معاشرتی امن کے لئے صحافتی کردار

جمعرات 17 دسمبر 2020

Sadia Younus

سعدیہ یونس

دور حاضر میں میڈیا کسی بھی معاشرے یا قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا دیکھائی دیتا ہے۔آج کل ہر انسان اپنے اردگرد کے ماحول کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انسان دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے اور بدلتے حالات اور بدلتی دنیا میں اپنا مقام اپنی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ لگانا چاہتا ہے۔

یہ سب معلومات اور آگاہی اسے میڈیا کے ذریعے ملتی ہے۔دنیا میں ہونے والے کسی بھی اہم واقعے کی اطلاع یا خبر ہمیں میڈیا کے ذریعے ملتی ہے۔ صحافت ہمارے تجسس کو پورا کرتی ہے ۔ میڈیا ذمہ داری کے ساتھ اپنی اس طاقت کو مثبت انداز میں ملکی ترقی اور معاشرتی ہم آہنگی کے لئے استعمال میں لاتا ہے اور بہت سے معاشروں میں اپنائیت اور باہیمی رواداری کو فرو غ دیتا ہے۔

(جاری ہے)

دوسری صورت میں میڈیا انتشار نفرت ہیجان اور شدت کو فروغ دینے کا باعث بن رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ صحافی تنازعات کی اطلاع دہندگی کی طرف راغب ہو رہے ہیں ۔
جوہن گالٹنگ نے 1970کی دہائی میں امن صحافت کی اصطلاح تیار کی تھی کہ امن صحافت امن کی حمایت کرتی ہے امن کے ثمرات کو واضح کرتی ہے ۔اس میں تنازعات اور حالات کا تجزیہ کرنے پر توجہ دی جاتی ہے ۔

اسے بعض اوقات ”حل صحافت “یا ”تعمیر صحافت“ کے طور پر بھی بیان کیا جاتا ہی۔امن صحافت کے حامیوں کا موقف ہے کہ امن صحافیوں کو مسئلے کا حصہ بننے کے بجائے ہاتھوں ہاتھ مسئلے کے حل کا حصہ بننا چاہیے۔لہذا ایسے صحافیوں کو نہ صرف رپورٹر کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے بلکہ امن سازوں کی حیثیت سے بھی دیکھا جانا چاہیے۔ امن صحافی تنازعات کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ ان کے جسمانی اور نفسیاتی نتائج جیسے معاملات پر بھی غور کرتے ہیں ۔

نظریاتی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صحافی جنگ کے خلاف ہیں لیکن حقیقت ہیں تنازعات کے دوران انھیں اس طرف جانے میں مجبور کیا جاتاہے ۔ایسے منظر نامے میں نظریہ پسند بننے والوں کو اکثر پرتشدد نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثالی طور پر امن صحافیوں کو تنازعات میں پھستے ہوئے معاشرے کے دکھوں کے ساتھ ساتھ قصورواروں کی شکایت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔


میڈیا ایک اہم ستون ہے آج کل کے جدید دور میں صحافت مکمل طور پر ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔عوام کا بڑے پیمانے پر خبروں کر حصول کے لئے صحافت پر اعتماد اس کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے اور آج کل کے دور میں اخباروں کے ساتھ انٹرنیٹ،ٹیلی ویژن ،اور ریڈیو بھی عوامی مواصلات کا حصہ بن چکے ہیں․آن لائن سوشل نیٹ ورک کے علاوہ عالمی سیٹلائٹ سٹیشینوں نے مواصلات نظام میں جیسے برق رفتاری لا دی ہے۔

صحافت نے اپنی حیثیت اس طرح منوائی ہے کہ دنیا اسے ”چوتھی طاقت “ کا نام دیتی ہے۔ صحافت کا مقصد نہ تو کسی ٹیکنالوجی سے بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی صحافیوں سے یا ان کے صحافتی فن سے بلکہ کچھ اہم اور بنیادی باتوں کے ذریعے اس مقصد کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔ صحافت کا مقصد شہریو ں کو ایسی اطلاعات فراہم کرنا ہے جس کی انھیں ضرورت ہو اور شہری اس حاصل معلومات کی بنیاد پر اپنی زندگی قومیت اور سماج اور اپنی حکومت کے بارے میں بہتر رائے قائم کر سکیں۔

امن صحافت کا مقصد خبر میں سچائی ہونا،جھوٹ کا عنصر نہ ہو ،صحافی شہریوں کی ترجیحات کو مقدم رکھے۔صحافی کو چاہیے کہ خبروں کی اشاعت میں بحث وتحقیق کے نظام کو بحال رکھے، عوام کی حریت کا خیال کرے صحافت کا استعمال بطور آزادی طاقت ورنگراں ہو، عوام کو اپنی رائے پیش کرنے اور مسائل کے تصفیہ کے لئے مجال فراہم کرے۔صحافت پیشہ سے منسلک افراد کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی رائے کا استعمال کریں ۔


سچائی، ایمانداری اور جدوجہد یہ وہ تین بنیادی اثاثے ہیں جس پر بنیاد پاکر کوئی بھی شعبہ اپنے اعمال کو بحسن و خوبی شفافیت کے ساتھ انجام دے سکتا ہے۔ صحافت نے شفافیت ،متواضعیت اور اصالت کی تین اصطلاحات پر صحافی کردار کی بنیاد رکھی البتہ اس بنیاد کا تصور سچائی ایمانداری اور جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ۔ صحافی اپنا کام اس طرح پیش کرے کہ قاری ،ناظرین اور سامعینان کی باتوں پر یقین کرنے میں کسی دوسری ذرائع کا محتاج نہ ہو۔

صحافی کو متواضع اور منکر اور امزاج ہونا چاہیے، اسے اپنی معلومات پر فخر اور تکبر نہ ہو ایک صحافی کی واقعیت اس بات میں بھی ہے کہ وہ افتراضی نہیں ہوتاہے۔اس کی خبریں حقیقت کا عکس پیش کرتی ہیں خبر کی معلومات حقائق پر مبنی ہوں ایسا نہ ہو کہ صرف دوسروں کی معلومات پر انحصار کیا گیا ہوبلکہ خبروں کی اطلاع میں خود محنت کی گئی ہوجس میں اباعیت کی جھلک دکھائی دے۔

اگر صحافی کے اس عمل کے محورخبر پر غور کریں تومعلوم ہوگا کہ ایک صحافی بیک وقت اس خبر کا ”عینی شاہد “ بھی ہوتا ہے مخبر بھی اور مورخ بھی اور ناانصافی کی جگہ مصنف بھی۔
ایک اچھا صحافی ہمیشہ اپنے معاشرے کی فلاوٴبہبود اور معاشرتی امن کا خیال رکھتاہے۔صحافی معاشرے کے تنازیات کے حل کے لیے ایک اچھا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ملکی صلامتی یا ملکی مفاد کے معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک امن صحافی کو ہمیشہ ایسا انداز اپنانا چاہیے کہ ایک صحافی معاشرے اور ملک میں انتشارکا باعث نہ بنے بلکہ ایک اچھے صحافی کو امن کے فروغ کے لئے کام کرنا چاہیے۔ کسی بھی صحافی کے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ یا زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہمیشہ امن کے فروغ کے لئے ہونا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :