفحات پلٹیں تو پاکستان کا اک درد ناک واقعہ ملتا ہے جس کی بدولت یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد آزادی حاصل کرتو لی لیکن کچھ ہی عرصہ میں دوبارہ غلامی کی زنجیریں زیبِ تن کر لیں جب ہمارے مخلص ترین رہنماء قائدِ اعظم محمد علی جناح  کو ایامِ آخر میں ایک ناکارہ ترین ایمبولینس میں ہسپتال لیجایا گیا لیکن راستے میں ایمبولینس خراب ہونے اور متبادل ایمبولینس بروقت میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پیارے قائد کراچی کی سڑکوں پہ ہی مالکِ حقیقی سے جا ملے۔

اس سانحہ عظیم کے رو نما ہوتے ہی قائد کے بچوں (پاکستان کے رعایا) میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور بر سرِ اقتدار قوتوں نے امن و امان کے نام پر کیا خوب ڈھونگ رچایا اور کمیشن تشکیل تو دے دیا لیکن بد قسمتی سے آج تک ہمارے پیارے قائد کی زندگی سے کھیلنے والے گروہ یا انسان کا نام منظرِ عام پر نہیں لایا جاسکا اور نہ ہی کمیشن رپورٹ کی کچھ خبر آئی۔


پھر ہوا کچھ یوں کہ ملکِ پاکستان کو غموں سے چور کر دینے والا ایک المناک المیہ پیش آیا جب میرے پیارے پاکستان کو 16 دسمبر 1971ء میں 2 رہنماؤں کے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے دولخت کر دیا گیااس سانحہ کی سازش کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کی غرض سے کمیشن تشکیل تو دیا گیا لیکن حسبِ روائت نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر رہے۔
ایک اور ناکام کمیشن پر نظر ڈالتے ہیں۔

17 اگست 1988ء کے دن جنرل محمد ضیاء الحق (سابق صدرِپاکستان و چیف آف آرمی اسٹاف) آئی ایس آئی اور سی آئی ائے کے دیگر افسران کے ہمراہ بہاول پور کے قریب ایک مشکوک فضائی حادثے میں شہید تو ہو گئے لیکن اپنے پیچھے لاتعداد ادھورے سولات چھوڑ گئے جنہیں آج تک سلجھایا نہ گیا۔
اب ماضی قریب کی بات کریں تو پاکستان کے رعایا کی ہر دلعزیز رہنماء محترمہ بینظیر بھٹو نے تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی کے بعد18 اکتوبر 2007ء کو جب اپنے ملک کی سر زمین پر قدم رکھا توپاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں کی جانب سے آپ کا فقید المثال استقبال کیا گیا اور اپنی کامیاب ترین الیکشن مہم کے آخری جلسہ لیاقت باغ راولپنڈی میں 27 دسمبر 2007 ء کے دن جیالوں سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں سوار ہو کر اسلام آبادجانے کی غرض سے آگے بڑھنے لگیں کہ لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکنان کے نعروں کا جواب دینے کی غرض سے گاڑی کی چھت سے جوں ہی سر باہر نکال کر ہاتھوں کو فضاؤں میں لہرا رہی تھیں کہ چند قدم دور گھات لگائے نا معلوم شخص نے فائرنگ کر دی اور خود کو بھی دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا، ڈرائیور نے ہر ممکنہ کوشش کی اور جلد از جلد گاڑی جنرل ہسپتال راولپنڈی تو پہنچا دی لیکن محترمہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اور خون کے زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔

اس عظیم لیڈر کی شہادت کے بارے میں چہ مگوئیاں تو آج بھی جوں کی توں ہیں لیکن اقوامِ متحدہ اور اسکارٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقاتی کمیٹی کے تشکیل دیے جانے کے باوجود آج تک کمیشن رپورٹ سامنے نہ آ سکی۔
اگر بات کریں چند ماہ پہلے کی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ پشاور، سانحہ مٹھی چھاچھرو، سانحہ سرگودھا ہسپتال یا دیگر سانحات رونما ہونے اور کمیشن تشکیل دیے جانے کے باوجود ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا۔


جبکہ دوسری جانب نگاہ دوڑائیں تو 1980 ء سے 1990ء کی دہائی میں کولمبیا کی تاریخ میں مختصر سیاسی تجربہ رکھنے والا پیبلو اسکابر (Pablo Escaber) نامی شخص بین الاقوامی سطح پر منشیات کے کاروبار میں بے تاج بادشاہ کے نام سے جانا جاتا تھا اور بلخصوص کوکین اسمگلر کے طور پر منظرعام پر آیاجس کے بارے میں تاریخ کے پنے بتاتے ہیں کہ منشیات فروشی کے کاروبار میں اس کا ثانی کوئی نہ تھا جس کی سالانہ آمدنی لگ بھگ 30 بلین ڈالر (30 Billion Doller) تھی۔


اس دوران بہتوں ججوں (Judges) ، حکومتی عہدیداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پیبلو اسکابر (Pablo Escaber) کے گروہ کے خلاف کاروائی اور منشیات کی روک تھام کرنے کے سلسلے میں بمب دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر صورتوں میں اپنے عزیزواقارب سمیت موت کا منہ دیکھنا پڑا لیکن انہوں نے کسی بھی قسم کا کمیشن تشکیل دینے کی بجائے تباہی و بربادی سے گزرنے کے باوجود ہمت نہ ہارنے کا عظم اٹھا رکھا تھا اور آخرکار 2 دسمبر 1993ء کے دن کولمبیا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے برگیڈئیر ہگو مارٹنز (Brigadier Hugo Martinez) کی زیرِ قیادت پیبلو اسکابر (Pablo Escaber) کو چند قریبی ساتھیوں سمیت میڈیلین (Medellion) کے درمیانے طبقہ کے رہائشی علاقے میں آن گھیرا اور برائی کے اس باب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے بند کر دیا۔


یہاں مثال دینے کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ پاکستان کے رعایا کو کمیشن کے نام پر الجھانے کی بجائے اموات اور دیگر گناہوں کے سدِباب کے لیئے تمام اداروں اور عوامی نمائندوں کو مل بیٹھ کر پختہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے اور گناہوں کے ساتھ ساتھ گناہگاروں کا ہر قیمت خاتمہ بہت ضروری ہے تاکہ ملک میں امن و امان کو مکمل طور پر یقینی بنایا جا سکے وگرنہ پاکستان کے غیور عوام کو حق حاصل ہے کہ ناکام رہنماؤں کا ہر گز انتخاب نہ کریں جو ملکی سا لمیت برقرار نہیں رکھ سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :