نوجوان نسل : ملکی سرمایہ یا بوجھ ؟

جمعرات 25 مارچ 2021

Mishal Arooj

مشعال عروج

نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان قائداعظمؒ نے ہمیشہ نوجوانوں کو بے حداہمیت دی تھی اور انہیں تحریک پاکستان کا ہراول دستہ قراردیا تھا۔ نوجوانوں نے بھی قائداعظمؒ کی قیادت میں تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی کس قدر دکھ کی بات ہے کہ آج کے پاکستان میں ہم نے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انہیں بےروزگاری کے سیلاب کی نذر کر دیا ہے ایک سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں بےروزگارنوجوانوں کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جس میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ سب کچھ ہماری ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں قائم ہونے والی ہر حکومت نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے نوجوانوں کیلئے کئی سکیمیں شروع کیں اور بھاری سرمایہ خرچ کرکے اس کی بے پناہ تشہیر بھی کی لیکن پھر یہ ساری سکیمیں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کئے بغیر ٹھپ ہوگئیں۔

(جاری ہے)

ہمارا نوجوان اگر کسی تعلیمی ادارے سے اعلیٰ تعلیم حاصل بھی کرلیتا ہے تو پھر وہ اپنی ڈگری ہاتھ میں لئے نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے قارئین کو یاد ہوگا کہ چند سال پہلے بےروزگار نوجوانوں نے لاہور میں دیہی بھلے، پکوڑے، فروٹ چاٹ اور پھلوں کی ریڑھیوں کا بازار لگادیا تھا۔

ایک ریڑھی پر ”ڈگریاں برائے فروخت“ کا بورڈ بھی لگا ہوا تھا جسے پڑھ کر نوجوانوں کے دکھ درد اور جذبات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ پاکستان دنیا کا وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں نوجوانوں کی بھاری تعداد موجود ہے۔ سرکاری اقتصادی سروے آف پاکستان کے مطابق اس وقت پاکستان میں بیس سے 35 سال تک کے نوجوانوں کی تعداد پانچ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔

یقینا یہ پاکستان کیلئے بہت بڑا سرمایہ ہے جسے ہم اپنی ذہانت، منصوبہ بندی اور حکمت علمی سے ملک کی تعمیر و ترقی میں استعمال کرسکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرے گا کون؟ کیا ہمارے سیاستدان نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انہیں اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کیلئے استعمال کرتے رہیں گے؟ کیا حکومت نوجوانوں کو مناسب روزگار دینے کی بجائے انہیں یونہی سبز باغ دکھاتی رہے گی؟ حکومت کی طرف سے نوجوان طالب علموں کو لیپ ٹاپ دینا نہایت احسن قدم ہے لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں مناسب روزگار دینا آخر کس کا فرض ہے؟ خود روزگار سکیم ہو یا آسان شرائط پر نوجوانوں کو کاروبار کیلئے قرضے فراہم کرنے کا معاملہ ہو اس کا طریقہ کار اس قدر طویل پیچیدہ اور مشکل ہے کہ اس سے تو ایسا ہی بھلا۔

حقیقت یہ ہے کہ ضرورت مند مگر بےروزگار کی ضمانت تو کوئی بھی دینے کو یتار نہیں ہوتا۔ وہ بےچارا کس سے فریاد کرے کس کو اپنی مدد پر آمادہ کرے، کس سیاستدان یا اثرورسوخ والے کی منتیں کرے۔ اس وقت پاکستان میں بےروزگاری اپنے عروج پر ہے ایک ایک آسامی پر ہزاروں درخواستیں آ جاتی ہیں افسوس اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ پی ایچ ڈی، ایم فل، ایم ایس سی، ایم اے اور ایم کام بھی ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں آپ حیران ہوں گے۔

اس وقت پاکستان کے کئی نجی بنکوں میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان معمولی کمیشن پر مشکل ترین کام ”قرضے دینے کیلئے کسٹمر“ کی تلاش کا فریضہ انجام دے رہے ہیں یا پھر قرضوں کی ریکوری کیلئے گلی محلوں کے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں چند ماہ پہلے پولیس اور ایف آئی اے میں سکیل پانچ کی بھرتی کیلئے ہزاروں امیدواروں نے درخواستیں دیں ان میں ایم فل ، ایم ایس سی اور ایم اے کی ڈگری رکھنے والے بھی بھاری تعداد میں شامل تھے۔

گزشتہ دنوں پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں کنٹریکٹ پر بھرتی کیلئے مختلف اسامیوں کیلئے درخواستیں طلب یک گئیں اس کی تعداد بھی 12 سے15 ہزار کے درمیان تھی اور ان امیدواروں کا این ٹی ایس لیا گیا۔ یاد رہے کہ ہر ایک امیدوار نے این ٹی ایس کیلئے پانچ سوروپے کا پے آرڈر یا بینک ڈرافٹ جمع کروایا۔ اس وقت ملک میں سرکاری، نیم سرکاری، خود مختار سرکاری اداروں حتیٰ کہ نجی ادارے بھی جب کسی بھی آسامی پر بھرتی کیلئے درخواستیں طلب کرتے ہیں تو ساتھ میں ان بےروزگاروں سے پانچ سو سے لے کر15 سو روپے تک کا پے آرڈر یا بنک ڈرافٹ بھی طلب کرتے ہیں اس طرح ہر سال کروڑوں روپے ”اسامیوں کی مد میں“ ان سے اینٹھ لیے جاتے ہیں۔

امیدوار جب اس محکمے یا ادارے میں ٹیسٹ اور انٹرویو کیلئے جاتا ہے تو اسے نہ تو بیٹھنے کیلئے مناسب جگہ ملتی ہے اور نہ ہی پینے کیلئے پانی دستیاب ہوتا ہے وہ بےچارا روزگار کی تلاش میں یہ سب ستم برداشت کرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے تحت تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے امتحان لینے کا سلسلہ شروع ہوا بعد میں اس ادارے نے مختلف محکموں میں بھرتی کیلئے ٹیسٹ لینے کا سلسلہ شروع کیا اور آج این ٹی ایس کا دائرہ کار بے حد وسیع ہوچکا ہے۔

تمام اہم سرکاری ادارے اور پرائیویٹ ادارے بھی اس سسٹم کے ذریعے امیدواروں کا انتخاب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دو گھنٹے کے اس ٹیسٹ میں امیدواروں کو سو کے لگ بھگ سوالات (MCQ ) کے جواب دینے ہوتے ہیں جس کے ذریعے امیدوار کی ذہانت جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے اس ادارے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے بڑے سرکاری نیم سرکاری اداروں ، خود مختار کارپوریشنز اور اداروں نے امیدواروں کے انتخاب کی ذمہ داری خود اٹھانے کی بجائے این ٹی ایس پر کیوں ڈالی ہے؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بےروزگار نوجوانوں سے ان کی تعلیمی اسناد کی فوٹو کاپیوں اور تصاویر کے دو یا تین سیٹ اور ساتھ میں پے آرڈر یا بینک ڈرافٹ کس کھاتے میں لئے جاتے ہیں اس پر مزید یہ کہ امیدوار کو کہاجاتا ہے کہ وہ اپنی سی وی اور سرٹیفکیٹس لازماً ای میل بھی کرے ۔

یعنی سافٹ اور ہارڈ کاپی دونوں ہی ارسال کرے۔ جی ہاں ہارڈ کاپیاں ٹی سی ایس کرے جس پر تقریباً دو سو روپے خرچہ آتا ہے آخر بےروزگار نوجوانوں پر اس قدر زیادتیاں کیوں کی جارہی ہیں۔ ان کے والدین پر اس قدر مالی بوجھ کیوں ڈالا جارہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی بھی آسامی کیلئے کسی قسم کی کوئی فیس نہ لے اور بھرتی کے طریقہ کار کو آسان اور شفاف بنانے کیلئے میرٹ پر سختی سے عملدرآمد کرے۔

صوبائی اور وفاقی پبلک سروس کمیشن کے امتحانی نظام اور انٹرویوز کرنے کے طریقہ کار پر پوری قوم کو اس لئے اعتماد ہے کہ وہاںتمام کام سو فیصد میرٹ پر ہوتے ہیں اور سفارش کلچر کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ کیا حکومت کے تمام محکمے اور ادارے اس طرح کی مثالی کارکردگی کیوں نہیں دکھاسکتے؟ اس مقصد کے حصول کیلئے نیک نیتی، صحیح ارادہ، ہمت، عزم اور صحیح عمل کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سیاسی دباﺅ اور اثرورسوخ کو برداشت کرنے کی طاقت بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے یہ بات یقینی ہے کہ اگر ہم اداروں میں میرٹ پر بھرتی کو بنیاد بنالیں تو ہمارے اداروں کی کارکردگی بھی بہتر ہوسکتی ہے اورحق دار کو اس کا صحیح حق بھی مل سکتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ہم صنعتی تجارتی اور کاروباری شعبے کی ترقی کی طرف خصوصی توجہ دیں۔

خاص طور پر دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف آبادی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نقل مکانی کو روکنے کیلئے زراعت پر مبنی صنعتیںلگانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کریں۔ اس سے دیہی علاقوں کے لوگوں کو مقامی طور پر روزگار مل سکے گا۔ موجودہ حکومت نوجوانوں کوہنر مند بنانے کیلئے اس وقت کئی منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ ٹیکنکل تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم و تربیت دینے کے ساتھ انہیں ماہانہ وظائف بھی دئیے جاتے ہیں اس کے نتائج یقینا نہایت مثبت ہوں گے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ ان اداروں سے فنی تربیت حاصل کرنے والے طالب علموں کو ملازمت دینے کیلئے بڑے بڑے صنعتی اداروں کو پابند کرے اور اس سلسلے میں صنعت و تجارت کے ایوانوں سے بھرپور مدد بھی لے تاکہ ہنرمند نوجوان بے روزگاری سے بچ سکیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے ہی بیرون ممالک جانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ والدین بھاری شرائط پر قرضے لیکر اپنے بچوں کو دوسرے ممالک بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں اور ادھر ایجنٹ مافیا بھی انہیں شکار کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہوتا ہے وہ ان نوجوانوں کو ایسے ایسے سبزباغ دکھاتا ہے کہ وہ دن میں دولت مند ہونے کے خواب دیکھنا شروع کردیتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ چند دنوںمیں اسے دن میں بھی آسمان پر ”تارے“ نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں جب اس کی رقم ایجنٹ لے کر غائب ہوجاتا ہے اس طرح کی خبریں روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادے کیلئے جامع اور قابل عمل پالیسی بنائے، انہیں تعلیم یافتہ اورہنرمند بنانے کیلئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ہر سطح پر میرٹ کو یقینی بنائے تاکہ کسی نوجوان کے ساتھ زیادتی نہ ہو، ملک میں جدید سائنسی ”تحقیقی“ فنی تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کو عام کرکے ہم ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔

ایک بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر، انجینئرز،کمپیوٹر انجینئرز، پروفیسر، آرکیٹیکچرز اور دیگر پروفیشنل کا روزگار کیلئے ملک سے باہر جانا کسی صورت میں بھی مناسب نہیں۔ ان کا تجربہ، قابلیت اور صلاحتیں اپنے ملک کی بجائے کسی اورملک کیلئے استعمال ہونا ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔یہ برین ڈرین اس وطن عزیز کیلئے کسی صورت میں بھی مناسب نہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال کا فوری نوٹس لے اور ان اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کیلئے مناسب روزگار کا بندوبست کرے کیونکہ یہ سب نوجوان اس وطن کا سرمایہ بھی ہیں او رروشن مستقبل کی نوید بھی۔ ملک سے بے روزگاری کو ختم کرنے کیلئے سیاسی نعرے لگانے کی بجائے عمل کرنے کی ضرورت ہے یاد رہے کہ بے روزگار نوجوانوں کے پاس اگر روزگار نہیں مگر ووٹ کی طاقت تو ہے اور آئندہ انتخابات میں وہ اپنے اس حق کا استعمال سوچ سمجھ کر ہی کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :