مفروضہ

اتوار 21 اپریل 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

تاریخ کے تناظر میں احتسابی انداز میں مملکت خداداد کا طائرانہ جائزہ لینے پر، جو جغرافیائی تبدیلی، معاشی بدحالی،قرضوں کا بوجھ، سیاسی ابتری، نسلی اور لسانی گروہ بندی، مذہبی فروعی و مسلکی تقسیم سامنے آتی ہے اس کے پیچھے نادیدہ ہاتھوں کو تلاش کرنے نکلیں تو یہ جان کر شرمندگی کا سامنا کرناپڑتا ہے کہ اس ریاست کو اس مقام پے لاکھڑا کرنے والے کرداروں میں کوئی بھی فرد یا شخصیت ان پڑھ ، ناخواندہ دکھائی نہیں دیتی،مقتدرطبقہ جسے اپنی اعلی تعلیم پے ناز ہے ،غیرملکی اور نامور مادر علمی سے حاصل کی گئی ڈگریوں پے اتراتے ہیں ،جاگیرداروں ، وڈیروں ، نوابوں، گدی نشینوں کے چشم و چراغ بھی ہیں انہیں یہ” شرف“ بھی حاصل ہوا کہ حق حکمرانی کے نام پر انہوں نے اس ملک کو سب سے پہلے دو لخت کیا،پھر اس میں کئی طرح کے تعصب کے بیج بوئے، عوام کو جمہوریت کے نام پر احمق بنایا ،اس ”گناہ“ میں باوردی حکمرانوں سے لیکر سول طرز حکمرانی کے دعویدار سبھی شامل ہیں، انکی شاہانہ پالیسیوں ہی کا فیض ہے کہ آج ہمارے قومی اثاثے بھی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ہاں رہن ہیں وہ بچہ جسے ابھی اس دنیا میں آنا ہے وہ بھی مقروض کا” سٹیٹس “لے کر اس سرزمین پے قدم رکھے گا۔

(جاری ہے)


اس موقع پر ہمیں محترم پروفیسر اشفاق احمد مرحوم کا وہ فقرہ اک مفروضہ ہی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی دکھائی دیتا ہے کہ ” اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پڑھے لکھے افراد نے پہنچایا ہے“ موصوف نے یہ مفروضہ، وسیع تجربہ اور ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر قائم ہی نہیں کیا تھابلکہ اپنی تحریروں ، تجزیوں اور لیکچرز میں کئی حوالہ جات سے اسکو ثابت بھی کیا ہے۔


 کیا اس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب اپنے اندر اتنی اخلاقی قوت ہی نہیں رکھتا کہ جو انسان کے اندر قوت نافذہ کے طور پر کام کرے اور اسے برے کاموں سے روکے رکھے یا کم از کم اس کے ضمیر پے دستک تو دے؟ کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ کیوں ریاست کے اثاثوں کو نقصان پہنچارہا ہے، وہ بدعنوانی میں ملوث رہا ہے، کسی قبضہ گروہ اور مافیا کا حصہ بننے جارہا ہے ۔

ظلم اور زیادتی روا رکھنے والے کسی عمل میں شریک ہے، سرکاری اراضی پر شب خون ماررہا ہے، انصاف کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ بن رہا ہے ،کسی کی خوشنودی کیلئے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ رہا ہے ،پلاٹ اور پرمٹ کی سیاست میں شریک سفر ہے ،ٹیکس چوری کرنے کے رموز سے دوسروں کوآگاہی دے رہا ہے، اپنی جیب بھرنے کیلئے ریاست کے اثاثوں کو ضائع کرنے میں شامل ہے، قومی دولت کو باہر منتقل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔

تعمیراتی کاموں میں کمیشن جیب میں ڈالنے کو بھی برا نہیں سمجھتا۔ ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی اس کے نزدیک کوئی جرم ہی نہیں، اقتدار کی طوالت کیلئے مذہب کے استعمال اور ڈالروں کے عوض قومی سلامتی اور اسکی سالمیت کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ بے روزگار نوجوانان قوم کو روزگار کی فراہمی کو بغیر رشوت کے ممکن نہیں بتاتا، افسر شاہی کے طور قانونی داؤ پیج کی آڑ میں اپنا مطلب نکالتا اور الو سیدھا رکھتا ہے ایسے ہزاروں گمنام کردار اپنی اپنی خداداد” صلاحیتوں“ اور موقع شناسی سے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس ملک کی بنیادوں میں مفادات کی مٹی ڈالنے میں مصروف عمل رہے، یہ آج بھی اس پاک سرزمین پر دھرتی کا بوجھ ہیں جنہیں صرف یہ فکر لاحق ہے کہ انکی اولاد اور عزیز اقرباء کا مستقبل کس طرح روشن ہوجائے ،غیر ملکی شہریت مل جائے۔

یہ مذکورہ کردار جنہیں اس سرزمین نے عزت سے نوازا انکی بمعہ اہل خانہ پر ورش کا حق ادا کیا، انہیں روزگار کے ساتھ دیگر معاشی مواقع فراہم کیے گئے اک پہچان دی، سیر سپاٹے کے مواقع فراہم کیے۔ ان کے بچوں کو تعلیمی وظائف دیئے، لیکن اس قماش کے افراد نے ان احسانات کی قدر نہ کی ،ناشکری کی اور قرآنی الفاظ میں خود کو ثابت کیا کہ انسان اپنے رب کا ناشکرہ واقع ہوا ہے ۔

پروفیسر اشفاق احمد موحوم کے اس مفروضہ سے اتفاق، حالات کی ضرورت اور مجبوری ہے۔
۔ہمیں تاریخ کے آئینے میں ایسے تعلیم یافتہ ، مخلص محب وطن چہرے بھی صاف دکھائی دیتے ہیں کہ جنہوں نے اک لٹی پٹی نوزائیدہ مملکت کو اپنے پاؤں پے کھڑا کرنے میں شبانہ روز محنت کی ،کیکر کے کانٹوں سے دفتر ی” ڈاکو منٹس“ کو نتھی کیا جو بھی قدم اٹھایا وہ درست سمت او ر ملک و قوم کی فلاح کیلئے اٹھایا، اپنے آرام اور آسائش کا بھی خیال نہ رکھا ،اس چھت کو اپنے لئے غنیمت سمجھا،بے یارو مددگار آنے والے لاکھوں مہاجرین کو اس سر زمین پے بسایا ،انکی روزی روٹی کا اہتمام کیا ،انہیں صحت تعلیم کو سہولتیں بہم پہنچائیں، انکے زخموں پر مرہم رکھا اپنے ا،یسے تعلیم یافتہ افراد آج بھی ہماری تاریخ میں روشن ہیں اوراق انکی تعریف اور توصیف سے بھرے پڑے ہیں، یہ وہ کردار ہیں کہ جن کے جسم و اذہان پر تعلیم نے انتہائی مثبت اثرات مرتب کیے انہوں نے اپنے قول وفعل سے انسانیت کو زندہ کیا، اس مرحلے پرو ہ انسان نما حیوان بھی ملتے ہیں کہ جنہوں نے جھوٹ، دھوکہ اور فریب کا سہارا لے کر مہاجرین کے حقوق کلیم کے نام پر زمین پے ڈاکہ ڈالنے میں قطعی شرم محسوس نہیں کی بھیڑیا نما یہ کردار بھی تعلیم یافتہ تھے مگر ہماری قومی تاریخ میں مقام عبرت پاگئے۔


کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے سے مراد صرف پڑھا لکھا ہونا نہیں ہوتا ،تعلیم کتابوں کا بوجھ ہی نہیں اٹھاتی بلکہ شخصیت میں انتہائی مثبت تبدیلی لاتی اور اسے نکھا رتی ہے، سیکھنے کا عمل تو ہر عہد میں جاری رہتا ہے۔
 عمومی رائے یہ ہے کہ اس وقت اگر دنیا میں کوئی مہذب ،بااخلاق ،کردار کی حامل کوئی قوم ہے وہ جاپانی ہے اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قوم کے بچوں کو ابتدائی دو سال میں صرف اخلاقیات پڑھائی جاتی ہے اور کردار سازی کی جاتی ہے، ایسا عمل سویڈن میں دہرایا جاتا ہے، مقام حیرت یہ ہے کہ دونوں ممالک میں کوئی بھی اسلامی ریاست نہیں ہے۔


سوشل میڈیا پر فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق ہمارا شمار ایک طرف مسلم ممالک کی اس صف میں ہوتا ہے جہاں حجاج کرام کی تعداد دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے جبکہ دوسری طرف ہم بدعنوان ممالک میں بھی سرفہرست ہیں۔
 اس سے اخذ کرنا چندان مشکل نہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام نہ ہی مذہبی تعلیم ہمیں باکردار بنانے میں موثر ثابت ہورہی ہے ۔اخلاقی اعتبار سے ہم سے بہتر اور خوش قسمت توان پڑھ افراد ہیں، جو کم از کم اس بات پے تو ناز کرسکتے ہیں کہ اس ریاست کو نقصان پہنچانے میں وہ کبھی بھی شریک نہیں رہے ہیں ۔


پروفیسر اشفاق احمد کا یہ مفروضہ اس اعتبار سے تو درست دکھائی دیتا ہے، لیکن سید ابواعلیٰ مودودی کے بقول کہ ہر وہ شخص اس وقت تک تعلیم یافتہ نہیں کہلوا سکتا جب تک وہ قرآن و سنت کا مکمل فہم حاصل نہیں کرلیتا جو انسانیت کی معراج ہے، خودکو اس کسوٹی پر پرکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :