جشن آزادی مبارک

جمعہ 14 اگست 2020

Safoora Khalid

صفورا خالد

جیسے ہی گھڑی کی سوئی سوئی پر آئی اور رات کے بارہ بجتے ہی 14 اگست 2020 شروع ہو گیا۔  منچلے نوجوان (جن میں سے تقریباً کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر نوکریاں نہیں ہیں، بیشتر جو حصول ڈگری کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں سے بہت کھینچ تان کر کے 25 فیصد (شاید یہ بھی ذیادہ بتا دیا) وہ ہیں جن کا مقصد تعلیم ہی ہے وہ دل دماغ جان مال سب لگا کر پڑھائی پر توجہ دیتے ہیں اور باقی کے 75 فیصد تعلیمی اداروں کو درسگاہ کم اور شغل گاہ ذیادہ سمجھتے ہیں، پھر آ جاتے ہیں وہ جن کا تعلیم سے دور دور تک کوئی تعلق پچپن سے ہی نہیں رہا اور وہ بھی جنہیں تعلیم کا شوق رہا مگر مواقع میسر نہ آ سکے اور گھریلو ذمہ داریوں کا ایک عظیم بوجھ ان کے کندھوں پر ایسا پڑا کہ ان کا سب شوق جاتا رہا۔

(یہ ہمارے ملک کے نوجوانوں اقسام ہیں،اب آپ سوچیں گے کہ ان میں منچلے نوجوان کون ہیں؟ تو ایسا ہے کہ  نوکریوں کی تلاش کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد، تعلیمی اداروں کی 75 فیصد عوام، اور تعلیم سے کوسوں دور مستی میں مشغول تمام نوجوان منچلے نوجوان ہیں ) سڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر سوار غول کے غول نظر آنے لگے موٹر سائیکل کو انتہائی خطرناک سپیڈ پر چلاتے ہوئے شور مچاتے ہارن بجاتے اور دیگر باجے پٹاخے بجاتے ہوئے،  ایک دوسرے کو گالیاں بکتے ہوئے قہقہے لگاتے ہوئے سڑکوں گلیوں بازاروں میں کہہ لیجیے کہ طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہوئے  یوم آزادیِ پاکستان منانے کا آغاز کرتے ہیں یہ طوفان تقریباً ساری رات نہیں تھمتا اور 14 اگست کی صبح سے لے کر دن چڑھے یہ پاکستان کے دیوانے سوئے پڑے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)


شاید ان کا پاکستان کی ترقی میں یہی کردار ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے مخالفت کریں گے مجھے دقیانوس بھی سمجھ لیں گے شاید زندگی سے بے زار کوئی بوڑھی روح کا لقب بھی مل جائے۔۔ یہ کہہ کر غلط بھی ثابت کریں گے یہ خوشی کا موقع ہے اسے ایسے ہی مناتے ہیں خوشی کا اظہار ضروری ہے وہ بھی اس انداز میں فرض ہے۔ میں سب کی رائے کا احترام کرتی ہوں مگر احترام کا ہر گز مطلب نہیں کہ میری رائے آپ کی رائے سے مطابقت رکھے۔

۔ پھر آ جاتے ہیں وہ لوگ جو یوم آذادی کو قصہ گوئی کر کے گزارتے ہیں۔ پاکستان ایسے بنا ویسے بنا یہ ہوا وہ ہوا ہر سال ایک ہی سکرپٹ میں لفظوں کا کچھ ہیر پھیر کرنے کے بعد پیکجز، ڈوکیومنٹریز بنائی جاتی ہیں۔ بچوں کو قصے سنائے جاتے ہیں کہ کن مشکالات سے وطن عزیز کو حاصل کیا گیا اور یہ دن قصوں کی نظر ہو جاتا ہے اور اگلے دن سے پھر وہی کام دھندے جن میں پاکستان کہیں نہیں ہوتا۔

ایک ماں جب بچے کو جنم دیتی ہے تو بلاشبہ انتہا کی تکلیف سے گزرتی ہے اس تکلیف جیسی تکلیف شاید ہی کوئی اس دنیا میں دوسری ہو۔ مگر ہر گزرتے سال کے ساتھ ماں اس بچے کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے اس کی اچھی پرورش اس کی خوراک لباس اس کی تعلیم اس کے اخلاق اس کی تربیت اس کی شخصیت اس کی ترقی پر توجہ دیتی ہے اسے بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل بناتی ہے اور کوئی ماں کسی وجہ سے یہ نہیں بھی کر سکتی یا کوئی کمی رہ بھی جاتی ہے تو وہ سوچتی ہے فکر کرتی ہے۔

وہ ماں ہر گزرتے سال کے ساتھ بچے کو اس کی پیدائش کے وقت ہونے والی تکلیف نہیں بتاتی وہ اسے بتاتی ہے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے کیونکہ وہ تکلیف گزر چکی اور وہ تکلیف جس لیے اٹھائی گئی تھی اس کو آگے بڑھتا دیکھنے میں ہی اس تکلیف کا مداوا ہے۔۔ہمارا ملک پاکستان 73 برس کا ہو چکا ہے اور اتنی عمر میں نہ تو پاکستان تعلیم حاصل کر سکا نہ ہی صحت بنا سکا نہ کوئی مال کما سکا اور اخلاقیات میں بھی صفر۔

۔ کتنی تشویش ناک بات ہے کہ 73 سال کا عرصہ گزار کر بھی ہم کسی ایک کونے کو ٹھیک نہیں کر سکے۔ پاکستان نام ہے ایک زمین کے ٹکڑے کا جس پر ہم بستے ہیں یہ ہماری سرزمین ہے اس لفظ پاکستان اور اس زمین نے نہیں کرنا یہ سب کچھ یہ سب کچھ ہم نے کرنا ہے کیونکہ ہم ہیں اس کے رہنے والے اور یہ 73 سال ہم نے برباد کر دیے ہیں صرف کہانیوں کی نظر کر دیے۔ جو قصے ہم سناتے ہیں وہ لوگ عظیم تھے اپنے حصے کا کام کر گئے مگر ہم نے اپنے حصے کا کوئی کام نہیں کیا۔

ہم اپنے بچوں کو محب وطن بنانے کی فکر کیوں نہیں کرتے؟ ہم اپنے بچوں کو ملک کا ایک ذمہ دار شہری بنانے کی فکر کیوں نہیں کرتے؟ ہم اپنے بچوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ملک سے محبت ملک کے لیے کچھ کرنے کا نام ہے۔ اس مٹی سے ہمارا رشتہ ہے اور ہر رشتہ لین دین پر چلتا ہے ہم صرف لینے کی ہی بات کیوں کرتے ہیں؟ ہم ملک کو کچھ دینے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ یہ ملک صرف حکمرانوں کا نہیں یہ ملک ہم سب کا ہے اس ملک کے لیے ہم سب نے کام کرنا ہے ایمانداری کے ساتھ۔

۔ ایمانداری کہاں سے آئے اسے لانے کے لیے بھی ایک طویل مدت چاہیے۔ جنہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے وہ تعلیم کو اپنے لیے اور ملک کے لیے نفع بخش بنائیں۔ جن کے پاس کوئی عہدہ ہے وہ اس عہدے کی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھائیں۔ کمزور پر اپنے اثرورسوخ استعمال نہ کریں، طاقتور کے ظلم میں اس کے دست راست نہ بنے۔ ایک گھر میں ہمیں کوئی نہیں بتاتا کہ تم یہ کام کر لو وہ کام کر لو ہم گھر میں اپنے حصے کا کام خود ڈھونڈتے ہیں اور اسے ذمہ داری سے کرتے ہیں تو یہ پاک سر زمین ہمارا گھر ہے اس میں اپنے حصے کا کام خود ڈھونڈیں اور اس ملک کو فائدہ دیں اور وہ فائدہ پلٹ کر آپ کے پاس ضرور آئے گا۔

۔ آخر میں یہی کہوں گی
 یہ وطن ہمارا ہے،
 ہم ہیں پاسباں اس کے۔۔
کوئی باہر سے آ کر یا صرف حکمران طبقہ اس ملک میں بہتری نہیں لائے گا ہم سب کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ امید ہے اگلے یوم آذادی تک ملکی حالات میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی۔۔ پاکستان زندہ باد۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :