مذہب کی آڑ میں فتنہ پرستی

بدھ 8 دسمبر 2021

Muhammad Tayab

محمد طیب

ایک عرصہ ہوا لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتے آ رہے ہیں کہ ہم امن پسند مسلمان لوگ ہیں، ہمیں فتنہ پرستی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی سے بچنا چاہئیے کیونکہ یہ ہمارے دین کا شعار نہیں۔ تو جناب! آپ کی بات سن بھی لی، سمجھ بھی آگئی اور ہم ماننے کو بھی تیار ہیں لیکن ٹھہریں، اذان ہو رہی ہے۔ آئیں، سامنے اہل حدیث کی مسجد ہے۔ نماز پڑھ لیتے ہیں۔


میں مدینہ مسجد میں نماز پڑھتا ہوں۔
ارے تو کیا یہ مسلمان نہیں؟
نہیں بات وہ نہیں ہے۔ بس میں وہیں نماز پڑھتا ہوں۔
اس بات سے آغاز کا مقصد ایک عام مذہبی ذہنیت کو اجاگر کرنا ہے کہ ایک طرف تو وہ فرقہ واریت اور انتشار سے بچنا چاہتا ہے جبکہ دوسری ہی جانب ایک کلمہ گو کے پیچھے نماز سے گریزاں ہے۔اسی طرح پرتشدد عناصر جو دین کے نام پہ کالی بھیڑیں ہیں،دین کی اقدار کو پامال کر رہی ہیں۔

(جاری ہے)

اگر ہم پوری دنیا کا جائزہ لیں تو دینِ اسلام اپنی تعلیمات کی بنیاد پر اس روئے زمین کا سب سے مقبول اور سب سے قوی دین ہے مگر بد قسمتی سے ہماری مذہبی قیادت کا یہ المیہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے سطحی خیالات اور جذباتی خطابات کے ذریعے اول تو عوام کو اشتعال دِلاتے نظر آتے ہیں بعد ازاں جب اُس کے گھناؤنے نتائج سامنے آتے ہیں تو اعلانِ لاتعلقی کر کرکے اپنا دامن جھاڑنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

سیدھی سی بات ہیجب جاہل عوام کے سامنے ہر بات کو دین کا اصولی اور حتمی مسئلہ بناکر بیان کیا جائے گا تو لوگ اس پر عملدرآمد میں ذرا بھی تامل اور ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہونگے اور یہ سب سیالکوٹ سانحہ میں ہوا۔
آج سے تقریباً تین سال قبل اسی عنوان سے ایک بلاگ لکھا تھا۔آج سوچا کہ اس سانحہ پر اس کا اگلا باب لکھوں۔اس وقت بھی ایک خاص طبقے نے نشانہ مغلظات بنایا تھا خیر کیا گڑے مردے اکھاڑنے۔


 احکامِ شرعیہ کی یہ من پسند تشریح بڑی دلآویز ہے کہ جب ہمیں فائدہ نظر آئے تب ہم اس موقع کابھرپور فائدہ اٹھائیں وگرنہ اسے اسکے حال پر چھوڑ دیں۔ بھلا کوئی ذی شعور اور صاحبِ فراست آدمی ہمیں پارلیمانی زبان وانداز میں یہ بتانا پسند کرے گا کہ اپنے مخالفین کو جُوتا مارنے کی رسم کا آغاز کونسے شرعی اصول وضوابط کی بنیاد پر ہوا؟
مخالفین کو فقط اپنے ہم خیال نہ ہونے کے سبب غلیظ اور فحش گالیاں دینا کونسی خدمتِ دین ہے؟
گذشتہ کچھ عرصہ سے ایک خاص طبقہ ایک خاص جہت کو اپنے مفاد اور اپنی دکانداری کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

جو معاملہ سلمان تاثیر کے قتل سے شروع ہوا پھر کبھی نہ تھما۔ تاحال کچھ آوازیں صدائے باز گشت کی طرح سنائی دیتی ہیں جن میں کچھ معصوم جانوں کا ضیاع، آہیں اور سسکیاں بھی شامل ہیں۔ کئی ننھے اور کمزور ذہن ان نام نہاد ملاؤں کے مفاد کے چکر میں سولی تک جا پہنچے ہیں۔ جو شخص دوسرے کی جماعت، ایجنڈا یا قائد سے اختلافِ رائے رکھے ہر اُس شخص کو دین سے خارج کرنے کا ٹھیکہ کس بنیاد پر دیاگیا؟
جب کلمہ گو کے پیچھے نماز پڑھنے کی بات ہو،رب ذوالجلال کی بارگاہ میں سجدہ کرنے کی بات ہو تو ہم فقط یہ کہہ کر دور ہو جاتے ہیں کہ انکے عقائد کفریہ ہیں۔

ایسے لگتا ہے جیسے کسی کا دل چیر کہ دیکھ چکے ہوں؟
کیادین کسی کی لونڈی ہے؟
کہ جب جی چاہا اسکی اپنی من پسند تشریح کرڈالی، قانون ہاتھ میں لینا کونسی شریعت ہے؟
جہاں فقہاء اکرام سربراہِ مملکت کے فاسق ہونے کے باوجود اسکی اطاعت کا حکم دیتے ہوں وہاں ایسے اقدامات کی گنجائش ہرگز نہیں ہوسکتی۔
مذہب کے نام پر اپنا چورن بیچنے والوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جو جذباتی نعرے اور اشتعال انگیز تقاریر سُناکر انہیں برانگیختہ کیاگیا آج یہ تشدداس معاشرے کا ناسُور بن گیا ہے۔

جب منبر رسول ﷺسے احادیث رسولﷺ یا عشق رسولﷺ کے درس کی بجائے گالم گلوچ سنائی دے گی تو کیوں امید نا رکھیں کہ عام عوام اسے ایسے ہی پرتشدد واقعات کی حد تک لے نا جائیں گے۔ شاید انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقبال نے کہا تھا۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
 املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
نا حق کے لیئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
 شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
مذہبی جماعتوں کو اس وقت اپنا بیانیہ واضح کرنے کی ضرورت ہے،اسلام نے تو اپنا بیانیہ روزِ اول سے واضح کررکھا ہے کہ اسلام ہر طرح کے تشدد اور انتہاء پسندی کی بھرپور مخالفت کرتاہے۔

اسلام تو اس بات کا داعی ہے کہ راہِ اعتدال کے سوا کسی امر میں خیر نہیں۔سانحہ سیالکوٹ کے اسباب ومحرکات پر غور وفکر کریں اور بتائیں کہ کیا ہمارا یہ طرزِعمل کسی غیر مسلم کو اسلام کے قریب لا سکتا ہے؟
کیا آقا ﷺ نے غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک روا نہ رکھا؟
کیا یہ جو سب کچھ ہوا یہ دین کی قدروں کو منہدم کرنا نہیں کہلائے گا؟
بہت سے سوال ایسے ہیں جو ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرے ذہن میں ابھر رہے ہیں۔

لیکن افسوس کے سوائے سوالات کی بوچھاڑ اور منتشر خیالات کے ابنار کے سواء ذہن میں اور کچھ بھی نہیں آرہا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے ذہنی انتشار کے سواء میرے دامن میں کچھ بھی تو نہیں کچھ بھی۔
رحمت سید لولاک پہ کامل ایماں
امت سید لولاک سے خوف آتاہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :