ڈرامہ ارطغرل اور ہمارا معاشرہ

ہفتہ 12 جون 2021

Mohammad Hunain Khan

محمد حنین خان

ایک زمانے میں معاشرے کے رائلٹی اور اشرافیہ کے ایوانوں کے اندر تفریحی فن کے لئے مخصوص پرفارمنگ آرٹس، جدید دور میں اہم سیاسی پروپیگنڈا کا ذریعہ بن چکے ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے دور میں اس فن کی رسای عام عوام انناس تک پہنچ چکی ہے۔ انگریزی کا ایک مشہور قول ہے: "وہ لوگ جو میڈیا پر قابو رکھتے ہیں وہ آپ کے دماغ کو موٴثر طریقے سے کنٹرول کرتے ہیں۔

"
فلم انڈسٹری میں کئی دہائیوں سے یورپی اور امریکی تفریحی پیشکشوں کا غلبہ رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں صرف ہندوستانی فلمی صنعت یعنی بالی ووڈ نے بر صغیر کی ہندی/اردو بولنے والے سامعین تک رسائی حاصل کر کے بضریع نظارگی اور آمدنی مسابقت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس کے باوجود بالی ووڈ بھی اپنے ناظرین کو ان کی زندگی سے متعلق کچھ مستند پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔

(جاری ہے)

بلکہ وہ اخلاقی فحاشی اور مغربی بیانیے کی اندھی تقلید پر زور دے کر اپنے بازار کو مرکوز کرتا ہے۔ پاکستانی سنیما میں حالیہ بحالی دیکھنے میں آئی ہے ، شاید رجاعیت پسندانہ سوچ رکھنے والوں کے لیے تو یہ نہایت خوشنودی کا باعث تھا لیکن حقیقت پسند کے لئے یہ بحالی وزیر اعظم سے منقول "بالیوڈ کی بلا پچھتاوا تقلید" سے زیادہ نہیں ہے۔
گزشتہ سال پاکستان کی فلمی صنعت میں ایک طوفان برپا ہوا جب، خود وزیر اعظم کے حکم پر ، پی ٹی وی نے ترک تاریخی پیداوار ارطغرل غازی کو نشر کیا۔

عثمانی سلطنت کے ابھرنے والے واقعات سے متاثر ہو کر مگر بڑے پیمانے پر غیر حقیقی تصورات کے مطابق ، اس شو نے پاکستان میں نظارگی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور یہ ڈرامہ کافی بحث و مباحثے کا ایک گرما گرم موضوع بن گیا۔ پاکستان کے تمام حلقوں کی جانب سے اس شو کا بے مثال استقبال کرنے کے باوجود ، متعدد پاکستانی اداکاروں کے ساتھ ساتھ ایک ممتاز سماجی کارکن نے پاکستانی عوام میں ترک تسلط کے احساس کو فروغ دینے کی بنا پر اس شو سے شدید مخالفت کا اظہار کیا۔

اگرچہ اداکاروں کو اس دھچکے کا خدشہ تھا جو بیرونی درآمد کی وجہ سے مقامی پروڈکشنوں کو پہنچا سکتا ہے ، ایک مایاناز پاکستانی ساینسدان جو ایک مشہور سیاسی مبصر بھی ہیں ، ان نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ شو کسی خاص دہشت گرد گروہ کی طرح کی ذہنیت کو فروغ گا۔
نشاد کرنے والوں کے خدشات کا جائزہ لینے سے پہلے ، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بہت سارے سیکولر قوم پرست پاکستانی عوام کے اسلام پسند رجحانات پر مشترکہ ہندوستانی ورثے کو فروغ دینے کی تاریخی داستان کے حامی ہیں۔

ایک اور سیکولر قوم پرست نظریہ ، جس کے نمایاں محرک بیرسٹر اعتزاز احسن ہیں ، ان کا موٴقف ہے کہ پاکستانی اصل میں وادی سندھ کی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں جو تاریخی طور پر باقی ہندوستانی خطے سے الگ تھا۔ اگرچہ موٴخر الذکر دعوے میں بہت ساری چیزیں حقیقت پر مبنی ہیں ، لیکن جہاں تک سابقہ کا تعلق ہے تو ، یہ جاننا ہوگا کہ ہندوستان کبھی بھی تاریخی طور پر متحد ملک نہیں تھا۔

بلکہ ایک خطے کا نام تھا جس میں متنوع خودمختار قوموں کی بہتات تھی۔ پھر اس میں حیرت کی بات نہیں کہ اس خطے کو برصغیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برصغیر کے صرف ترک حکمرانوں نے ہی ہندوستانی خطے کو ایک واحد خودمختار علاقے میں متحد کیا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ اقوام اور نسل سے بالاتر ہے۔ اس خطے میں اسلام اور مسلمانوں کی ابتدائی آمد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے ہوئی تھی جو تبلیغی مقاصد کے لئے پاکستان کے مغربی علاقوں میں پہنچے تھے۔

خلافت راشدہ میں یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ سلطنت عمیہ نے ہندوستانی خطے میں حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ، جس میں سب سے نمایاں طور پر محمد بن قاسم کا فتح سندھ ہے۔ یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی پہلی مستقل آبادکاری سمجھی جا سکتی ہے۔
تاہم ، عرب اشرافیہ زیادہ تر اپنے کیمپوں تک ہی محدود رہتے تھے ، اور عوام میں اسلام کا پھیلاوٴ وسطی ایشیائی اور فارسی صوفیاء کی ہجرت کے بعد ہی شروع ہوا۔

یہاں آنے والے صوفیا زیادہ تر چشتی سلسے سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ثقافت اور اخلاقیات پر بہت زیادہ زور دیا ، جن کے نظریات سے ان کے ہاتھ اسلام قبول کرنے والے عقیدت مندوں پر ایک مستقل اثر طاری ہوا۔ برصغیر کی رائلٹی پر آہستہ آہستہ ترکوں نے غلبہ پانا شروع کیا اور ، غزنویوں سے لے کر مغلوں تک ، کچھ قلیل مدت پشتون سلطنتوں کے علاوہ ، ترکوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال تک حکومت کی۔


پاکستان کا سفر متنوع اقوام اور ثقافتوں کا امتزاج ہے جو تمام ایک مذہب کے جھنڈے تلے ملحق ہے اور اس میں ترکوں کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ ہماری قومی زبان 'اردو' کا نام خود ہی ترک زبان سے ماخوذ ہے۔ 'زبان مولا اردو' ، جس کا ترجمہ 'شاہی فوج / کیمپ کی زبان' ہے اور یہ جدید اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ اسی پس منظر کے تحت ترک یا عرب یا کوئی دوسری قوم پاکستان کے لئے غیر ملکی نہیں ہے ، کیونکہ پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی دریائے سندھ کی تہذیب کے ساتھ ساتھ ان اقوام کی بھی نسل ہے۔

اہل پاکستان دینی بنیادوں کے تحت یکجہتی اور سرحد پر یقین رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی سلسلے میں فرمایا تھا کہ قومیں ذات پات سے متحد نہیں ہوتی بلکہ ایک مروجہ نظریہ کے ذریعہ متحد ہوتی ہیں۔ اسی وجہ ہی سے ، قائداعظم نے عرب فاتح محمد بن قاسم کو پاکستان کا پہلا شہری قرار دیا تھا۔ اور مزید اسی وجہ سے ، پاکستان کا پہلا باضابطہ طور پر اعلان کیا جانے والا شہری آسٹریا کا ایک مسلمان دانشور محمد اسد تھا۔

محمد اسد کو یہ اعزاز نسل و قوم سے قطع نظر، مسلمانوں کے لیے خدمات کی بنیاد پر بخشا گیا تھا۔
ڈرامہ ارطغرل نے ٹھیک ایسا ہی کیا ہے اور پاکستانی عوام کے جذبات کی دلکشی کی ہے۔ اگرچہ کردار اپنے ترک ہونے پر بلا ججھک فخر کرتے ہیں ، لیکن وہ مسلم دنیا کے متفقہ مقصد کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور کسی بھی ثقافت سے تعلق رکھنے والے مسلمان کے جذبات اور طور طریقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

مسلمانوں کو بحت عرصے سے میڈیا میں مثبت نمائندگی سے محروم رکھا گیا ہے اور انھیں مغربی پروڈکشن میں اکثر شدت پسند یا دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ صرف ان مسلمانوں کو اچھا دکھایا جات ہے جو اخلاقیات ، سیاست اور مذہب میں مغربی ترجمانیوں کے مطابق زندگی بسر کریں۔ آسان الفاظ میں ، اچھا مسلمان وہ ہے کہ جو شراب پیتا ہے ، نکاح سے قبل ازدواجی معاملات رکھتا ہے اور مشرق وسطی میں مغربی سامراج کا وفادار ہے۔

دوسری طرف ، مستشرقین(orientalists) کے دقیانوسی تصورات سے پاک ، ڈرامہ ارطغرل مسلمانوں کی نمائندگی یوں کرتا ہے جو ان کی حقیقت پر مبنی ہے۔ مذہب اور معاشرے کے ساتھ عقیدت ، خاندانی اقدار ، انصاف کے حصول ، اخلاقی طور پر قابل قبول رومانویت ، اور نڈر قیادت اس ڈرامے کے انتہائی دلچسپ علامات ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ، خواتین مذہبی اعتبار سے صنفی حدود اور معاشرتی اصولوں کو ماننے کے باوجود ، قبیلے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

قبائلی اقتصادیات میں حصہ لیتی ہیں اور یہاں تک کہ لڑنے اور جہاں ضرورت پڑے قوم کی رہنمائی اور قیادت بھی کرتی ہیں۔ مسلم خواتین کے لئے ، شاید اس شو کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ آزادی ثقافتی اور مذہبی اصولوں کو ترک کرنے میں نہیں بلکہ معاشرتی اور مذہبی حدود کے دائرے میں رہ کر اس مثال کے تحت قیادت تیار کرنے میں ہے۔ ارطغرل کے دور حکومت میں شامل اقلیتوں کو بھی معاشرے میں ایک خصوصی مراعات کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے جس میں ریاستی سہولیات ، انصاف اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی کے برابر حقوق معیسر کیے جاتے ہیں۔


سبق آموز اور متاثر کن کہانیوں سے بھرا ہوا ، ڈرامہ ارطغرل نے وہ کام کر دکھایا جو پاکستانی سنیما کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ ارطغرل نے جدید مسلمانوں کو ماضی کی نامور اور ہمہ وقت کی متعلقہ اسلامی شخصیات سے جوڑا ہے ، جیسے عظیم فلسفی اور سوفیا کے ہاں شیخ الاکبر کا لقب پانے والے حضرت ابن عربی۔ جہاں تک یہ دعویٰ کہ یہ شو کسی دہشت گرد گروہ کی طرح ذہنیت کو متاثر کرے گا ، مجھے حیرت ہے کہ اس قد آور شخص کو اس طرح کے مضحکہ خیز تبصرے کا خیال بھی کیسے آیا۔

کیا انہیں واقعی لگتا ہے کہ دہشت گرد ٹی وی سیریز اور فلموں سے متاثر ہو کر دہشت گرد بن جاتے ہیں؟
جیسا کہ اقبال نے ایک بار مبینہ طور پر جناح سے کہا تھا کہ وہ اپنے سیاسی بیانیہ تبدیل کریں اور ہندوستانی مسلمانوں کو وہ دیں جو وہ چاہتے ہیں ، لہذا اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی سنیما اپنے ناظرین کو وہ کچھ دے جو ان کے جذبات کی دلکشی اور نمائندگی کرے۔ لوگوں کی نمائندگی کریں کہ وہ کیسے ہیں یا کم از کم تصوراً کیسے ہونا چاہتے ہیں۔ ان نظریات کو فروغ دیں جن پر وہ یقین کرتے ہیں۔ ارطغرل پاکستانی فلمی صنعت کے لئے بھیس بدلنے میں یہ ایک نعمت ثابت ہوسکتی ہے کہ وہ اس خطے کے ہیروز پر توجہ مرکوز کر کتے ہوے اسے معیار کے شوز پیش کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :