اصل ایوارڈ توعوام دیں گے

منگل 15 فروری 2022

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ہنسیں یاروئیں،سمجھ نہیں آرہی کہ یہ شرم وحیااورعقل کے قریب سے نہیں گزرے یاعقل نے ان کو قریب آنے نہیں دیا۔شرم وحیابھی آخرکوئی چیزہے،باشرم اورباحیالوگ تومیت کے سرہانے اس طرح نہ کبھی ڈھول بجاتے ہیں اورنہ ہی لڈوبانٹتے ہیں۔گھرکوآگ لگی گھرکے چراغ سے۔ان ہی کے کارناموں یاسیاکاریوں کی وجہ سے تو ساڑھے تین سال سے ملک میں سوگ کاعالم اورگھرگھرماتم ہے۔

مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کی وجہ سے ہرشخص اورہرفردزندہ لاش بن کرکھڑاہے ۔بجائے ان زندہ لاشوں پرآنسوبہانے اوران کے سامنے شرم سے پانی پانی ہوکرکچھ غیرت کھانے کے انہوں نے آپس میں تعریفی سرٹیفکیٹ بانٹنے اورتقسیم کرنے شروع کردیئے ہیں۔شرم وحیاسے عاری ان نمونوں کوکوئی یہ بتائے توسہی کہ جناب والاتباہی اوربربادی پرماتم کیاجاتاہے،گریبان میں جھانکاجاتاہے سرٹیفکیٹ تقسیم نہیں کئے جاتے۔

(جاری ہے)

تاریخی تبدیلی کے ساتھ یہ بھی دنیانے پہلی باردیکھاکہ ملک وقوم کابیڑہ غرق کرنے پربھی سرٹیفکیٹ اورایوارڈتقسیم کئے جاتے ہیں۔واہ جی واہ۔کیاباکمال لوگ اورلاجواب سروس ہے ان کی۔اچھاکریں یابرا،جرم کریں یاکوئی گناہ،بس صلہ اوربدلہ صرف ثواب ہی ثواب ہے۔سرٹیفکیٹ اورایوارڈلینے والوں سے توکوئی گلہ نہیں ۔مالشی،پالشی،بھگوڑوں اورپھگوڑوں والوں کاتوکام ہی شاباش لیناہوتاہے۔

وہ مالش اورپالش کاجاں جوکھوں والاکام ہی تو صرف اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں کوئی تھپکی،کوئی لفافہ یاکوئی ہار ملے۔ حیرت تواس سرٹیفکیٹ اورایوارڈتقسیم کرنے والے پرہے جنہیں اس ملک میں ساڑھے تین سال سے نوازاورزرداری چورکے علاوہ اب تک کچھ نظرہی نہیں آرہاتھا۔نوازشریف کوچورکہنے سے آج بھی جس کی صبح ہوتی ہے اورزرداری کوڈاکوکہنے سے جس کی شام ۔

اس صاحب کوسرٹیفکیٹ وایوارڈدینے سے پہلے کم ازکم یہ تودیکھنااورسوچناچاہئیے تھاکہ وہ آخرکس خوشی میں یہ سرٹیفکیٹ بانٹ وتقسیم کر رہے ہیں۔ساڑھے تین سالوں میں ایساکوئی شعبہ کیا۔؟ملک کاکوئی ذرہ بھی ایسانہیں بچاجوتباہی کے دھانے پر نہ پہنچاہو۔ملک میں معیشت توبہت پہلے اللہ کوپیاری ہوچکی ہے۔روزگارنام کی کوئی شئے ملک میں ہے نہیں۔مہنگائی کااژدھاہے کہ جورکنے اورہاتھ میں آنے کانام ہی نہیں لے رہا۔

ملک میں بڑاکوئی نیا پراجیکٹ شروع ہی نہیں ہوا۔پچھلے تین سال سے وہی نوازاورزرداری دورکے منصوبوں پرسنگ مرمرکی نئی نئی تختیاں لگاکرگلے میں ہارڈالے اورپہنے جارہے ہیں۔ریل ہے یابس،بجلی ہے یاپانی،اینٹ،سیمنٹ اورپتھرہے یامٹی کاکوئی تکڑا۔ہرطرف خسارے ہی خسارے کی باتیں اورشاتیں ہیں۔لیکن پھربھی اوچھل اوچھل کرایسے سرٹیفکیٹ تقسیم کئے جارہے ہیں کہ جیسے ان تین ساڑھے تین سالوں میں کشمیرفتح کرلیاگیاہو۔

مٹھونے امتحان میں زیرومارکس لئے توباپ نے پوچھامٹھوامتحان میں کیاہوا۔مٹھونے ڈرتے ڈرتے دھیمی آوازمیں بولا۔پاپامیرے زیرومارکس آئے ہیں ۔باپ نے جیب سے سوکانوٹ نکالااورمٹھوکے سرپرہاتھ پھیرکریہ کہتے ہوئے وہ نوٹ اسے دیاکہ مٹھویہ زیرومارکس لینابھی ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ملک وقوم کابیڑاغرق کرکے22کروڑعوام کوروٹی کے ایک ایک نوالے کامحتاج بناناواقعی یہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے دس ایمانداراورشانداروزیروں کوسرٹیفکیٹ دیتے ہوئے مٹھوکے باپ کی طرح ان کے سروں پرہاتھ پھیرتے ہوئے یہ کہاہوگاکہ میرے ایمانداروزیروساڑھے تین سال میں ملک کے ساتھ جوکھیلواڑتم نے کھیلی ہے یہ ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ورنہ اس کے علاوہ توان وزیروں کوسرٹیفکیٹ دینے کی اور کوئی وجہ نظر نہیں آرہی۔باہرجن کوجوتے اورگالیاں پڑرہی ہوں ایسے لوگوں اوروزیروں کوپھرسرٹیفکیٹ وایوارڈنہیں دیئے جاتے بلکہ ان کوسسٹم سے ہی باہروالگ کرکے دوسروں کے لئے مثال بنادیاجاتاہے۔

ہماری بدقسمتی ہی یہ ہے کہ یہاں جوسبق یادنہیں کرتااسے ہی چھٹی مل جاتی ہے۔جن وزیروں کوبادشاہ سلامت کے ہاتھوں سرٹیفکیٹ وتعریفی اسنادملی ہیں آپ ان کوصرف چندلمحوں کے لئے عوام کے سامنے کھڑا کردیں پھردیکھیں ان کی کارکردگی کاحال۔انہیں اگرلوگوں نے گدھوں پرنہ بٹھایاتوپھرکہنا۔وزیراعظم عمران خان کو شائدبھولنے کی عادت ہولیکن یہاں کے عوام ذرہ ذرہ بھی یادرکھتے ہیں۔

کون کتناپانی میں ہے ۔یہ بھی ان عوام سے بہتراورکون جانیں۔؟کیاآپ کوخیبرپختونخوامیں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج یادنہیں۔؟ان کی کارکردگی اگراتنی اعلیٰ اوربالاہے توپھرخیبرپختونخوامیں ان کولوگوں نے آنکھیں کیوں دکھائیں۔؟یہ اگراس طرح کے سرٹیفکیٹس کے قابل ہیں توپھران کے سیاسی بھائیوں کولوگوں نے ووٹ کی پرچی کے ذریعے مستردکیوں کیا۔

؟کپتان تواپنی کارکردگی ،حکمرانی اورسربراہی کوبھی تاریخی قراردیتے ہوں گے لیکن وزیراعظم ہاؤس اوربنی گالاکے تاج محل سے باہرنکل کرخیموں اورجھونپڑیوں میں آہیں وسسکیاں بھرنے والوں سے ذرہ پوچھ کے دیکھیں توسہی کہ ان کی کارکردگی،حکمرانی اورسربراہی کیسی رہی ہے۔؟لوگوں نے دن میں ان کوتارے نہ دکھائے توپھریہ ایک نہیں لاکھ بار سرٹیفکیٹس سرٹیفکیٹس کایہ کھیل کھیلیں۔

ان لوگوں نے صدرایوب،نوازشریف اورزرداری کومعاف نہیں کیایہ کپتان اوران کے یہ کھلاڑی پھرکس باغ اورکھیت کی مولی ہیں۔دل کوخوش رکھنے کے لئے ویسے یہ سرٹیفکیٹس والاخیال اچھابہت اچھاہے۔جب تک ملک کی بھاگ دوڑ،حکومت اورطاقت پاس ہے کپتان اورکپتان کے کھلاڑی بندکمروں میں سرٹیفکیٹس سرٹیفکیٹس کایہ کھیل کھیلتے رہیں ۔اس کھیل سے کم ازکم ٹائم اوروقت تواچھاگزرے گا۔

لیکن کپتان اورکپتان کے یہ ایماندارکھلاڑی ایک بات یادرکھیں کہ ان سرٹیفکیٹس کے علاوہ بھی انہیں ایک سرٹیفکیٹ لینی ہے اور معذرت کے ساتھ وہ سرٹیفکیٹ کسی وزیراعظم،کسی صدریاکسی بادشاہ سے نہیں بلکہ عوام صرف عوام سے انہوں نے وصول کرنی ہے۔اصل سرٹیفکیٹ بھی وہی ہے۔صدراوروزیراعظم کے ہاتھوں ملنے والے ان سرٹیفکیٹس اورایوارڈکی تو کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔

ایسے سرٹیفکیٹ توہرگھراورہرکسی کے پاس درجنوں نہیں سینکڑوں پڑے ہوتے ہیں لیکن عوام جوسرٹیفکیٹ دیتے ہیں وہ پھرگھروں میں نہیں پڑے ہوتے بلکہ وہ آئندہ الیکشن اورانتخابات تک ماتھے پراس طرح آویزاں رہتے ہیں کہ دوربہت دورسے بھی ہرکسی کودکھائی دیتے ہیں۔کپتان نے تومعلوم نہیں کس خوشی میں ان وزیروں کوسرٹیفکیٹ دیئے ہیں ویسے آٹا،چینی،گھی،چاول،دال اوردودھ وسبزی سمیت ہرچیزکی قیمت ڈبل وٹرپل کرنے پرصرف ان دس وزیروں کونہیں بلکہ کپتان سمیت سب وزیروں بمعہ مشیروں کو سرٹیفکیٹس اورایوارڈدینے توبنتے ہیں لیکن یادآیاوہ ایوارڈاورسرٹیفکیٹس ان کوکوئی اورنہیں عوام دیں گے۔

اس لئے کپتان کے ہاتھوں سرٹیفکیٹس لینے پرخوشی سے پھولے نہ سمانے والے ان وزیروں کوان سرٹیفکیٹس اورایوارڈکے لئے بھی تیاررہناچاہئیے۔کیونکہ آج نہیں توکل ان کووہ سرٹیفکیٹس اورایوارڈبھی ضرور ملیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :