میرا پاکستان

پیر 12 اگست 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اب جبکہ کتب بینی کا کلچر دم توڑ تا جارہا ہے، نسل نو سوشل میڈیا کی رسیادکھائی دیتی ہے ، محققین کی بجائے یو ٹیو ب کے” موجد“ وجود میں آرہے ہیں ،ٹک ٹاک کے ذریعہ ہی سے” تخلیق“ کو مقصد حیات بنا لیا ہے، اس کے با وجو د نو جوانا ن قوم کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ جس پاکستان کاہم 73واں جشن آزادی منا نے جارہے ہیں یہ وہ قائد کا پا کستان نہیں بلکہ یہ توآدھا پاکستان ہے، ستر کی دہائی میں مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے تک مراحل ہماری عسکری، سیاسی ، معاشی،اخلاقی تاریخ کے سیاہ با ب ہیں، سقوط ڈھاکہ وہ زخم ہے جو بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا ، تا ہم نسل نو اپنی ثقافت ، تاریخ سے ضرور آگاہی حاصل کر نی چاہیے یہ اس پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ! 
اس میں کوئی دور ائے نہیں کہ بانی پاکستان بحثیت قائد ہی وہ معتدل ، جفا کش ، ایماندار ، با اصول اور صاحب کردار شخصیت تھے کہ جنکی شبانہ روز محنت نے ہمیں آزادی کی منزل دکھا ئی ، قائد اعظم اتنے نڈر تھے کہ وہ بر طانوی سامراج جس کے سامنے گا ندھی جی ہا تھ جوڑ کھڑے رہتے ،جناح ڈنکے کی چوٹ پر ہر سرکاری حکم کو حرف تنقید بناتے جو عوامی مفاد کے خلاف ہو تا ۔

(جاری ہے)

قیام پاکستان کے بعد بھی جب تک وہ حیات رہے انھوں نے جمہوری اور آئینی اقدار کی پاسداری کی ، قومی خزانہ کو امانت کے طور پر استعما ل کیا ۔ کابینہ کے اجلاس میں چائے پیش کیے جانے کی دعوت پر انکا رد عمل ہی معروف واقعہ نہیں بلکہ انھوں نے ناشتہ کیلئے ڈبل روٹی کے سائز کو یہ کہہ کر کم کروایا کہ دونوں بہن بھائیوں کیلئے یہ مقدار زیاد ہ ہے ،روایت کے کیفے گرینڈ کراچی نے ان کیلئے اک تہائی سائز پر مشتمل سانچہ بنوانا اس احتیاط کا مقصد قومی خزانہ پر بو جھ کم ڈالنا تھا ۔

 محترمہ فاطمہ جناح نے بھی ان کے زیر سایہ تر بیت حاصل کی ،انھیں جب 1964ءء میں اپوزیشن کی جانب سے متفقہ امیہ وار کے طور پر نامزدکیا گیا تو انھوں نے مشروط طور پر انتخابا ت میں حصہ لینے کی حامی بھری کہ وہ چھ ماہ کے اندر پارلیمنٹ کے ذریعہ متفقہ دستور بحال کروائیں گی جسے ایوب خاں نے منسوخ کر رکھا تھا اس کے بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کرواکراقتدار اکثریت پارٹی کے حوالہ کریں گی ۔

مادر ملت جمہوری اقدار کے فروغ پر یقین رکھنی تھیں اور مشرقی روایات کی بھی پاسدار تھیں ، ثریا خورشید جو انکی ہم عصر تھی جب شادی کے کچھ ماہ بعد ان سے ملنے آئیں تو انھیں بڑے پیار سے سمجھا تے ہوئے کہا کہ ہمیشہ سر پر دوپٹہ رکھنا اور گھر گرہستی کے سارے کام سیکھنا تا کہ اس زندگی میں کامیابی حاصل کرو۔ 
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں جو متحدہ ہندوستان میں اک نواب گھر انے سے تعلق رکھتے تھے ہجرت کے بعد انھوں نے اپنی جائیداد تک کا کلیم حاصل نہیں کیا اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو انکا بینک بیلنس صرف چارہزار ورپے تھا ، مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین جو وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہے ان کے پاس اپنا ذاتی مکان نہیں تھا۔

تحریک پا کستان کی نامور شخصیات میں سردار عبدالرب نشتر بھی تھے جو گور نر کے عہدے پر بھی فائز رہے مگر انھوں نے سرکاری املاک کو انتہائی احتیاط اور ایمانداری سے استعمال کیا ۔ روایت ہے کہ شدید بارش میں بھی انھوں نے اپنے بیٹوں کو سرکاری گاڑی دینے سے انکار کر دیااور ہدایت کی وہ کسی دوسری سواری پر کالج روانہ ہوجائیں ۔ ایوب خاں نے اگر چہ اقتدار پر شب خون مارا تھا لیکن وہ بھی گھر کے افراد کے سوا دوسرے مہمان کا بل اپنی جیب سے ادا کرتے تاکہ خزانہ پر بوجھ نہ پڑے ، یحییٰ خاں دوسرے فوجی حکمران تھے، سقو ط ڈھا کہ کے بعد برخاست کیا گیا انکا بھی اپنا گھر نہیں تھا، انکی موت بھی اپنے بھائی کے گھر ہوئی ۔

تاریخ نے اک ایسے چیف آف آرمی سٹا ف ذو الفقار علی بھٹو کے دورمیں دیکھے ہیں جنھوں نے ساری زندگی دو کمروں کے مکان میں گزار دی لیفٹیننٹ جنرل گل حسن نے اپنے موت سے پہلے وصیت کی کہ ان کے کپڑے انکے اردلی کو دے دیئے جائیں اور رقم بھی، جسکی مقدار دو سوٹ اورسترہ سو روپے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء الحق نے بہت سے وائٹ پیپر شائع کیے مگر مالی بد عنوانی کا ان پر کوئی الزام نہ لگا سکے ۔

اگر یہ کہاجائے کہ اسی کی دہائی سے قبل حکمران طبقہ قومی خزانہ کو امانت کے طور پر خیال کرتاتھا تو بے جا نہ ہو گا ۔
 قومی خزانہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات قریبا ہر طبقہ میں بھی تھی ،کہاجاتا ہے کہ ایوب خاں،سید ابو علی مودودی سے ملنے اچھرہ تشریف لائے،جب وہ اس آمر کے خلاف تحریک چلا رہے تھے، سید مودودی کچھ احباب کے درمیان موجود تھے، ایوب خان نے کہا کہ مولانا یہ تو بتائیں کہ سیاست اور مولوی کا کیا تعلق ہے، سید مودودی نے بغیر کسی لگی لپٹی کے فرمایا کہ ان کاتعلق تو کسی نہ کسی طرح ممکن ہو سکتا ہے لیکن کسی ملک کے سپہ سالا ر کا اقتدر پر قبضہ کرنا ہماری دانست میں نہیں آسکا اس مو قع پر محفل کشت غفران بن گئی ایوب خاں اپناسامنہ لے کر رہ گئے ۔

عمومی رائے تویہی ہے ضیا ء الحق کے غیر جماعتی انتخابات نے مالی بد عنوا ن کی طرح ڈالی ہے باوجود اس کے وزیر اعظم محمد خاں جونیجو نے اپنے اقتدار میں نہ صرف اپنے دامن کو صاف رکھا بلکہ بد عنوان وزراء کو برطرف بھی کیا ،یہ بھی روایت ہے کہ محمد خاں جونیجو وزیراعظم ہاؤ س کی اضافی لائیٹس خو د بند کیا کر تے تھے ۔،انھوں نے جنرل ضیاء الحق کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے فلور پے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ مارشل لاء اور سول حکومت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہر چند کہ محمد خاں جونیجو مرحوم ضیاء الحق کیلئے زیادہ قابل قبول تھے ۔

اسی عہد میں جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی کابینہ کی میٹنگ میں بطور لاء سیکرٹری شریک تھے جسکی صدارت خود صدر ضیاء الحق کر رہے تھے افسر شاہی کے خلاف نازیبا الفاظ کے رد عمل کے طور پر ضیاء الحق کو کھر ی کھری سنائیں تو فوراً یہ نشست برخاست کر دی گئی، صدر نے انھیں فوری طلب کر کے معافی کا حکم دیا، صدر کی طرف سے الفاظ اسی ماحو ل میں واپس لینے پر جسٹس نے معذرت کی حامی بھر لی ۔

کہا جاتا ہے کہ اک دفعہ ضیاء الحق مرحوم نے ایڈ یٹرز اور اخباری مالکان پر مشتمل ”میٹ دی پریس “کے عنوان سے مشاور ت کیلئے اجلاس طلب کیا، مجید نظامی مرحوم نے بھی شرکت کی، تمام تر گفتگو بڑے انہماک سے سنی مگر کوئی رائے نہ دی نشست قریبا ً اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی کہ ضیاء الحق نے کہا کہ نظامی صاحب آپ کچھ فرمائیں ،نظامی محترم نے پنجابی میں کہا کہ ساڈی جان کدوں چھڈوں گے ! (ہماری جان کب چھوڑ یں گے )اسکے فوراً بعد ضیاء الحق اٹھ کر چلے گئے ۔

روایت ہے کہ عاصمہ جہانگیر کے والد جیلانی کو بھٹو مرحوم پر تنقید کرنے کی پاداش میں ڈی پی آر کے تحت گرفتار کیا گیا، عاصمہ جہانگیر مرحومہ جو قانون کی تعلیم سے فارغ ہوئی تھیں نے ہائی کورٹ میں رٹ کر دی ،مارشل لاء کے تحت اسکا اختیار نہیں تھا لہذا مسترد ہوئی ،سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جسٹس محمود الرحمن نے تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے یحییٰ خاں کو غاصب قرار دیا اور تمام احکامات کو غیر قانونی قراد دے دیا یہ معروف کیس پی ایل ڈی میں عاصمہ جیلانی کے نام سے جاناجاتا ہے ۔

نسل نو کو بتانا مقصود ہے کہ جس طرز کا ماحول آپ کے سامنے ہے ، پاکستان میں ہمیشہ ایسا نہیں رہا ،آج بھی تمام سیاسی جماعتوں میں ایماندار، بااصول، اہل،محب وطن افراد کی کمی نہیں ہے ۔ہمیں نئے اور پرانے کے مغالطے میں تقسیم کیا جا رہا ہے، جبکہ ارباب اختیار سے صرف یہی کہنا ہے ،قوم کومیرا پاکستان لو ٹا دو جس کیلئے ہزاروں انسانوں نے قر بانیاں دیں ،جو قائداور اقبال کا وژن تھا جس کا راستہ قانون اور آئین کی حکمرانی ہی سے ہو کر گزرتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :