مذہب اور سوشل میڈیا

پیر 14 ستمبر 2020

Mujtaba Farooq Awan

مجتبٰی فاروق اعوان

انسان اشرف المخلوقات پیدا کیا گیا ہے اور اسکی شناخت کا بھی انتظام کیا گیا ہے لیکن بطور مذہب، رنگ و نسل اور دیگر کے نہیں بلکہ خاندانی، اس شناخت کا کیسا استعمال کیا گیا ہے اس کا ذکر مقصود نہیں بلکہ جو بات کرنی ہے وہ مذہبی اشتعال انگیزی اور سوشل میڈیا کا استعمال ہے اس پلیٹ فارم کا کیسا استعمال کیا جا رہا ہے اور کرنا کیسے چاہیے تھا
تو بلاشبہ کوئی شخص بنا مذہبی جذبات اور عقائد کے اپنی شناخت نہیں رکھ سکتا بلکل اسی طرح مذہب بھی ایک ایسی شے ہے جو انسان کے پیدا ہونے سے پہلے انسان کے ساتھ جوڑ دی جاتی ہے مثلاً مسلمان کے گھر پیدا ہوا تو مسلمان، غیر مسلم کے گھر پیدا ہوا تو غیر مسلم، یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی فرد بھی منہ نہیں پھیر سکتا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک عادت عامہ معاشرے کی طرف سے جوڑ دی جاتی ہے کہ ہر شخص یہ بھی چاہے کہ میرا مانے گئے عقائد، مذہب اور نظریات پوری دنیا کے دو سو  سے زاید ممالک میں بھی مانا جائے اور ہر شخص میرے ہی مذہب، عقائد اور نظریات کی تبلیغ و تعلیم دے  اس کے مطابق عمل کرے، میرے ہی مذہب و عقائد اوع نظریات کا ہر طرف بول بالا ہو، ہر شخص صرف اس مذہب و عقائد کی بات کرے جو میں چاہتا ہوں بالفاظ دیگر کوئی شخص کسی دوسرے کے نظریات کو اس کے ساتھ چھوڑ دینے کو تیار نہیں یہ مسئلہ صرف مزہبی طبقہ کے مزاج میں بلکہ دوسرے تمام مکاتب کی فکر کا حصہ ہیں پھر وہ چاہے سیاسی ہوں یا سماجی تبدیلی کے خواہاں سوچیں
خیر تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سوچ کا سماج پے لاگو ہو جانا ممکن نہیں، اس کو کیسے کسی دوسرے معاشرے اور زمانے میں لاگو کیا جا سکتا ہے وہ پھر بزور طاقت ہو یا پھر تبلیغ و تدریج، بہرحال اس کو لاگو اور عام کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اب بس ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ
اس ضمن میں مختلف ذرائع کا استعمال بھی ضروری سمجھا جاتا ہے، ہوتا رہا ہے،اور ہوتا رہے گا، جیسے آج سے  کچھ دہائیوں پہلے تک تار یعنی خط و کتابت کا استعمال کیا جاتا رہا تھا جس کے ذریعے اپنے نظریات دوسروں تک پہنچائے جاتے تھا لوگوں کو اپنے نظریات و عقائد خود جا کر بتانا پڑتا تھا، جنگیں کرنا پڑتی تھیں، دوسرے عقائد و نظریات والوں کو تہہ و تیغ کر دیا جاتا تھا، صرف زمین کے ٹکڑے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے نظریات کا پرچار مقصود ہوتا تھا، اس کیلئے دوسرے ایک جیسے نظریات و عقائد و مذاہب کے لوگ اور سلطنتیں مدد و حمایت کے دروازے کھول دیتی تھیں، اس کیلئے جو جو پاپڑ بیلنے پڑتے، جو جو منفی و مثبت کام کرنے پڑتے کئے جاتے تھے، بعد اذاں سائنس کی ترقی تیزی سے شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے لینڈ لائن فون سے ہینڈ فون مارکیٹ کی زینت بنا، جو کہ بٹن والا موبائل یعنی نوکیا 3310 وجود میں آیا تو ذرائع مواصلات میں ایسا انقلاب برپا ہونے کی شروعات ہوئی کہ اب تک اپنے زور و شور سے جاری ہے اور دن بدن اس میں بہتری کی جا رہی ہے
کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا بنا بٹن کے موبائل-فون مارکیٹ میں آنا شروع ہوگئے اور  ساتھ ہی انسانی ذہن اس میں مزید بہتری لانے کیلئے متحرک ہوگئے اور اس سے جڑی دوسری کئی ٹیکنالوجیز وجود میں آئیں کچھ پیڈ (رقم سے وصول کی جانے والی) اور کچھ نان پیڈ (بغیر رقم کے)
اس ٹیکنالوجی سے بنائی جانی والی ایپز(Apps) کو بنا کر سوشل میڈیا کا نام دے دیا گیا جس سے  عام رابطہ بین الناس ممکن اور آسان ہوا اور یہ کہ لوگ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر کچھ بھی کہہ سن سکتے ہیں اور کچھ وقت کے بعد یہ بھی فری یعنی بنا بل کے ہونا شروع ہوا تو لوگوں نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اس کا استعمال شروع کیا
ان ہی مقاصد اور ضروریات میں مذہبی پرچار بھی تھا اور اسکے استعمال سے بجائے اس کے صحیح اور صادق مذہبی علوم کا پھیلاؤ ہوتا، عوام الناس تک صحیح علوم کی ترسیل ممکن بنائی جاتی، لوگوں میں باہمی محبت و الفت کا جز بہ اجاگر کیا جاتا لیکن اس کا استعمال 360 ڈگری الٹ کیا گیا، جس نے عوام الناس  کے سامنے وہ تصویر پیش کی جو وہ نہیں تھا، وہ علوم پہنچائے گئے جو تصیح چاہتے تھے ان علوم کے مطالب من مانی سے اخذ کیے گئے اور یوں ایک تیسرا طبقہ اپنی مرضی سے من مانی مذہبی توجیہات کا پرچار کرتا رہا یہاں تک کہ لوگ مذہب کو ایک بری بلا یعنی ایسی شے تصور کرنے لگے جو انسان کو انسان سے دُور کرنے میں کردار ادا کرتی ہے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا کرتی ہے، اس بات پر اکساتی ہے کہ تم لڑو یہاں تک کہ قیامت کی صبح نکلے، تو دوسری طرف ایک مقام پر بیٹھنے سے روکتی ہے، گو کہ یہ غلط مذہبی تصویر اسی مذہب کے ماننے والوں نے پیش کیا ہو یا کہ کسی دوسرے نے لیکن نتائج کیا نکلے، اس کی طرف آنے سے پہلے ہم دوسرے پہلوؤں پے بھی ذرا نظر دوڑانا چاہیں گے
کاش کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو دیکھ لیا جاتا، اسکی تبلیغ و تعلیم کا انداز محسوس کیا جاتا، بے روزگاری کو موت کے گھاٹ اتارے کیلئے خدمات پیش کی جاتیں یا پھر کسی بھی مثبت اور معاشرتی فوائد کیلئے کام.

کیا. جاتا تو کتنا بہتر ہوتا، بہر کیف
آج جب بھی سوشل میڈیا کی کو بھی ایپ کھولیں تو اور کوئی چیز ملے نہ ملے مذہبی اختلافات کی بنیادی کلپ، تصاویر اور انتہا پسندی ضرور ملتی ہے اس سے نجانے کیا فائدہ ہوتا ہو گا لیکن دوریاں اور فاصلے، قریب ہونے کے باوجود بھی ایسی بڑھیں کہ دوبارہ مل. بیٹھنا محال ہوا، یعنی ہم اس سے ملنے اور حاصل ہونے والے فوائد سے مالا مال ہوتے، بلکہ ہم نے یوں ایک جیتا ہوا میچ ہار
سوشل میڈیا کے مقاصد میں کیا کیا چیزیں شامل تھیں اس سے سوال نہیں لیکن جو کچھ اس کے ساتھ کیا گیا اس سے روگردانی ممکن نہیں، اس کو ایک اچھے مقصد کیلئے استعمال کرنے کی بجائے ہم نے انجان دشمن پالے ہیں جس سے نہ کبھی ملاپ ہوا، نہ.

سامنا ہوا اور نہ کبھی یہ سب ممکن ہو سکے گا لیکن ہے وہ ہمارا دشمن_
سوشل میڈیا نے جس طرح بعض مقامات پر ایک مثبت کردار ادا کیا تو اس کے ساتھ ہی منفی بھی کرایا گیا، اس کی وجہ سے معاشرے میں وہ نفرتیں، کدورتیں، اُن دشمنیوں نے جنم لیا جو کبھی ایک انسان کیلئے بِنا سوشل میڈیا کے ممکن ہونا تو کجا، سوچ بھی ممکن نہ تھی، گزشتہ ایک سو سال پہلے کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بہت کچھ ایسا ملے گا جو سوشل میڈیا کے بِنا ممکن نہ ہو سکتا تھا اور نہ ہو سکا، لیکن اب وہ سب کچھ ہو گیا
حالیہ دور کی بات کی جائے تو اس سے اندازہ لگانا ذرا برابر بھی مشکل نہیں، کیا کھویا اور کیا پایا، کہ کیا ہو رہا ہے اور معاشرے کو کس راستے پے ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے
اس ذریعہ مواصلات کے انقلاب کی وجہ سے جہان کتابوں سے دوری ہوئی وہاں رشتوں کی دوریاں بھی ممکن ہوئیں، جہاں لوگوں نے بہت کچھ پایا بھی، وہاں لوگوں نے سب کچھ کھویا بھی، جس مقام پر لوگ نے معلومات کی فراوانی دیکھی وہاں من گھڑت روایات نے زور بھی پکڑا یہاں تک کہ دس بندوں کو میسج کرنے سے جنت بھی واجب ہوئی، جنت جہنم کے سودے ہوے اور ہر ایک کو اسکا مقام بھی بتا دیا گیا، اور یوں اس طرح نرگ (جہنم) سے نجات بھی چند لمحات میں ممکن ہوئی
کاش دین اسلام کی سمجھ آئی ہوتی بلکہ اس کے حقیقی معنوں میں حکمت سمجھ آتی، میرے زیر مطالعہ آج کل ایک کتاب شعور و آگہی مولانا عبیداللہ سندھی کی لکھی ہوئی ہے، وہ کتاب انکے مختلف مضامین کا.

مجموعہ لگتی ہے لیکن جو بھی ہے، ہے کتاب _وہ ذاتی طور پر غیر مسلم سے مسلم ہوئے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے متاثر تھے، انکی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو شاہ صاحب کو پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور پھر اسلام کے حقیقی معنی سمجھ  آتے ہیں خیر آپ بھی پڑھیں
سوشل میڈیا کے استعمال سے معاشرے میں بد امنی، بے اعتمادی اور ہر وقت ایک نئے فتنے اور اشتعال انگیزی کا خیال رہتا ہے
دنیا کا کوئی مذہب بھی یہ بات نہیں سکھاتا کہ کسی دوسرے کی انفرادی زندگی کو نشانہ بنایا جائے یا پھر کسی دوسرے مذہب کی قیمتی املاک اور شخصیات کی بے حرمتی کی جائے بلکہ  دنیا بھر میں موجود ہر مذہب امن کا درس دیتا ہے اور اسلام تو امام المذاہب ہے، یہ تو دنیا کے تمام آسمانی مذاہب کا نچوڑ ہے اسلام تو راستے میں پڑے روڑے کو اٹھانے کو کہتا ہے وہ یہ سب کچھ کیسے سکھا سکتا ہے جسکا پرچار اس بگڑی صورت کے ساتھ سوشل میڈیا پے کیا جاتا ہے
اس کے بے دریغ استعمال سے بے شمار مسائل اب تک جنم لے چکے ہیں اس لیے اس ضمن میں کہنا چاہتا ہوں کہ سوشل میڈیا کا استعمال مثبت کیا جائے تو اس میں شخصیت کی بناوٹ میں بہتری، نئی نئی معلومات اور ہنر کا سیکھنا اور اس پر سوچنا اور اس جیسے بے شمار سوال و جوابات زندگی کا حصہ بنتے ہیں زندگی ایک برے راستے سے نکل کر راہ راست پر گامزن ہوتی ہے تو انسان مثبت جنگوں میں اترتا ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :