اغیار کے افکار و تخیّل کی گدائی

منگل 25 مئی 2021

Mohammad Hunain Khan

محمد حنین خان

1947ء میں پاکستان کی آزادی سے قبل ہندوستان تقریباً 200 برس کے عرصے تک فرنگی سامراج کی حاکمیت میں رہا۔ یہ 200 برس بر صغیر کی تاریخ میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔اس دورانیے میں ہندوستان نہ صرف ایک وحشیانہ سامراجیت کا شکار رہا بلکہ اس کے نتیجے میں خطے کی تاریخ کو بھی ایک عجیب موڑ سے دوچار ہونا پڑا۔بر صغیر میں قومی ریاست اور قوم پرستی اسی تاریخی پس منظر کا نتیجہ ہے۔

لیکن یہ اثرات صرف جغرافیائی تبدیلی اور معاشی گراوٹ تک محدود نہیں بلکہ اس خطے کی تہذیب و ثقافت اور فکری و معاشرتی رویے بھی اس تاریخی کشمکش کا شکار ہوئے۔ یہ تصور مشہور زمانہ فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید نے اپنی انقلابی کتاب” اورینٹیلزم“ میں پیش کیا ہے۔ اورینٹیلزم یعنی متشرقیت ایک ایسا علمی مباحثہ ہے جس کا تعلق قرون وسطیٰ دور میں مغربی ماہرین کی جانب سے مشرقی اقوام بلخصوص مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلمانوں پر کی جانے والی فکری تحقیق سے ہے۔

(جاری ہے)

سعید کے بقول ان تحقیقات کا ہدف ان تہذیبوں کو ان کی خصوصیت میں نہیں بلکہ ایک یورپی پس منظر سے دیکھنا تھا۔ اور یہی تحقیقات برطانوی سامراج کے ماتحت ہندوستان میں حکومتی حکمت عملی کا مفروضہ اولین بنیں۔
آپ کے ذہن میں اکثر یہ سوال اٹھتا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں انگریزی زبان کو علمی دانائی کا معیار کیوں سمجھا جاتا ہے؟ یا اس ملک کے انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ میں مغربی اقوام کو جبلی طور پر ہم سے برتر کیوں سمجھا جاتا ہے؟ تمام اقوام اسی آدم ہی کی اولاد ہیں یا سائنسی اعتبار سے بھی ایک ہی ارتقاء کا نتیجہ ہیں تو کسی قوم کا جبلی طور پر برتر ہونے کا سوال کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اس کا جواب بھی ایڈورڈ سعید اپنی کتاب میں دیتے ہیں۔

یورپی تہذیب کے ہاں یہ تصور پایا جاتا تھا کے وہ دیگر اقوام سے برتر ہیں اور یہ برتری نہ صرف قومی اعتبار سے بلکہ رنگ اور فہم کے اعتبار سے بھی ہے۔ اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہوے سابقہ وزیر اعظم اور برطانوی پارلیمنٹ کے رہنما آرتھر بیلفور نے 1910ء میں کہا تھا کے مشرقی اقوام خود مختاری کے قابل نہیں اور ان کو بلندی پر لے جانے کا واحد سلیقہ ان پر جبری یورپی حکومتوں کا قیام ہے۔

یوں یورپی حکومتیں جہاں بھی مشرقی اقوام پر مسلط ہوتیں وہ اس سوچ کو نہ صرف حکومتی حکمت عملی کا محور بناتی بلکہ اسی فکرکومقامی اشرافیہ میں بھی منتقل کر دیتی تھیں۔ مشہور کہاوت ”جیسا دیس ویسا بھیس“کے مصداق ہندوستان دیگر خطوں کی طرح برطانوی دیس کے ماتحت تھا اور مقامی اشرافیہ کا حصہ بننے کے لیے ضروری تھا کہ حکمرانوں جیسا روپ ہی اپنایا جائے۔

انگریزی لباس پہننا، انگریزی زبان بولنا، انگریزی موسیقی میں ذوق رکھنا حتیٰ کے زندگی کے ہر شعبے میں انگریزی تہذیب کی تقلید کرنا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جدید پاکستانی ریاست میں ثقافتی تقسیم بھی شاید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ملکی اعلیٰ اشرفیہ اور اداروں پر آج بھی فرنگی سامراج کے اثرات کو واضع طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یوں یہ طبقہ خود کو باقی تمام قوم سے برتر سمجھتا ہے اور قوم کی اکثریت اس طبقے کو سرے سے ہی سمجھنے سے قاصر ہے۔


اورینٹیلزم کا ایک اور پہلو مذہب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا انتشار ہے۔ مغربی مستشرقین کی تحقیق کی خاص توجہ کا مرکز دین اسلام تھا۔ اسلام میں خاص دلچسپی کی وجہ جناب حضرت عمر فاروق کے دور سے شروع ہونے والی رومی سلطنت کے خلاف کاروائیاں جو اب سلطنت عثمانیہ کی شکل میں یورپی سلطنتوں کے خلاف جاری تھیں۔ ایڈورڈ سعید(جو کہ خود بھی عیسائی تھے) کے بقول مسیحی علماء کے نزدیک اسلام مسیحت کے اندر ہی سے بنیادی عقائد کا انحراف کرنے کا نتیجہ تھا۔

ان کا گمان تھا کہ اگر وہ اسلام کو اس کی تہہ تک سمجھ سکیں تو وہ اس کا رد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں چودھویں صدی فرانس کے شہر ویین کی چرچ نے ایک تحقیقی کمیٹی کا انعقاد کیا۔ اس کمیٹی کا بنیادی مقصد اسلام اور مشرق وسطیٰ پر تحقیق کرنا تھا اور ایڈورڈ سعید کے بقول اورینٹیلزم کی علمی تاریخ کا یہ نمایاں ترین قدم ہے۔ ان تحقیقات کا پس منظر خاص طور پر مسیحت سے جڑا ہوا تھا اور ہدف ردِاسلام اور اس ”وحشیانہ“ قوم کو سمجھنا تھا جو صدیوں سے یورپ کو للکار رہی تھی۔

اگرچہ بالآخر یورپی سیاست نے مذہب سے جدائی اختیار کرلی مگر یہ سوچ یورپی یاداشت میں نقش ہو چکی تھی۔ اس بات کا تذکرہ یورپی دانشور اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما محمد اسد نے بھی اپنی کتاب ”روڈ ٹو مکہ“ میں نہایت دانشمندی کے ساتھ کیا ہے۔ یہ نقش نہ صرف آج کی مغربی سوچ پر اثر انداز ہے بلکہ ہماری مملکت کے بھی مغرب زدہ تعلیمی اداروں میں واضع طور پر دکھائی دیتا ہے۔

مغرب میں ایک طبقہ مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انتہا پسندی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو پاکستان میں بھی ایک طبقہ بلخصوص ایسے تعلیمی اداروں یا مذہبی عقیدت کو ناگواری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہی سوچ طلباء اور معاشرے میں منتقل کرتے ہیں۔آج شاید ہماری معاشرے کی مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی اس عمل کے موہونِ منت ہے۔ اسی وجہ سے انیسویں صدی میں ایک طرف جہاں ہمیں انگریزی تعلیم کی مخالفت کرنے والے علماء تو دوسری طرف سر سید احمد خان اسی نظامِ تعلیم کو مسلمانوں کی ترقی کے لیے لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

آج ہم غیر جانبدار انہ طرزِ عمل اپناتے تھوڑا سا غور کریں تو دونوں طبقات کے نقطہ نظر بجا تھے کیونکہ انگریزی تعلیمی نظام جہاں مسلمانوں پر منفی اثرات کا پیش خیمہ تھا تووہی اس کے بغیر مسلمانوں کے پاس ترقی کے لیے کوئی راستہ بھی نہیں تھااور نہ اب ہے۔
علامہ اقبال نے کہا ہے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
آج کا پاکستانی معاشرہ ان تاریخی واقعات ہی کے نتیجے میں مذہبی اور ثقافتی انتشار کا شکار ہے۔

ایک طبقہ مغربی تقلید کو ہی انسانی ترقی و دانائی کا معیار سمجھتا ہے مگر اس عقلی استدلال سے باہر نکل کر سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جبکہ دوسرا طبقہ مغرب سے یا اس طبقے سے آنے والی ہر چیز سے متنفر ہے اور یوں بنیادی تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم ہے۔ اس صورتحال میں کسی درمیانی راستے کا ہموار ہونا نا ممکن سا ضرور لگتا ہے مگر اس خلا کا خاتمہ کرنے کے لیے ہمیں ایڈورڈ سعید کے افکار رہنمائی بھی فراہم کر تے ہیں۔

جن میں سب سے پہلے ملک میں مروج نظام کا تنقیدی جائزہ لے کر ڈی کنسٹریکشن کی ضرورت ہے ۔مزید برآں اپنے ملکی نظام اور اس پر برطانوی راج کے اثرات کا جائزہ لیں اور اپنے سیاق و سباق کے مطابق جو چیزیں اہم ہوں انہیں اپنا لیں اور دیگر کو رد کر کے ایک متبادل سوچ یا نظام کو مستقبل کا نصب العین بنائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :