مستقبل کاوزیراعظم کون۔۔؟

جمعرات 12 جولائی 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں یاسیاسی کیڑے مکوڑوں کوپاؤں تلے روندکرانتخابی ٹکٹ ہتھیانے والے ملک کے نامی گرامی سیاستدانوں،لوٹوں،لٹیروں اورسیاسی میدان کے مضبوط شہسواروں کی پی ٹی آئی میں دبادب شمولیت سے اوروں کی طرح ہم بھی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ عمران خان مستقبل کے وزیراعظم ہوں گے مگرسیاسی میدان میں جوکیچڑی پکنے لگی ہے اس کودیکھ کرہمیں نہیں لگ رہاکہ عمران خان اتنی آسانی سے اس ملک کا وزیراعظم بن پائیں گے۔

جس ملک میں کچھ بھی ناممکن نہ ہواورجہاں کی سیاست میں حریف کے حلیف اورحلیف کے حریف بننے میں ایک سیکنڈنہ لگتاہووہاں وقت آنے پرکوئی بھی صدراوروزیراعظم بن سکتاہے۔ہماری طرح کل تک جولوگ ڈنکے کی چوٹ پر عمران خان کومستقبل کاوزیراعظم گردان رہے تھے بدلتے سیاسی حالات اورواقعات کے باعث اب وہ بھی دھیمے دھیمے اندازمیں حالات کی نبض شناسی سے بیزاری کااظہار کرکے اپنی پہلی والی رائے اورقول سے آہستہ آہستہ رجوع کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،اے این پی،قومی وطن پارٹی اورایم کیوایم سمیت دیگرسیاسی جماعتوں اورپارٹیوں سے مضبوط انتخابی امیدواروں کے نام پرساراگنداورکچراتحریک انصاف میں جمع کرنے کے بعدعمران خان یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ نہ صرف مستقبل کے وزیراعظم ہوں گے بلکہ آنے والی حکومت بھی تن تنہاء ان کی ہوگی لیکن سیاسی چوروں ،لوٹوں اورلٹیروں کواقتدارکی خاطرگلے لگانے والے پی ٹی آئی کے نادان چےئرمین یہ بھول گئے تھے کہ ،،سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ،،سینیٹ الیکشن میں اکثریت کادعویٰ کرنے والی مسلم لیگ ن اگرصادق سنجرانی گروپ کے ہاتھوں دنیاکے سامنے تماشابن سکتی ہے توپھرعمران خان کس باغ کی مولی ہے کہ وہ 2018کے الیکشن کی صورت میں آرام وسکون سے وزیراعظم بن جائیں گے۔

ماناکہ اس وقت پورے ملک میں تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن سب سے بہتراورجیتنے کے چانسزبھی سب سے زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود ماضی کے تلخ سیاسی حقائق کی روشنی میں عمران خان کے لئے مستقبل کا وزیراعظم بنناکوئی آسان نہیں ہوگا ۔ایک سیاسی باباجن سے ہماری روزانہ ملاقات ہوتی ہے ، عمران خان کوفیورٹ قراردیتے ہوئے مستقبل کے وزیراعظم بننے والامسئلہ ہم نے ان کے سامنے بھی رکھا،ہماری بات سنتے ہی اس نے پہلے ایک ٹھنڈی آہ بھری پھرگویاہوئے۔

پاکستان کی سیاست ،لوگوں کے موڈاورموسم کاکوئی پتہ نہیں چلتا۔یہاں کس ٹائم کیاہوگا،لوگ کیاگریں گے،یاموسم کیسارہے گا،ان کے بارے میں اکثراوقات وقت آنے پرانسان کے تمام اندازے اورتجربے غلط ثابت ہوجاتے ہیں ۔سینیٹ الیکشن کونہیں دیکھتے ۔ہم نے ن لیگ کی اکثریت سے جیتنے کے نہ صرف اندازے لگائے بلکہ دعوے بھی کئے لیکن عین موقع پرمعلوم نہیں سنجرانی کہاں سے آٹپکے اوریوں انہوں نے ہمارے تمام اندازے اورتجزےئے غلط ثابت کردےئے۔

اب کی باربھی ایک دونہیں ہمارے سمیت ہزاروں لوگ عمران خان کے بارے بھی نہ صرف اندازے لگارہے ہیں بلکہ تجزےئے اوردعوے بھی کررہے ہیں لیکن عین موقع پرآپ حالات کومختلف بلکہ حدسے زیادہ مختلف دیکھیں گے۔یہ حقیقت کہ تحریک انصاف نے دوسری پارٹیوں سے پکڑکرانتخابی میدان میں جولوگ اتارے ہیں ان میں سے اکثرمضبوط سیاسی اعصاب کے مالک اوربھرپورمقابلے والے لوگ ہیں لیکن تحریک انصاف کا انتخابات میں بہترنتائج دینے یاحاصل کرنے کے باوجودپھربھی عمران خان کااس ملک کاوزیراعظم بنناکسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔

اس ملک میں اکثریت رکھنے والے اکثرمقابلے کی دوڑسے ہی باہرہوتے ہیں ۔تحریک انصاف کے نادان کارکنوں کی طرح ہماری بھی خواہش ہے کہ عمران خان مستقبل کاوزیراعظم بنے مگرحالات جس طرح بدلتے جارہے ہیں لگتانہیں کہ ہماری یہ خواہش پوری ہوجائے گی ۔تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی سے زیادہ وہ آزادامیدوارجواس وقت ہرچیزسے آزادہیں میدان میں اترچکے ہیں ،ان کی کامیابی کی صورت میں سینیٹ والامنظرایک بارپھرآنکھوں کے سامنے آئے گا۔

پیپلزپارٹی کے شریک چےئرمین آصف علی زرداری جوسیاست کے بڑے گروسمجھے جاتے ہیں اورجنہوں نے سینیٹ الیکشن میں ایسے ہی آزادلوگوں کے ذریعے کھیل کاپانسہ پلٹاتھاپہلے ہی کہہ چکے کہ انتخابات کے بعدآزادامیدواروں سے اتحادممکن ہے۔ دوسری طرف سیاست کے بے تاج بادشاہ سمجھے جانے والے مولانافضل الرحمن بھی تاک لگائے بیٹھے ہیں،اس تناظرمیں عمران خان کاوزیراعظم بننایقینی طورپرکوئی آسان نہیں ،ماناکہ نوازشریف جیسے بڑے بڑے مگرمچھوں کی سیاسی میدان سے بیدخلی اورآصف زرداری جیسے بڑے سیاسی کھلاڑیوں کے سروں پرچھائے کرپشن کے کالے بادلوں کے باعث تحریک انصاف کے چےئرمین کے لئے آگے بڑھنے کے تمام راستے مکمل طورپرصاف ہیں لیکن اس کے باوجودبیگانوں کے ساتھ اپنے بھی وزیراعظم کے مسئلے پرعمران خان کی قسمت پرشکوک وشبہات کااظہارکرکے مایوسی کااظہارکررہے ہیں ۔

25جولائی کوہونے والے انتخابات میں اگرتحریک انصاف کے ساتھ آزادقبیل سے تعلق رکھنے والے امیدواربھی میدان مارلیتے ہیں تواس صورت میں پھربھی کامیابی اورفتح کے بعدتحریک انصاف کوحکومت بنانے یااقتدارسنبھالنے کے لئے گھٹنے ٹیکنے ہوں گے ایسے میں پھرآزادامیدواروں کاجوبھی مطالبہ ہوگاوہ بہرصورت پوراکرناپڑے گا،کیاوہ آزادامیدوارجن کواس وقت عمران خان نے نشانے پرلے رکھاہے کیاوہ بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کی طرح عمران خان کواپناوزیراعظم بناناپسندکریں گے۔

؟یہ وہ سوال ہے جس کاجواب فی الحال کسی کے پاس نہیں لیکن عقل وشعوررکھنے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جیپ پرسوارآزادامیدوارذرہ بھی اگرگیم کاپانسہ پلٹنے کی کسی پوزیشن میں آئے وہ پھربلوچستان گروپ اورسینیٹ الیکشن کی طرح اپناکوئی بھی مطالبہ منوانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ان کایہ مطالبہ وزرات عظمیٰ کاحصول بھی ہوسکتاہے۔اس لئے سیاسی مبصرین تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان کے ساتھ کسی چھوٹے صادق سنجرانی کوبھی وزرات عظمیٰ کامضبوط امیدوارقراردے رہے ہیں ۔

دن بڑی تیزی کے ساتھ گزرتے جارہے ہیں ،الیکشن میں اب دو ہفتوں کے لگ بھگ ٹائم رہ گیاہے۔ہرشخص اپنی کامیابی کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگارہاہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت اورسیاستدان اپنے مستقبل سے ناامیدنہیں ۔وزرات عظمیٰ کی کرسی پربھی ایک دونہیں بہت سوں کی نظریں ہیں اوراس کے لئے کئی نے جوڑتوڑکاسلسلہ بھی ابھی سے شروع کردیاہے۔ایک طرف جہاں انتخابات انتخابات کاکھیل دھوم دھام سے جاری ہے دوسری طرف مستقبل میں ملک کی بھاگ دوڑسنبھالنے کے لئے بھی بڑے سیاسیوں کے درمیان رابطے چپکے چپکے سے جاری ہے،ہربارعوامی مینڈیٹ سے کھیل کروزرات عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے والوں نے ابھی سے اپنے سیاسی دلال میدان میں اتاردےئے ہیں ،اب دیکھنایہ ہے کہ عمران خان اپنے خواب کوکہاں تک شرمندہ تعبیرکرتے ہیں ،کیونکہ مقابلہ بہت سخت ہے ایک طرف اگرعمران خان اپنے طاقت ورسیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترچکے تودوسری طرف جیت کوشکست اورشکست کوفتح میں بدلنے والے سیاسی گروبھی مقابلے کے لئے بے تاب کھڑے ہیں ۔

کیاتحریک انصاف کے چےئرمین بھرپورسیاسی قوت کے بل بوتے پر25جولائی کے بعدکسی چھوٹے صادق سنجرانی کا راستہ روک کروزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کرپائیں گے۔۔؟یہ وہ سوال ہے جس کاجواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :