"کوانٹیٹی اور کوالٹی"

منگل 11 مئی 2021

Tasmia Waheed

تسمیہ وحید

وہ خاموش لڑکا دن بہ دن مزید خاموش ہوتا جارہا تھا۔گھر والے اس کے اس رویے پر قدرِ حیران نہ تھے کیونکہ ان کے لئے یہ رویہ غیر معمول نہ تھا۔خاموشیاں بھی بڑی قیمت سے ملتی ہیں۔ورنہ قبرستانوں میں لوگ ایسے تو خاموش نہیں ہوتے اور نہ ہی زندہ انسان خاموش جچتے ہیں۔وہ منہ میں سیب چباتا ہوا سڑک پر مٹر گشت کر رہاتھا سیب کھاتے کبھی وہ پتھروں کو دائیں جانب مارتا اور کبھی بائیں جانب۔

لیکن ہر طرف ایک گہماگہمی سی تھی۔آخر ہوتی بھی کیوں نہ رمضان کی آمد جو تھی۔کہی سبزی کے ٹھیلے لگے تھے اور کہی پھلوں کے۔رمضان کی آمد میں فقط دو دن رہ گئے تھے۔بس ہر طرف یہی انقلاب برپا تھا۔لیکن وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔اور پھر اچانک وہ ایک گھر کے سامنے رکا اور دروازہ کھٹکھٹانے لگا،اندر سے یوسفی صاحب آئے انہوں نے  اس کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرا دیا اور کہا کہ"احمر تم"!"جی سر"۔

(جاری ہے)

"کیسے آنا ہوا ؟""ایسےہی سر دل کر رہاتھا آپ سے ملنے کا" ۔"او! سر آپ پڑھا رہے ہیں رئیلی سوری"۔"نہیں نہیں کوئی بات نہیں تم آؤ"  تم بھی بیٹھ جاؤ"۔تو بچوں آج ہم کیا بات کر رہے تھے "کوالٹی اور کوائنٹیٹی کے بارے میں"۔"نہ تو میں تم لوگوں کو کوئی فزکس کے قوانین بتاؤں گا اس موضوع کے حوالے سے اور نہ ہی سٹیٹس کے اصول میں چاہتا ہوں تم ان دو لفظوں سے زندگی سیکھوں"!احمر ایک گہری خاموشی سے یوسفی صاحب کو دیکھتا رہا اور اپنی پوری توجہ ان پر مرکوز کردی۔

"دیکھو بچوں میں جانتا ہو کہ یہ آپ کے علم میں ہے کہ کوالٹی کیا ہے ؟ اور کوائنٹیٹی کیا ہے؟لیکن مجھے لگتاہے ہم واقعی ان دو لفظوں سے آشنا نہیں ،بچوں! سادہ سی مثال سے سمجھو جب ہم ایمپورٹ یا ایکسپورٹ کرتے ہیں تو ہمارے کسٹمر تب ہی ہم سے مطمئن ہوتے ہیں۔جب ہماری پروڈکٹ میں یہ دونوں خصوصیات پائی جائیں،ایک جتنا اس نے آرڈر کیا وہ پورا ہونا چاہیے،دوسرا اس پروڈکٹ کے اندر جو خصوصیات مانگی جائیں وہ پوری ہو۔

یا اس معیار کی ہو جس کی کسٹمر نے ہم سے ڈیمانڈ کی،یعنی یہ دونوں چیزیں مکمل ہو تو ہمارا کسٹمر ہم سے سیٹسفی بھی ہوگا اور کل کو مزید آرڈر کرے گا۔مگر اللہ کے لئے دونوں میں سے ایک چیز ایسی ہے جو زیادہ میٹر کرتی ہے۔جانتے ہو وہ کیا ہے؟ سوال پوچھتے ہی ساتھ ہی انہوں نے خود جواب دیا"کوالٹی"دیکھو بیٹا حدیث کا مفہوم ہے کہ "جہنم کی آگ سے بچو اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی صحیح "دیکھ لو بیٹا "اللہ کتنا رحیم ہے کوائنٹیٹی اتنی سی"انہوں ان اپنی شہادت اور دوسری انگلی کو جوڑ کر بتایا "اور اس کوائنٹیٹی کا ریوارڈ اتنا سا کہ اتنی بڑی جہنم سے رہائی"۔

احمر پروفیسر صاحب کی اس بات سے بہت متاثر ہوا "اگلےہی لمحے پروفیسر صاحب دوبارہ سے بولنے لگے کہنے لگے "کہ رمضان کا معاملہ تو اس سے بھی خوبصورت ہے کہ اتنی سی نیکی ستر گنا اجر بڑھا دیتی ہے ساتھ ہی ساتھ کہنے لگے کہ "ہم میں سے بہت سارے ایسےمومن ہیں جن کی کوائنٹیٹی تو پوری ہوتی ہے یا زیادہ ہوتی ہے مگر ان کی مقدار میں کوالٹی کوئی نہیں ہوتی۔

مثلاً بہت سے لوگ نمازیں پوری پڑھتے ہیں لیکن لوگوں کی دل آزاری میں بھی نمبر اول پر ہیں۔بہت سے لوگ ایک طرف تو چیر یٹی کرتے ہیں لیکن دوسری ہی جانب اپنے گناہوں کو کم کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کرتے۔"بیٹا اللہ کو ڈھیر نہیں چاہیے اللہ کو خلوص چاہیے اللہ کو وہ آنسو چاہیے جو جائے نماز پر فقط اس کی یاد کے لئے گِرے۔ایک آنسو ہو لیکن خالص ہو۔کوائنٹیٹی بے شک ایک آنسو جتنی ہو لیکن کوالٹی اتنی ہو کہ آنسو اللہ اپنی محبت کی بوتل میں سنبھال لے اسلئے بے شک کوائنٹیٹی تھوڑی دو چاہے وہ اللہ کا معاملہ ہو یا دنیا کا لیکن کوالٹی ایسی ہو کہ عرش تک اس آنسو کے گرنے کی آواز جائے۔

"سب پروفیسر صاحب کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے۔پروفیسر صاحب نے بچوں کو ایک آسائمنٹ دی کہ آپ نے اپنی زندگی سے کوالٹی اور کوائنٹیٹی کی ایک مثال کو ڈھونڈ کے لانا ہے۔جب سب چلے گئے تو احمر بھی اٹھ گیا۔یوسفی صاحب نے اس کو کہا "ارے تم تو مجھ سے ملنے آئے تھے"۔احمر نے سر پر ہاتھ پھیرا اور رک گیا"کچھ لمحے یوسفی صاحب کے ساتھ بتانے کے بعد وہ گھر چلا گیا۔

گھر آکر پورا دن وہ سوچتا رہا کوالٹی اور کوائنٹیٹی کی مثال۔مثالیں تو بہت سی تھیں۔مگر وہ کچھ الگ کرنا چاہتا تھا۔سارا دن کافی سوچنے کے بعد اس کو جب کچھ نہ ملا تو وہ خاموشی سے پلنگ پر لیٹنے لگا وہ سائیڈ ٹیبل پر عینک رکھنے لگا تو وہاں اسے ایک حدیث کی کتاب"صحیح بخاری"ملی اس نے ایسے ہی اس کتاب کو پکڑا اور ادھر ادھر صفحوں کو پلٹنے لگا۔تو اس کے سامنے حدیث نمبر 13 کھلی جس پر لکھا تھا"تم میں کوئی شخص اس وقت مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے"۔

اس حدیث کو پڑھتے ہی اس کے زہن میں کوالٹی اور کوائنٹیٹی کی ایک بہترین مثال سامنے آئی۔اگلے دن جب پروفیسر صاحب نے سب کی مثالیں سنی اور پھر احمر اپنے صحفوں کو پکڑ کر اٹھا اور کہنے لگا کہ"رمضان کے مہینے میں ہم لوگوں میں سے جو صاحبِ استطاعت ہیں راشن بانٹتے ہیں ان کے گھر میں راشن کی تو بے تحاشہ بوریاں ہوتی ہیں لیکن کیا ان راشن میں وہی آٹے کی بوریاں ہوتی ہیں جو وہ خود استعمال کرتے ہیں؟کیا وہ وہی چاول استعمال کرتے ہیں یا آئل ، گھی وغیرہ جو وہ دوسروں میں بانٹتے ہیں؟ اپنے لئے تو وہ لوکل چیزیں جو انکی صحت کو بھی متاثر کرے کبھی استعمال نہ کریں!کیا کوائنٹیٹی ہی فقط دینا چیریٹی ہے کیا ایسی چیریٹی واقعی ہی فائدہ دیتی ہے جس کی کوائنٹیٹی تو زیادہ گھروں تک پہنچ جائے مگر کوالٹی ایک گھر تک بھی نہ پہنچے۔

اور جو رسولﷺ نے کہا تھا کہ مومن تو وہ ہے جو دوسروں کے لئے وہ چیز پسند کرے جو اپنے لئے تو کیا ہم لوگ واقعی مومن ہیں؟حالانکہ مومن تو ایسا نہیں ہوتا! مومن تو جو بناسپتی کے چاول خود کھاتا ہے وہی دوسروں کو کھلاتا ہے۔جو کسان یا ڈالڈہ کا گھی استعمال کرے وہی دوسروں کو بھی دیتا ہے نہ کہ لوکل گھی کے پیکٹس"۔احمر نے جیسے ہی یہ بیان کیا تو پروفیسر صاحب اس کی جانب ایک فخریہ مسکراہٹ سے دیکھنے لگے۔

کمرے میں ہر طرف ایک خاموشی چھا گئی۔اور پھر پروفیسر صاحب نے ایک اور بات کی طرف اشارہ کیا"کہ بیٹا اب اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کہے "سر ہم نے فقط فجر کی نماز پڑھ لی اسکی کوالٹی اچھی کرلی تو باقی چار نہیں پڑھے گے۔بیٹا ایسا ہرگز نہیں، کہنے کا مقصد یہ ہے جو انسان جتنا کرسکتا ہے اس میں وہ اپنا بیسٹ دے۔اور جب کوالٹی بہتر ہو تو کوائنٹیٹی کو بھی بہتر کرنا شروع کردے، اور بتانا صرف یہ چاہتا تھا کہ مالکِ کُل کو ڈھیر نہیں چاہیے اسکو تو پُر خلوص عمل چاہیے جس پر ریاکاری کا میک اپ نہ ہو جس میں منافقت کی ملاوٹ نہ ہو اور جو اخلاص کے پانی سے پاک ہو" ۔

مجھے یقین ہے میرے اس مختصر سے کلیے پر آپ ضرور عمل کریں گا"۔اسی بات پر کلاس کا اختتام ہوا پروفیسر صاحب نے احمر کو گلے لگایا،اور سب اپنے گھروں کی طرف روانہ ہونے لگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :