
خان صاحب ،جان دیو
جمعہ 29 اگست 2014

قاسم علی
واہ شیخ جی واہ کیا بات ہے آپ کی سب سے پہلے تو آپ کی سیاسی فراست کی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ آپ نے ایسی بات کر کے جہاں بیک وقت عمران خان اور وہاں پر موجود ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمند رکو خوش کیا ہے وہیں ''ناکامی کی صورت میں میرا نام نوازشریف رکھ دیا جائے ''کہہ کر اپنا دل بھی لبھانے کی کوشش کی ہے کہ وزیراعظم تو ہم بننے سے رہے (کہ اس پر ان کے نئے قائد جناب عمران خان نے نظریں گاڑھ رکھی ہیں) چلو وزیراعظم کا نام ہی مل جائے تو یہ بھی میرے لئے کسی سعادت سے کم نہیں ہوگا کسی شاعر نے یقیناََ کسی ایسے ہی موقع کیلئے کہا ہوگا
جیتوں تو توُ میرا ہاروں تو پیا تیری
####
(جاری ہے)
ان دو خبروں سے کم از کم دو باتوں کی سمجھ تو ہمیں آ گئی ہے ایک بات تو یہ سمجھ میں آئی کہ خاں صاحب کو نیا پاکستان بنانے کی اتنی جلدی کیوں ہے مگر سوال یہ ہے عمراں خان کو اپنی شادی کی اتنی جلدی کیوں ہے ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے اگر میری اس بات کو اگر کوئی مذاق سمجھ رہاہے تو یقیناََ اس کو سیانوں کی یہ بات یاد نہیں ہوگی جس میں انہوں ے کہا ہے کہ ''آدمی اپنی عمر سے نہیں بلکہ اپنے کردار اور گفتگو سے بڑا ہوتا ہے''اور جن اصحاب ِ عمران نے گزشتہ دو ہفتوں سے خاں صاحب کی معرکة الآراتقاریر سماعت فرمائی ہیں وہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ خاں صاحب نہ صرف ابھی نابالغ ہیں بلکہ سیاست میں بھی طفل مکتب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جس کی تصدیق ان کے یاربیلی وہم پیالہ بھی خفیہ طور پر کرتے نظرآتے ہیں جو کل تک انہیں کپتان کپتان کہتے نہیں تھکتے تھے ۔ویسے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خاں صاحب جب تک نیا پاکستان بنائیں گے اس وقت تک وہ خود جتنے پرانے ہو چکے ہوں گے اس وقت انہیں دلہن نئے تو کیا پرانے پاکستان سے بھی نہیں ملے گی ۔دوسری جس بات کی سمجھ آتی ہے وہ اس دھرنے اور لانگ مارچ کی ناکامی ہے کیوں کہ اس کے پیچھے ان بیچارے کنواروں کی بددعاوٴں کا ہاتھ ہے جنہوں نے شادی کے حسین سپنے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے مگر عمران و قادری کے حکومت کو ختم کرنے کیلئے کئے گئے لانگ مارچ اور دھرنے حکومت کو تو شائد ہی ختم کرسکیں البتہ ان کے خوابوں کو ضرور چکنا چور ہوکرگئے اور ان کے دلوں کو توڑ گئے اور یہ کون نہیں جانتا کہ اللہ ٹوٹے ہوئے دلوں کی پکار ضرور سنتا ہے اور ان کی پکار یقیناََ یہی ہوگی کہ جس طرح انہوں نے ہمیں ناکام کیا ہے اسی طرح اے اللہ ان کا دھرنا بھی کامیاب نہ ہونے پائے ۔
عمران خان کی اس بات کو سن کر تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ خان صاحب جان دیو۔۔۔۔کیوں کہ اگر ان کے دیگر مطالبات جن کو اگر حکومت مان رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کم از کم آئندہ ہونے والے انتخابات تو صاف شفاف ہوں گے جن کے ذریعے ایماندار قیادت سامنے آئے گی تو خاں صاحب کو بھی ''میں نہ مانوں ''کی ضد چھوڑ کر جمہوری رویہ اپنانا چاہئے ویسے بھی اگر ان کی اس بات کو صحی مان لیا جائے کہ ان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے شفاف انتخابات کیلئے اقدامات نہیں ہوسکتے تو ان کو کون سمجھائے کہ اگر وہ وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے انتکابات میں اتنی بڑی دھاندلی کروا سکتے ہیں (عمران خان کے بقول)تووہ آئندہ بھی ایسا کرتے ہوئے حکومت کے تمام امور پر اثڑانداز ہوسکتے ہیں خصوصاََ ایسے میں تو ان کا کام مزید آسان ہوجائے گاجب اسمبلیوں اور سینٹ میں حکومت ان کی پارٹی کی ہی ہوگی۔لہٰذا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ خاں صاحب وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور حکومت اور قوم کو اس مخمصے سے نکالیں جو پہلے ہی قوم کو اب تک تقریباََ ایک ہزار ارب کا چونا لگا چکا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
قاسم علی کے کالمز
-
فیک بک
بدھ 10 مئی 2017
-
سوشل میڈیا کا بے ہنگم استعمال اور ہمارے معاشرتی رویے
پیر 13 مارچ 2017
-
رجب طیب ،امت مسلمہ اور امریکہ
جمعرات 24 نومبر 2016
-
امریکی جارحیت کا پردہ چاک کرتی جان چلکٹ رپورٹ
ہفتہ 9 جولائی 2016
-
اور اب قوم کے معمار بھی سڑکوں پر
جمعہ 3 جون 2016
-
نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے؟
جمعرات 31 مارچ 2016
-
ہوکائیدو سے دیپالپور تک
جمعرات 28 جنوری 2016
-
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
بدھ 28 اکتوبر 2015
قاسم علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.