
بڑادشمن بناپھرتاہے
پیر 18 مئی 2015

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
انسانیت کے یہ دشمن 16 دسمبر 2014ء کوآرمی پبلک سکول پشاورکے معصوموں کے خون سے ہولی کھیل کربڑے اتراتے پھرتے تھے لیکن پھر چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ یہی بزدل چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں گھستے پھرتے اورپاک فوج کے جری جوان اُنہیں بلوں سے نکال نکال کرواصلِ جہنم کرتے رہے۔اب بھی کچھ چوہے اپنے بِلوں میں گھسے ہوئے ہیں جنہیں جہنم کاایندھن بنایاجا رہاہے ۔کوئی دِن جاتاہے جب میری سو ہنی دھرتی انسانیت کے اِن دشمنوں سے پاک ہوجائے گی ۔ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی میں ہونے والاالمناک ”سانحہ صفورا“بجھتے دیئے کی لَوہے کہ دِیاجب بجھنے لگتاہے تواُس کی لَو آخری باربھڑکتی ضرورہے ۔سانحہ پشاورپر پوری قوم نے یہ عزم کیاکہ وہ دہشت کے ہرنشان کوحرفِ غلط کی طرح مٹادے گی اوراب ”سانحہٴ صفورا“میں اِس عزم بالجزم کی تجدیدہوگئی۔ اسماعیلی کمیونٹی کی بَس پرحملہ انشاء اللہ دہشت گردی کے تابوت پرآخری کیل ثابت ہوگا ۔
اسماعیلی کمیونٹی کے اِن معصوموں کا قصورتھا توفقط اتناکہ وہ انتہائی محبِ وطن، شریف النفس اورمرنجاں مرنج لوگ تھے۔ مرنے والوں کی تعداد سینتالیس ہوچکی جن میں انیس خواتین بھی شامل ہیں۔ہمارے سپہ سالارجنرل راحیل شریف سری لنکاکے تین روزہ دَورے پرجانے کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ اِس سانحے کی اطلاع مِل گئی ۔اُنہوں نے اپنادَورہ منسوخ کیااور کراچی پہنچ گئے۔ وزیرِاعظم صاحب پاک چین اقتصادی راہداری پرمتفقہ موٴقف کے لیے آل پارٹیز کانفرنس میں مصروف تھے ۔وہ کئی گھنٹوں پر محیط اِس کانفرنس کے بعدانتہائی تھکن کے باوجود رات ہونے سے پہلے کراچی پہنچ گئے ۔پھرسیاسی اورعسکری قیادت سَرجوڑ کربیٹھی اوردہشت گردی کے خلاف اِس جنگ کوآخری اورفیصلہ کُن مرحلے میں داخل کرنے کے لیے اختیارکی جانے والی تدابیر کی نوک پلک سنواری جانے لگی ۔اعتراض ہواکہ وزیرِاعظم صاحب کانفرنس چھوڑکر فوری طورپر کراچی کیوں نہیں پہنچے ۔ایک صاحب جوبیک وقت کالم نگار،اینکر ،گلوکار ،اداکار ،مصلح اورپتہ نہیں کیاکیا کچھ ہیں ،نے اپنے کالم میں لکھا ”کمال تویہ ہے کہ کراچی میں لاشوں پر لاشیں اُٹھائی جارہی تھیں اورقوم کے ”عظیم رہنما“ ملکی تاریخ کے ”اہم ترین اجلاس“ میں آئس کریم ،کباب ،سموسے ،ڈرائی فروٹ اوردیگر ”اشیائے بحالیٴ توند“مزے لے لے کرتناول فرمارہے تھے ،کراچی جاناکسی کے لیے ضروری نہیں تھا ۔اسفندیار ولی نے آنکھیں نکال کرمنع کیاتو فضل الرحمٰن نے عام ساحادثہ قراردے کر نظرانداز کردیا ۔مشاہدحسین کے لیے اجلاس ضروری تھاکیونکہ ”آئس کریم “بہت اچھی تھی اورتحریکِ انصاف کویہاں سے ایک اوردھرنے کی خوشبو آرہی تھی“۔ محترم نے جوکچھ لکھا، شایددلی درد کے ساتھ لکھالیکن اُنہیں یہ غورتو کرناچاہیے کہ جوطاغوتی طاقتیں پاک چین اقتصادی راہداری کے پلان کوسبوتاژ کرناچاہتی ہیںآ خراُنہوں نے سانحہ صفوراکے لیے عین اُسی دن کاانتخاب کیوں کیا جس دِن وزیرِاعظم صاحب اسی اقتصادی راہداری کی بابت بلائی گئی آل پارٹیزکانفرنس میں مصروف تھے ۔صاف ظاہرہے کہ طاغوتی طاقتوں کا مقصدہی یہ تھاکہ افراتفری میں وزیرِاعظم صاحب عازمِ کراچی ہوں اور معاملہ لٹک جائے ۔ایوانِ وزیرِاعظم میں منعقدہ آل پارٹیزکانفرنس کے تمام شرکاء کایہ متفقہ فیصلہ تھاکہ کانفرنس جاری رکھی جائے ۔اگریہ کانفرنس منسوخ کردی جاتی توپاکستان کی ترقی کے دشمنوں کا ایجنڈاپایہٴ تکمیل تک پہنچ جاتا۔ کانفرنس کے شرکاء کے لیے ظہرانے کااہتمام پہلے سے کیاجا چکاتھا لیکن مصدقہ اطلاعات کے مطابق وزیرِاعظم صاحب نے دل گرفتگی کے عالم میں ظہرانے کی میزکی طرف رُخ ہی نہیں کیا۔ محترم لکھاری نے اپنے کالم میں بھی ذکرکیا اورہمارے سیکرٹری خارجہ اعزازاحمد چودھری نے بھی اسلام آبادمیں ہونے والی ایک تقریب میں برملا کہا ” پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اورداخلی معاملات میں ”را“ کی مداخلت کے ناقابلِ تردید شواہدسے بھارت کوباربار آگاہ کیاجا چکاہے ۔اگربھارت نے پاکستان کوعدم استحکام کاشکار کرنے والی کارروائیوں کا سلسلہ بندنہ کیاتو پھرپاکستان بھرپورجواب دیناجانتا ہے ۔بھارت اپنی حَد میں رہے اور”را“ کو بھی قابومیں رکھے “۔ افغانستان کے مختصردَورے پربھی وزیرِاعظم صاحب اورچیف آف آرمی سٹاف صاحب نے افغانی صدرکو ایسے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کیے جن سے ظاہرہوتا تھاکہ ”را“ کے ایجنٹ افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔افغانی صدراشرف غنی صاحب نے نہ صرف پاکستان کاموٴقف تسلیم کیابلکہ یہاں تک کہہ دیاکہ اُن کے پاس بھی ایسے ثبوت ہیں جن سے ظاہرہوتا ہے کہ ”را“کے ایجنٹ افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔ سانحہٴ صفورامیں یقیناََ”را“ ہی کاہاتھ ہے اورمقصد اُس پاک چائنہ اکنامک کوریڈور منصوبے کوثبوتاژ کرناجس کے منظرِعام پرآتے ہی بھارت کے پیٹ میں مروڑاُٹھنے لگے ہیں۔
چلتے چلتے کچھ ذکرکپتان صاحب کے ملتان کے جلسے کا۔ تحریکِ انصاف نے ملتان میں ہونے والے پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخاب کی ایک سیٹ کی خاطراپنے امیدوارکی حمایت میں جلسہ کرکے انتخابی ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔ یہ معاملہ الیکشن کمیشن جانے یاتحریکِ انصاف ،ہمیں دکھ ہے تو صرف یہ کہ خاں صاحب کے پاس سانحہٴ صفوراکے لواحقین کے دُکھ میں شریک ہونے کاتو وقت نہیں تھا ،کبھی خاں صاحب کی طبیعت خراب ہوتی رہی تو کبھی موسم کی ، اسلام آبادسے کراچی تک خراب موسم کے باوجودجہاز اُڑان بھرتے رہے لیکن خاں صاحب کاطیارہ نہ اُڑسکا البتہ یہی طیارہ ”خوشی خوشی“ملتان ایئرپورٹ پرپہنچ گیا۔ سانحہٴ صفوراکے لواحقین سے تعزیت تورکھیں ایک طرف ،تحریک کے جلسے میں توناچ گانے کاوہی عالم تھاجو اب تحریک کے جلسوں کی پہچان بن چکاہے ۔اِس دفعہ توشاہ محمودقریشی صاحب بذاتِ خود”روسٹرم“پر کھڑے ”تھرکتے“ پائے گئے ۔کم ازکم صرف دودِن پہلے ہونے والے دِلخراش سانحہٴ صفوراچورنگی کاہی خیال کرلیا جاتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.