جب دیا رنج بُتوں نے تو خدا یاد آیا!

ہفتہ 14 جولائی 2018

Sareer Khalid

صریر خالد

بی جے پی کی جانب سے مسنندِ اقتدار سے منھ کے بل گرائے جانے کے بعد خانہ خرابی کے مسائل سے دوچار سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ہر طرف سے مایوس ہوکر ،توقعات کے مطابق،ایک بار پھر جذباتی سیاست کی جانب لوٹ آنے کی شروعات کی ہے۔ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں کشمیریوں،باالخصوص جماعتِ اسلامی ،پر مظالم ڈھانے سے ”انکار کرنے“کی سزا کے بطور کرسی سے گرادیا گیا ہے حالانکہ انکا مختصر دورِ اقتدار انکے دعویٰ کے خلاف چغلی کرتا ہے۔


بھاجپا نے جس خجالت کے ساتھ محبوبہ مفتی کو کرسی سے گرادیا ہے وہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔چناچہ19جون کو وہ اور انکے ساتھی وزراء تب سیول سکریٹریٹ میں معمول کی طرح کام میں مصروف تھے کہ جب چیف سکریٹری نے آکر انہیں یہ مژدہ سنایا کہ وہ اب وزیرِ اعلیٰ نہ رہیں۔

(جاری ہے)

محبوبہ مفتی نے اسکے فوراََ بعد گورنر این این ووہراہ کو استعفیٰ سونپ دیا تھا۔

رجت شرما کے پروگرام ”آپ کی عدالت“میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہیں دلی سے جماعتِ اسلامی کا کریک ڈاون کرنے کا حکم تھا جسے ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس حکم کی عدولی کا انہیں اقتدار گنوانے کی صورت میں ”معاوضہ چکایا“ہے۔انہوں نے کہا”مجھے دلی سے جماعت اسلامی سے وابستہ 80افرادکی لسٹ فراہم کی گئی تاکہ میں اُن کیخلاف کارروائی کرؤں لیکن میں نے یہ کہہ کرانکارکیاکہ اگرکسی ایک شخص نے کوئی غلطی کی ہے اورہمارے پاس اُسکے ثبوت ہیں توہم کارروائی کریں گے لیکن پوری جماعت اسلامی کیخلاف کریک ڈاؤن کرنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا“۔

حالانکہ محبوبہ مفتی کے دور میں نہ صرف گرفتاریوں کا دور جاری رہا بلکہ جماعتِ اسلامی کے پیروجوان کئی لوگوں پر بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ تک لگایا گیا۔ان میں سوپور کے ایک اسی سالہ رکنِ جماعت،شیخ محمد یوسف، بھی شامل ہیں کہ جنہیں ایک تھانے سے دوسرے تھانے اور اس جیل سے اُس جیل لیجائے جانے کی تصاویر وائرل ہوچکی ہیں۔ اتنا ہی نہیں خود محبوبہ کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ کے مضافاتی علاقہ کے ایک رکنِ جماعت گلزار احمد اور انکے جواں سال فرزند کو ایک ہی ہتھکڑی میں باندھ کر لیجائے جانے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر محبوبہ مفتی کی دعویداری کو بزبانِ حال رد کرتی ہیں۔


ایک اورسوال کے جواب میں سابق وزیراعلیٰ نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سیدصلاح الدین کے بیٹے شاہدیوسف کی این آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر تہار جیل میں اسیری کو”بلاجواز“قراردیتے ہوئے انکشاف کیاکہ شاہدکوانکے والد نے علیل والدہ،جو اب عرصہ ہوئے انتقال کرچکی ہیں،کے علاج کیلئے تین لاکھ روپے کی رقم بھیجی تھی جسے بنیاد بناتے ہوئے انہیں گرفتار کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا”بحیثیت وزیراعلیٰ میں نے پوری تحقیقات کروائی تواس سے زیادہ پیسہ شاہدکے اکاؤنٹ میں پہنچنے کے کوئی شواہدنہیں ملے۔ صلاح الدین کے بیٹوں کوکبھی ملی ٹنسی یاسنگباری کی وارداتوں میں ملوث نہیں پایاگیاہے اسلئے شاہدیوسف کی گرفتاری کا کوئی جوازنہیں تھالیکن این آئی اے نے اسکوگرفتارکرلیا،اورجب اس کی ضمانتی درخواست عدالت میں زیرسماعت لائی جاتی ہے توجج کوہی تبدیل کیاجاتاہے“۔

صلاح الدین کے سرکاری ملازم بیٹے کی ”بلا جواز“گرفتاری کے وقت محبوبہ مفتی کی زبان سے انکے دفاع میں یہ دلائل نہیں سنی گئی تھیں اور نہ ہی انہوں نے اپنی اس ”تحقیقات“کو ہی منظر عام پر لایا تھا کہ شاہد کو علیل والدہ کے علاج کیلئے پیسہ حاصل کرنے پر ”پھنسایا گیا ہے“۔البتہابھی تک کی سب سے کمزور وزیر اعلیٰ کے بطور دیکھی جاچکیں محبوبہ مفتی نے دعویٰ کیاکہ این آئی اے صلاح الدین کے دوسرے بیٹے کوبھی گرفتارکرناچاہتی تھی لیکن انہوں( محبوبہ مفتی) نے ایسا”ہونے نہیں دیا“۔


اب ،جب وہ بہت بے آبرو ہوکر اقتدار کے کوچے سے نکالی جاچکی ہیں، محبوبہ مفتی کو دخترانِ ملت کی صدر آسیہ اندرابی کی این آئی اے کے ہاتھوں دلی منتقلی پر ”شدید اعتراض“ہے حالانکہ نہ صرف یہ کہ آسیہ اندرابی نے شدید عِلت کے باوجود محبوبہ مفتی کا سارا دورِ اقتدار مختلف جیلوں میں گذارا بلکہ یہ وہ ہی تھیں کہ جنکے دورِ اقتدار میں این آئی اے نے حریت لیڈروں اور کارکنوں کو ہول سیل میں دلی پہنچا کر انہیں افضل گورو اور مقبول بٹ کی قبروں کے دیدار کیلئے تہار جیل میں ”قیام “کرایاہوا ہے۔


محبوبہ مفتی جو اقتدار میں رہتے ہوئے بھاجپا کے ساتھ اتحاد پر فخر کرتی رہیں اور جنہیں پاکستان کا نئی دلی کے اقدامات کا” مثبت جواب“ نہ دینے کا زبردست غصہ تھا آج پاکستان سے غصہ نہیں ہیں بلکہ وہ اسے ایک روٹھے ہوئے بچے کی طرح دیکھتے ہوئے کہتی ہیں” بھارت کوپاکستان کیساتھ تعلقات کوبہتربنانے کیلئے ایک یادوبارنہیں بلکہ باربارکوشش کرناپڑے گی“ ۔


پی ڈی پی صدر،جنہیں اقتدار میں رہتے ہوئے کشمیری آبادی کا فقط پانچ فیصد ”شرپسندی“کرتے نظر آیا تھاآج کشمیر کے دلی پر اعتماد کیلئے پریشان نظر آنے لگی ہیں اور اچانک ہی انہیں یوں لگنے لگا ہے کہ یہ محض پانچ فیصد شرپسندوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہاں سو کے سو فیصد کا معاملہ ہے۔
سرکاری فورسز کے ہاتھوں کمسن بچوں کے مارے جانے کی ”جوازیت“میں ”دودھ اورٹافی “کا ڈائیلاگ بولنے کیلئے مشہور محبوبہ مفتی نے استعفیٰ سونپ دینے کے فوری بعد،یہ کہکر کہ انہوں نے اقتدار کو ترجیح نہیں دی ہے بلکہ جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ 370اور35Aکے خلاف سازشوں کا توڑ کرتے ہوئے انکا دفاع کیا ہے،جذباتی سیاست کی جانب لوٹ آنے کا عندیہ دیا تھا۔

پھر سوشل میڈیا پر لوگوں نے مذاق ہی مذاق میں یہ بھی کہا تھا کہ سرکار سے جانے کے بعد محبوبہ مفتی کا پہلا کام درزی کو سبز عبا بنانے کیلئے کہنا ہوگا تاہم وہ اتنی جلدی ”پُرانے پتے“پھینکنا شروع کرینگی اسکا شائد کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔
سابق وزیر اعلیٰ مفتی سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی نے تب سیاست میں قدم رکھا تھا کہ جب انکے والد کانگریس میں تھے تاہم بعد ازاں باپ بیٹی نے اپنی علیٰحدہ پارٹی کھڑا کی۔

مفتی سعید مرکز کیلئے ہمیشہ ”اہم“رہتے آئے تھے تاہم ریاست میں انہیں کبھی لوگوں کی توجہ ملی اور نہ انہیں قبول کیا گیاالبتہ محبوبہ مفتی نے ایک ”الگ طرح کی“حکمتِ عملی کے ذرئعہ نہ صرف مختصر وقت میں اپنے لئے جگہ بنائی بلکہ انہوں نے اپنے شاطر،مگر جموں کشمیر میں بار بار ناکام ہوئے،سیاستدان والد کی پوزیشن بھی منوالی۔محبوبہ مفتی نے سبز،جو مسلمانوں اور پاکستان کا رنگ تصور ہوتا ہے، چوغا پہن کر سرکاری فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے جنگجووں کے گھر جاکر آنسو بہانے اور علیٰحدگی پسندوں کے تئیں نرم بیانات دینے کی پالیسی اپنائی جس نے انہیں دیگر سیاستدانوں کے برعکس عام لوگوں میں ایک الگ پہچان دلائی۔

محبوبہ اور انکی پارٹی کی ”اچانک اور تیز طرار“کامیابی کیلئے بعض لوگوں نے ”ٓلیکشن مخالف ،جنگجو حامی اور پاکستان نواز“جماعتِ اسلامی کا رول بتاتے ہوئے کہا کہ دراصل جماعت نے نیشنل کانفرنس کو منظر سے ہٹانے کیلئے پی ڈی پی کی مدد کی تھی۔جماعت نے موثر طور اس تاثر کو زائل کرنے کی کبھی کوئی جارحانہ کوشش بھی نہیں کی۔
چناچہ محبوبہ اور انکے متوفی والد مفتی سعید نے گذشتہ اسمبلی انتخاب اور باتوں کے علاوہ ریاست میں بھاجپا کا راستہ روکنے کے نعرے پر لڑا۔

انتخابات سے قبل اس پارٹی نے گویا لوگوں میں ڈر سا بٹھایا تھا اور یہ تاثر دیا تھا کہ جیسے پی ڈی پی کو ووٹ نہ ملنے کی صورت میں بھاجپا ریاستِ جموں کشمیر کو ایک میٹھے گھونٹ کی طرح پی جائے گی تاہم انتخابی نتائج سامنے آں ے کے بعد باپ بیٹی نے خود بھاجپا کی گود میں بیٹھ کر اپنے لئے مسنندِ اقتدار سنبھالا۔اقتدار میں آنے کے بعدمحبوبہ نے نہ صرف اپنا”لباس “اور اسکا رنگ بدل دیا بلکہ اپنا طرز سیاست بھی یہاں تک کہ سرکاری فورسز کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کے مارے جانے کو ”جواز“فراہم کرنے کیلئے انکا یہ بیان ہمیشہ یاد رکھاجائے گا کہ یہ نوجوان فورسز کیمپوں میں ”دودھ ٹافی“لینے نہیں گئے تھے۔


محبوبہ مفتی کو ابھی فقط اقتدار کے گلیاروں میں ہی پرایا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اقتدار اور مراعات کی تری سے کھڑا انکی ریت کی عمارت سوکھ کر نہ صرف دھڑام سے گر چکی ہے بلکہ اسے خاک ہوکر اڑتے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ایسے میں انہیں پھر محض ایک جذباتی راستہ ہی نظر آنے لگا ہے کہ جس پر چلتے ہوئے وہ ایک بار پھر اپنی ”منزل“کو دوبارہ پانا چاہتی ہیں۔

غالباََ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اقتدار سے جانے کے بعد اپنے پہلی ہی انٹرویو میں جماعتِ اسلامی کا نام لیکرریاست گیر اور مظبوط نیٹورک والی اس تنظیم کو رجھانے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ(محبوبہ)صاحبِ اقتدار نہ رہی تو پھر جماعت،جو رواں مزاحمتی تحریک میں سب سے زیادہ مار کھاتی آرہی ہے،کو بھی دلی سے کوئی نہیں بچاسکتا ہے۔محبوبہ مفتی کے بیان کو سامنے آئے دو ایک دن گذر چکے ہیں مگر جماعتِ اسلامی کا اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے…آیا تو اسکی پالیسی واضح ہوجائے گی نہیں تو اس جماعت پر پہلے سے موجود الزام بھی باقی رہے گا اور محبوبہ کے تئیں اسکی” ہمدردی“کے باقی ہونے کا شک بھی۔(بشکریہ تفصیلات ڈاٹ کام)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :