آزمودہ اور ناکام نظام

پیر 31 جنوری 2022

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ایک ایسے وقت میں جب سرکار کی پارلیمانی مدت کی تکمیل میں صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ رہ گیا ہے ،سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کی نئی بحث کا آغاز کر دیا گیا ہے ،نجانے وہ کون سی نادیدہ قوتیں ہیں، جن کی خدمات اس پروپیگنڈہ کے عوض مستعار لی گئی ہیں، سیاسی حلقوں میں بھی اسکی باز گشت سنائی دے رہی ہے، عوام کی تسلی کے لئے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ صدر مملکت اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چند ماہ کی ایمرجنسی نافذ فرماکر مافیاز کو زیر کریں گے بعد ازاں ریفرنڈم کے ذریعہ صدارتی نظام کے نفاذ کے بارے میں عوامی رائے لی جائے گی، ان حلقوں کی جانب سے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ یہ نظام اسلام کے زیادہ قریب ہے ۔


اپوزیشن کے مولانا نے بھی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، وزیر خارجہ نے اگرچہ اس کو افواہ سے زیادہ اہمیت نہیں دی ہے، بعض حلقوں کی رائے یہ بھی کہ موجودہ سرکار عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی ہے، اس لئے وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ اس پارلیمانی نظام پر ڈال رہی ہے جس کے خیال میں اِسکی ناقص گورننس کی راہ میں بڑی رکاوٹ وہ مافیاز ہیں، جن کو اِس نظام میں تحفظ حاصل ہے۔

(جاری ہے)


 ایک متفقہ آئین کی موجودگی میں ایک نئے نظام پر غیر سنجیدہ انداز میں گفتگو سے کسی نئی سازش کی بو آرہی ہے، عوامی رائے کے لئے سوشل میڈیا پر جنہوں نے اس کو لانچ کیا ہے انھیں کس کی پشت پناہی حاصل ہے؟ ایسا کرنے میں ان کا کیا مفاد ہے ؟ اس بابت راوی خاموش ہے۔
کیا یہ طبقہ نہیں جانتا کہ اِس ملک میں30 سال سے زائد عرصہ تک صدارتی نظام ہی نافذ رہا ہے، اس دور میں بآوردی صدور بلا شرکت غیرے اقتدار پر براجمان رہے ہیں، انھوں نے بھی اصلاح معاشرہ اور سسٹم کی تبدیلی کے نام پر شب خون مارا تھا، پہلے صدر نے تو بیٹھتے ہی سیاسی جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے دیا، انکی ساری قیادت کو پابند سلاسل کر دیا ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کئے، ملکی ترقی جب عروج پر تھی تو غیر ضروری جنگ میں ملک کو الجھا کر معیشت کو ریورس گیر لگوا دیا جب وہ اقتدار سے عوامی احتجاج کے نتیجہ میں رخصت ہوئے تو ان کے زیر سایہ پرورش پانے والے 22 خاندان قومی معیشت پر قابض ہو چکے تھے، اس بہادر افسر نے جاتے ہوئے اقتدار اسمبلی سپیکر کو دینے کی بجائے نئے چیف کو دے کرکر نیا مارشل لگوا دیا، اس صدارتی نظام کی کوکھ سے سقوط ڈھاکہ نے جنم لیا۔


 بعد ازاں نئے مارشل کی آڑ میں نئے باوردی صدر برسر اقتدار آئے، اپنی حرکات و سکنات کو جائز قرار دلوانے کے لئے انھوں بھی پارلیمنٹ ہی کا سہارا لیا تھا۔ پارلیمانی نظام ہی کی طاقت سے اُس وقت کے وزیر اعظم نے کہا کہ مارشل لاء اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تو طاقتور صدر یہ جملہ بھی برداشت نہ کر سکے اور اِنکو گھر جانے کا حکم دے دیا، یہ صدر سیاسی جماعتوں سے اس قدر خائف تھے کہ انھوں نے قومی انتخاب میں انکو شریک ہی نہ ہونے دیا۔


ہمارے سیاسی کلچر میں جو خرافات آج نظر آرہی ہیں اس میں بڑا حصہ غیر جماعتی انتخابات کا ہے، جس طرح اِس وقت اسلامی صدارتی نظام کے لئے مذہب کا نام لیا جارہاہے اس طرح ہی اُس وقت کے صدر اسلامی نظام کے نام پر اپنے اقتدار کو طوالت دیئے رکھی، اس کے بعد احتساب کے نام پر چوتھے مارشل لاء صدر نازل ہوئے انھوں نے اسلام کے برعکس روشن خیالی کو متعارف کر وایا اور دس سال سے زائد عرصہ تک اقتدارسے چمٹے رہے، انھوں نے بھی سیاسی جماعتوں سے کیڑے نکالے، ان پر بدعنوانی کے الزامات لگائے، بڑی جماعتوں کی سیاسی قیادتوں کو این، آر او بھی اپنے ہی دست شفقت عطا کیا۔


تمام مارشل لائی صدور میں جو قدر مشترک تھی وہ یہ سیاسی جماعتوں کو وہ ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، انکی قیادت کو بدعنوان گردانتے اور عوام کو باور کرواتے تھے کہ ان کے مسائل کی بڑی وجہ یہ جماعتیں ہی ہیں، لیکن تلخ حقیقت یہ ان کے اقتدار سے رخصت ہونے کے سب سے بھاری قیمت بھی ان سیاسی جماعتوں نے ادا کی علاقائی، لسانی، فرقہ وارانہ گروہوں کے خاتمہ کے لئے سیاسی ادوار میں عوامی خواہشات کے برعکس ملٹری آپریشن کرنے پڑے جن کے آفٹر شاکس اب تلک محسوس کے جارہے ہیں۔

تحریک انصاف کی جماعت کی قیادت سے یہ توقع تو نہیں جاسکتی کہ وہ پارلیمانی نظام کے خلاف رائے عامہ ہموار کرے گی، 1973 کا آئین اس ریاست کے لئے کسی غنیمت سے کم نہیں، جن سیاسی قیادت نے اس کو بنایا ہے اس نے تمام معروضی حالات کو سامنے رکھ کر تدوین کیا ہے، جس پر تمام جماعتیں متفق ہیں، اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبہ جات بھی خود مختیاری سے اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔


پارلیمانی نظام کی کامیابی کا انحصار سیاسی جماعتوں کی بہترین ورکنگ ریلیشن شپ پر ہے، اپوزیشن اور سرکار کی باہمی دلچسپی پر ہے پارلیمنٹ کی وساطت سے اچھی حکمرانی ہی اسکو مضبوط بناتی ہے، ہماری بد قسمتی کہ ہماری سیاسی جماعتیں ایک پریشر گروپ کے طور پر کام کرتی ہیں، موروثی طرز سیاست نے اس کی اہمیت کو اور بھی کم کر دیا ہے، اس لئے مخصوص افراد اس کی آڑ میں پارلیمانی نظام کی ناکامی کا تاثردیتے ہیں، نظام کوئی بھی ہو لیکن ایک جمہوری ملک میں اصل کردار طرز حکومت کا ہوتا ہے، سرکار کی ناکامی کو پارلیمانی نظام کی ناکامی قرار نہیں دیا جاسکتا۔


دنیا میں ایک سے زائد نظام رائج العمل ہیں، پارلیمانی نظام کی روح تو مقامی حکومتوں کا نظام ہے جس میں عوام کے نمائندگان فیصلہ سازی میں شریک ہوتے ہیں، ہمارے اس کو چنداں اہمیت ہی نہیں دی جاتی، اب تلک جو بھی شکل جمہوریت کی قوم کے سامنے آئی ہے اس سے یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ سیاسی قیادتیں اپنے مفادات کے لئے ہی اس کا سہارا لے عوام کا استحصال کرتے ہیں، اس لئے بعض مذہبی طبقات کے خیال میں یہ غیر اسلامی طرز حکومت ہے، انکی رائے میں صرف صالح افراد ہی کو مسند اقتدار پر براجمان ہونے کا حق ہے۔


برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کے حوالہ سے عوام میں جو غم وغصہ پایا جاتا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ مقتدر طبقہ نے عوام کی مشکلات کو حل کرنے میں کوئی انقلابی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں، عوام بنیادی حقوق سے تاحال محروم ر چلے آرہے ہیں جبکہ مقتدر طبقہ کے منظور نظر ہی ان کے اقتدار سے مستعفید ہوتے رہے۔انکا اصل جرم یہ ہے انھوں نے اداروں کی بجائے شخصیات کو طاقتور بنایا ہے۔


اِس صورت حال کا فائدہ اٹھا کر چند لوگ صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنے کی سازش میں شریک ہیں، اس وقت بھی برطانیہ میں پارلیمانی نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے، جن ممالک نے اس کو اپنایا ہے انھو ں نے اس کی وساطت سے عوام کی حیاتی میں سکھ ہی سکھ لکھے ہیں، طرز حکومت کو مثالی بنایا ، تمام قومی اداروں نے اپنی اپنی حدود میں رہ کر آئین اور سول حکمرانی کو عملی شکل دے کر عوام کے لئے آسانیا ں پیدا کی ہیں، یہی پارلیمانی نظام کی خوبصورتی ہے اِسکی جگہ شخصی صدارتی نظام نہیں لے سکتا ہے جو آزمودہ اور ناکام رہا ہے۔ یہ اسلام سے زیادہ بادشاہت کے قریب تر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :