آخر کب تک ؟

پیر 14 ستمبر 2020

Sadia Rehman

سعدیہ رحمان

جنسی زیادتی یہ وہ لفظ ہے جو گزشتہ دنوں بلکہ ، مہینوں نہیں شاید عرصے سے زبان زد عام ہے ۔ ہر  گزرتے دن ہمارے خبروں میں ایک خبر اسی کے متعلق تو ہوتی ہے۔ اب تو شاید یہ لفظ اپنی تمام تر توجہ، حساسیت اور اس میں چھپی سسکتی، بلکتی ہوئی داستانیں کھونے دینے کو ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کسی چیز کی اہمیت ختم کرنی ہو تو اس کو اس قدر عام کردو کہ کان سننے اور آنکھیں دیکھنے کی عادی ہو جائیں اور یہاں بھی کچھ ایسا معاملہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔

آئے دن جنسی زیادتی کے کیسز کی پٹی چلتی ہے دیکھنے والے دیکھتے ہیں، ٹویٹر پر چند لفظی ٹاپ ٹرینڈ کا ٹیگ لگتا ہے، فیسبک پر کہرام مچتا ہے، انسٹاگرام پر دھڑا دھڑ تصویریں چسپاں کی جاتی ہیں ، یوٹیوب پر پیسے کمانے کو مواد میسر آجاتا ہے، واٹس ایپ رشتہ داروں کو دکھانے واسطے دو لفظی تعزیت نامہ لگایا جاتا کہ بھئی بہت افسوس کی خبر سننے کو ملی لو تم سب بھی اب پڑھ لو اور پھر مل ملا کر ان تمام افسوس بھرے جملوں کو یکجا کیا جاتا ہے جن کا لب لباب سر عام پھانسی کی سزا ہوتا ہے اور پھر نیا دن آ جاتا ہے اور نیا ٹرینڈ چل پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ تو ہوگیا عام عوام کی طرف سے کھیلا جانے والا یکطرفہ کھیل جس میں ہر نئے کیس آنے کے بعد شدت نظر آتی ہے۔ لیکن بات یہاں آکر ختم نہیں ہوتی ایسے ہر قضیے کے بعد کچھ آنٹیاں بینرز اٹھائے آ جاتی ہیں جن کا مقصد صرف عورت کو آزاد کرانا ہوتا ہے، مذہب سے روایات سے اخلاقیات سے۔  انہیں غرض ہوتی ہے تو صرف نام نہاد آزادی سے، ان چھوٹے موٹے مسائل اور ان سے جڑی سزاوں سے انہیں کیا غرض۔

چلیں چھوڑیں اب بات کرتے ہیں ان ناسوروں کی جن کے نزدیک پھانسی کی سزا سے سماج کے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے بھئی سلام ہے ان کی دور اندیشی کو ۔۔۔۔۔یہ لوگ کیا کیا نہیں سوچ لیتے۔
مگر اس سب کے بعد دماغ کی نسیں تو تب پھٹتی ہیں جب ضمیر بیچ کر اقتدار اعلیٰ سے چمٹے ہوئے بونے مہمل گوئی کرتے نظر آتے ہیں جس کے لیے اس مجرم کو سزا دینے میں دشواری ہے ، قانون پاس کرنے میں دشواری ہے مگر معاشرے کے بچوں اور عورتوں کی عصمتوں کی پامالی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔

ان آنکھوں سے نابینا لوگوں کو انسانوں کے روپ میں موجود بھیڑیے نہیں دکھائی دیتے جو سماج، انسانیت اور سب سے بڑھ کر مذہب کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کیے جارہے ہیں اور تف ہے ہم پر جو آج اتنے حادثات ہوجانے کے باوجود بھی وہیں تماشائی بنے کھڑے ہیں۔ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟؟
یاد رکھیں! جب مجرم کو سزا نہیں ملتی تو جرم اپنی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جاتا ہے کیونکہ اسے جرم کرنے سے قبل اپنی سزا کا ڈر نہیں ہوتا اور آج ان درندوں کی پشت پناہی کرنے والے ، ان کو خطرناک سزاؤں سے رکوانے والے صرف ہمارے مستقبل کو غیر محفوظ اندھیر ڈگر میں ڈال رہے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :