آزادی !

پیر 17 اگست 2020

Sadia Rehman

سعدیہ رحمان

كبهى سوچا ہے آزادى كا مفہوم كيا ہے؟
اس آزادى كے ليے ہمارے بزرگوں نے اس قدر خون كيوں بہايا ہے؟
كشمير و فلسطين كے لوگ اپنى جانوں كى پرواه كيے بنا كيوں دشمن كے سامنے سينہ سپر ہوجاتے ہيں؟
كيا فائده ہے آزادى كا ؟ بس كها پى كر چند دن كى زندگى ہى تو گزارنى ہے كيا فرق پڑتا ہے كہيں بهى گزار لو!
آزادى مانگنے والے اتنے نڈر كيوں ہوجاتے ہيں ؟
پتا نہيں، شايد ہمارى آج كى نسل صحيح معنوں ميں ان سوالوں كے مفہوم سے نا واقف ہيں .

(جاری ہے)


كہنے والے يہ بهى كہتے ہيں آزادى حاصل كر بهى لى تو كيا فرق پڑتا ہے تمهارے ذہن تو آج تک غلام ہيں!
ہاں شايد ٹهيک ہى كہتے ہيں، ليكن جب اپنے كشمير و فلسطين و برما كے مسلمانوں كى حالت زاركو ديكهتے ہيں تو خيال آتا ہے نہيں يارو! ذہنى آزادى اپنى جگہ پہلے جسمانى آزادى تو حاصل كر لو كيونكہ جب سانس لينے كے ليے كهلى فضا ميسر نا ہو تو گهٹن بڑھ جاتى ہے ، ہر طرح خوف و وحشت كا عالم ہو تو زندگى تنگ پڑ جاتى ہے ، روز جب جنازے اٹهاۓ جاتے ہوں تو بدلے كى آگ ، بغاوت و غصہ نس نس ميں بھر جاتا ہے پهر يہى آزادى كے متوالے جاں سے گزر جانے كے ليے دشمنوں كى گوليوں كا نشانہ بننے سے خوف نہيں كهاتے ، جيلوں كى صعوبتيں جهيلنے كا خوف نہيں كهاتے ، مائيں يكے بعد ديگرے اپنے بيٹوں كو قربان كرنے سے نہيں ہچكچاتى ، باپ اپنے بڑهاپے كے سہارے كى لاش كو كندها ديتے وقت آنسو نہيں بہاتے بلكہ آزادى كا نعره لگانے والوں ميں ان كى آواز سب سے بلند ہوجاتى ہے -
آزادى كى قدر پوچهنى ہے تو انہى سے پوچهو جو اغيار كے ظلم سہتے سہتے ہمت كهوتے جارہے ہيں، لوگو! ہمارا وطن پاكستان بهلے ہى تيسرى دنيا كى كيٹگرى ميں آتا ہے ، بهلے ہى ہمارى بنيادى ضررويات كو پورى كرنے سے قاصر ہے ، بهلے ہى غيروں سے پاكستانى ہونے طعنہ ملتا ہے، بهلے ہى ہم اپنے حكمرانوں كو ناپسند كرتے ہيں ، بهلے ہى مشكلات اور پريشانيوں ميں گهرے ہوۓ ہيں ليكن ايک پل كو آنكهيں بند كر كے تصور ميں اپنے كشميرى و فلسطينى بہن بهائيوں كو لائيں تو روح ميں كپكپى ضرور طارى ہوگى آنكهيں كهلنے پر شكر الحمدلله كا كلمہ ضرور ادا ہوگا كيونكہ آزادى ہے ہى ايسى نعمت - ہمارے دين كا فلسفہ زندگى بهى تو يہى ہے كہ سانسيں كسى غير كى محتاج نا ہوں ، ہمارے اعمال كسى كى زور زبردستى پر منحصر نا ہوں - اب الحمدلله جب ہم ايک آزاد ملک كے باسى ہيں تو ہمارى ذمہ دارى كى لسٹ زرا لمبى ہوجاتى ہے، جہاں نا صرف اپنے ملک كى ترقى كے ليے كوششيں كرنى ہيں بلكہ ذمہ دار شہرى ہونے كے ناطے اپنے فرائض كو بخوبى ادا كرنا ہے پهر مسائل بهى آپ ہى ٹهيک ہوجائيں گے ليكن اس كے ساتھ بحيثيت مسلمان اپنے بہن بهائيوں كے دكھ درد كو بهى محسوس كرنا ہے نبى كريم صلى عليہ وسلم كى حديث مباركہ كا مفہوم بهى تو يہى ہے نا كہ مسلمان وه ہے جو اپنے مسلمان بهائى كے جسم كے درد كو اپنے جسم پر محسوس كرتا ہے تو ايک پل كو سوچيں كيا ہميں اپنے كشميرى و فلسطينى بہن بهائيوں كا درد محسوس ہوتا ہے- اگر ايسا ہے تو كيوں ہم خاموش بيٹهے ہيں ، ہمارى آوازيں اتنى بلند كيوں نہيں ہيں ، اس پار بيٹهے ہمارے بهائيوں كو اتنى ڈهارس ضرور ملنى چاہيے كہ وه اكيلے نہيں ہيں كوئى تو ان كے ليے دوسرى طرف سے صدا بلند كر رہا ہے ، يہ جو غير ہوتے ہيں انہيں كوئى ہمدردى اور شوق نہيں ہوتا كہ سچائى كو كهنگالتے پهريں وه اسى پر يقين كرتے جو سامنے ہوتا ہے اور بدقسمتى سے ہمارے دشمنوں كے جهوٹ كى آواز بهى اتنى بلند ہے كہ ہمارى سچائى كى آوازيں دب جاتى ہيں كيونكہ سواۓ چند ايک كے باقى سب مسلمان بجاۓ متحد ہونے كہ اپنے اپنے مفادات كے اسير ہيں اگر ايسا ہے تو چهوڑو انہيں تم اپنے قوت بازو پر بھروسہ كرو غزوه بدر ميں بهى صرف تين سو تيره لوگوں نے كافروں كى تين گنا فوج كو شكست دى تهى نا بس ہمت ، حوصلہ اور لگن چاہيے پهر الله كى مدد بهى شامل حال ہوگى- ان شاء الله
پاكستان زنده باد
كشمير بنے گا پاكستان

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :