آخر کب تک؟؟؟

جمعہ 11 ستمبر 2020

Safoora Khalid

صفورا خالد

"روڈ پر عورت کا ریپ"
"بچوں کے سامنے ماں کو درندگی کا نشانہ بنا دیا گیا"
اور ناجانے کیا کیا شہ سرخیاں
ہر چینل کے تقریبا پرائم ٹائم شو سے لے کر ہر ٹاک شو میں یہی مدعا زیر بحث ہے
اس بحث کی وجہ اس کا کوئی حل نکالنا ہے؟ ہر گز نہیں۔۔۔ بس مقصد صرف اتنا سا ہے کہ اس حساس معاملے کو کیش کیسے کروانا ہے۔۔ ریٹنگز کیسے لینی ہے۔

۔ کچھ ماہرین، مایہ ناز ماہرین اور اکابرین کا مکسچر سا بنا کر سکرین پر پیش کیا جاتا ہے سوالوں جوابوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے مزید چار چاند لگانے کو وکٹم کے عزیز و اقارب کو بھی لائن اپ کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔( کوئی جا کر کے درندوں کے گھر والوں سے نہیں پوچھتا کہ آپ کے گھر اس درندے نے پرورش پائی آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟؟؟؟* اس درندے سمیت اس کے گھر والوں پر سوالوں کی بوچھاڑ کیوں نہیں ہوتی؟ وہ شرم سے مر کیوں نہیں جاتے یہ سوال کیوں نہیں پوچھا جاتا؟؟؟) بے وقوف عوام اپنے من پسند مکسچر کی تائید کرتی ہے اور یہ سلسلہ دو چار دن چلتا ہے اور پھر ایک نیا مسئلہ آ جاتا ہے۔

(جاری ہے)

۔ اور دو دن پہلے کا مسلئہ حل نہیں ہوا ہوتا وہ پرانے مسئلوں کی کھیپ کا حصہ بن جاتا ہے۔۔
 اسی سلسلے میں ایک اعلی حضرت نے اپنا موقف دیا جناب نے فرمایا کہ عورت آدھی رات کو سفر پر بچوں کے ساتھ نکلی ہی کیوں؟؟؟ ( اور بہت سے بیمار ذہن لوگوں نے ہاں میں ہاں ملائی ہاں ہاں کیا ضرورت تھی اسے؟؟؟ کیوں گئی باہر؟؟ کوئی یہ نہیں سوچے گا کہ خدا جانے پس منظر کیا تھا اس کو کوئی کام ہو سکتا تھا ضروری۔

۔ ہو سکتا ہے کوئی مرد نہ ہو اس کے گھر میں۔۔ ہو سکتا ہے وہ گھر ہی جا رہی ہو سو طرح کہ مسئلے ہو سکتے ہیں مگر افسوس چھوٹی ذہنیت کے چھوٹے لوگوں پر ) حضرت سے ایک سوال کہ یہاں تو گھروں میں بچیاں محفوظ نہیں اور ان کو نوچ ڈالنے والے درندے اب تک اپنے منتقی انجام کو نہ پہنچے اس پر آپ کیا کہیں گے؟ کیا گھر میں رہنا بھی چھوڑ دیا جائے؟ پولیس حکام فرماتے ہیں علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ یہاں اس قسم کی وارداتیں عام ہیں تو کوئی پوچھے گا پولیس حکام سے کہ جس علاقے میں وہ تعینات ہے اپنی ڈیوٹی پر اس علاقے کے علاقہ مکین جب یہ جانتے ہیں تو صاحب آپ کیوں بے خبر ہیں ان قسم کی وارداتیں عام ہونے کی نوبت کیونکر آئی؟ اور عام وارداتوں کا علم بھی آپ کو علاقہ مکینوں سے ہی پتہ چلنا ہے تو آپ اپنی نوکری سے بر طرف کیوں نہیں ہو جاتے کیونکہ آپ سے ذیادہ معلومات تو علاقہ مکینوں کو ہے۔

۔۔ مسئلہ عورت کے دوپٹہ نہ پہننے کا اتان نہیں ہے جتنا بیمار ذہنوں کا ہے جن میں ہوس اس قدر ہے کہ وہ جب ایک جانور کو نہیں چھوڑتے تو عورت تو پھر انسان ہے۔
ناجانے ہمارے معاشرے میں ہوس کے پجاریوں کے لاشے ہمیں کب چوراہوں پر لٹکے نظر آئیں گے۔ کب چیل کوؤں کو ان کے مردہ جسموں سے بوٹیاں نوچتا دیکھ سکیں گے بلکل اسی طرح جس طرح یہ معصوم بچوں سے ان کی معصومیت نوچ لیتے ہیں عورتوں کی عزتیں نوچ لیتے ہیں۔
خدا کرے کہ بہت جلد یہ وقت آئے کہ جو حفاظت پر معمور ہیں وہ حفاظت کا طریقہ جان جائیں۔
خدا کرے کے وہ وقت آئے کہ بیان بازیاں ختم ہو جائیں اور عملی طور پر کچھ ہوتا نظر آئے۔۔ خدا انصاف فراہم کرنے والی کرسیوں پہ بیٹھے ہوئے ناخداؤں کو انصاف فراہم کی توفیق دے دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :