گاؤں بھی اب گاؤں نہ رہا

بدھ 22 جنوری 2020

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

برسوں بعدگاؤں جاناہوا۔گاؤں کی ہرچیزبدلی بدلی دکھائی دی۔گاؤں پہنچ کرگاؤں ہمیں اورہم گاؤں کودیکھتے رہ گئے ۔ایک لمحے کے لئے یوں لگاکہ یہ وہ ہمارانہیں کہیں نئے پاکستان کاکوئی نیاگاؤں ہے لیکن اللہ بھلاکرے ماماعبدالباری کاکہ جن کی آذان کی آوازسن کرہمیں یقین ہوگیاکہ یہ وہی ہماراوالاگاؤں ہی ہے۔پراس یقین محکم کے بعدآس پاس نظردوڑانے کے بعدبھی ہمیں گاؤں کی اصلیت پرپھرشکوک وشبہات کے کٹھن مراحل سے گزرناپڑا۔

کیایہ وہی گاؤں ہے جس میں ہمارابچپن گزرا۔۔؟
نہیں نہیں ۔یہ ہماراوہ گاؤں نہیں ۔ہماراوہ گاؤں توگاؤں کم اورجنت کاٹکرازیادہ تھا۔وہاں توہرطرف لہلہاتے کھیت اورپھول ہی پھول ہواکرتے تھے۔جن کے خوشبوسونگھنے کے لئے انسان کیاکہ چرندوپرندبھی سات سمندرپارکرکے آتے۔

(جاری ہے)

وہاں کے قبرستان میں وہ کھڈلوبابامدفون تھے کہ جن کے انوارات،برکات اورکمالات کی وجہ سے دشمن بھی اس گاؤں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔

ہمارے بڑے کہاکرتے تھے کہ چوری،ڈکیتی اوردیگرکسی بری نیت سے جنہوں نے بھی اس گاؤں کی طرف آناچاہا۔وہ گاؤں کی حدودمیں داخل ہونے سے پہلے ہی وقتی طورپراندھے ہوجاتے ۔ایک عرصے تک ہمارایہ گاؤں امن کاگہوارہ رہا۔
ہمارے وقت بھی اس گاؤں میں ہرطرف امن ،محبت،اخوت اوربھائی چارے کی صدائیں چارسوگونجتی تھیں۔چھوٹے تھے یابڑے ۔سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مقناطیس کی طرح جڑے ہوتے تھے۔

میں اورتووالے یہ الفاظ توکسی کویادبھی نہیں تھے۔احترام،شرافت اوراخلاقیات کی حدیں توان پرتمام تھیں۔بڑابات کررہاہومجال ہے کوئی درمیان میں ایک لفظ بھی بولے۔اپنے سے عمرمیں ایک دن بھی کوئی بڑااگرکسی راستے پرجارہاہوتوچھوٹے فوراًراستہ ہی بدل دیتے۔اخوت اوربھائی چارے کایہ عالم تھاکہ بخارعبدالخالق کاکاکوہوتااوردردسے قلندرشاہ باجی اوراسحاق ماماتڑپ اٹھتے۔

ہمیں یادہے ایک باریاسراستادکی گائے گم ہوئی تھی اوراس کوڈھونڈنے کے لئے پوراگاؤں نکل آیاتھا۔اس گاؤں میں کوئی محرم تھااورنہ ہی کسی کاکسی سے کوئی پردہ۔گاؤں میں رہنے والے سب مامے،چاچے،باجی ،باجیاں،نانی ،نانیاں،چاچی ،چاچیاں،مامی،مامیاں اوردادے ہواکرتے تھے۔گاؤں میں رہنے والی ہرلڑکی ہماری بہن اورہم سب کے بھائی ہوتے تھے۔مٹی سے بنے گھروں اوران کے دیواروں کی لپائی کے لئے دوردرازسے مٹی لانی ہویاقریبی چشموں میں کپڑے دھونے ہوں حواکی ہربیٹی بے خوف ،بے فکراوربے پرواہ ہوکرجاتی۔

اس آزادانہ ماحول میں بھی حواکی کسی بیٹی پرکبھی کسی کی کوئی بری نظرنہیں پڑی۔اس وقت پردہ تونہیں تھالیکن لوگوں کی آنکھوں میں شرم کے سمندراوردلوں میں حیا کے دریارواں دواں تھے۔ایک دوسرے کے لئے دلوں میں وہ لازوال محبت اورعزت تھی کہ جس نے سب کوتسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرویاہواتھا۔شادی گاؤں کے آخری کونے میں آبادخواجہ لالاکے بیٹے کی ہوتی اورڈھول باجے ہم بجاتے۔

ہمارے سروں پرہرماہ لینٹرڈالنے والے عبدالرحمن ماماجب فوت ہوئے تواس دن پوراگاؤں ایسارویاکہ کوئی آنکھ بھی خشک نہ رہی۔ہمیں یادہے ان کی وفات پرپھرتین دن تک ہم نے ایساسوگ منایاکہ جس طرح آج کسی سگے اورخونی رشتہ دارکی جدائی میں منایاجاتاہے۔گاؤں سے باہربھی کوئی شادی ہوتی یاکوئی غم۔راتیں ہم جاگ کرگزارتے۔اس وقت راتوں میں تاریکی نہیں تھی یادلوں کی روشنی زیادہ تھی کہ دوسروں کی خوشی اورغم میں رات کی تاریکی کابھی احساس نہیں ہوتاتھا۔

ہمارے پڑوسی عبدالخالق کاکاتوسالہاسال گھرکے لان میں چارپائی بچھاکررات کوکھلے آسمان تلے خراٹے مارتے ۔ہمارے داداجان سیداکبرکی بھی لان میں چارپائی بچھاکرسونے کی عادت تھی۔
کئی بارجنگلی ریچھ بھی ملاقات کے لئے آئے مگرپھربھی داداجان لان میں سونے سے بازنہیں آئے۔ڈراورخوف توان کوچھوکربھی نہیں گزراتھا۔وہ لوگ واقعی شیراورریچھ کوانگلی پرنچاتے تھے۔

گھرکوکنڈی یاتالالگانے کاتواس وقت کوئی رواج ہی نہیں تھا۔کسی باجی،چاچی،مامی یانانی کوگاؤں سے اگرکہیں دورجانابھی ہوتاتووہ گھرکوکھلاچھوڑکربچوں کوپڑوسیوں کے گھرپھینک جاتیں۔گاؤں کے ہرگھرکواپناگھراورہرگھرکی ماں اپنی ماں تصورکی جاتی تھی۔گھرسے نکل کراس وقت ایک منٹ میں سوچاچے،چاچیاں،مامے،مامیاں اورہزاروں مائیں ملتی تھیں ،اومیراسوہناپتر۔

توکدھرتھا۔میراپترکہاں جارہاہے وغیرہ وغیرہ کہہ کروہ فرط جذبات اورلازوال محبت میں اتنی چومیاں لے لیتے کہ انسان کے گال تک سرخ ہوجاتے۔ اس دن ہم خالہ زادبھائی مولاناخالدقاسمی کولیکرپورے گاؤں پھرے۔مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک خوب گھومے مگرہمیں کہیں کوئی چاچا،چاچی،ماما،مامی ملی اورنہ ہی کوئی ماں ۔اس دن یقین ہواکہ شہرکی طرح اب گاؤں میں بھی کوئی چاچے ،چاچیاں اورمامے مامیاں نہیں رہیں۔

گاؤں میں پیار،محبت،شرم اورحیاوالے جولوگ تھے وہ بھی مٹی کے ساتھ مٹی ہوگئے۔
اب توگاؤں میں کوئی پیارہے اورنہ ہی کوئی محبت۔بھائی بھائی کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے۔شرم وحیا،ادب واحترام کاتوجنازہ ہی اٹھ گیاہے۔جس گاؤں کے بچے اورجوان سرجھکاکرشرافت اوراخلاقیات کے سائے میں پرورش پاتے آج اس گاؤں کے بچے اورجوان فیس بک وسوشل میڈیاپردنیافتح کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

برسوں بعدگاؤں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورماڈرن قسم کے کئی لوگ توہمیں ملے مگرہمیں ہماراوہ گاؤں نہیں ملا۔وہ لہلہاتے کھیت اورسرسبزمیدان جہاں ہم کرکٹ اورگولی ڈنڈاکھیلتے تھے اب وہ بھی آثارقدیمہ کے کھنڈرات بن چکے ہیں ۔وہ وادیاں اورآبادیاں جہاں پھول کھلتے تھے اب وہاں بھی کانٹوں نے بچے دینے شروع کردےئے ہیں ۔وہ چشمے جہاں انسان اورجانورایک ساتھ پانی پیتے تھے اب وہاں بھی چندکالے نیلے پتھروں کے سواکچھ نہیں ۔

ماماکے بخارپردردسے تڑپنے والے کاکاکے پوتے اورنواسے اب ماماکے پوتوں اورنواسوں کاخون چوسنے اورپینے کے لئے ہروقت بے تاب رہتے ہیں ۔پیار،محبت،اخوت،ادب اوراحترام کی جووراثت ہمارے بڑے چھوڑکرگئے تھے لگتاہے کہ ان کے جانے کے بعدگاؤں والوں نے وہ وراثت بھی کسی قبرستان میں کہیں دفن کردی ہے۔ بڑے نہ رہے توپیچھے گاؤں بھی نہ رہا۔ماناکہ ماضی کے مقابلے میں آج ہم بہت خوشحال،تعلیم یافتہ اورباشعورہوچکے ہیں مگرحقیقت کی دنیامیں ہم چین ،سکون،پیار،محبت،اخوت اورادب واحترام سے دوربہت دورہوگئے ہیں ۔

جدیدسائنس ،مفادپرستی اورمادہ پرستی کی وباء اورمہلک بیماری نے نہ صرف ہم سے ہماراکل بلکہ جنت کاوہ ٹکراہمارا،،گاؤں ،،بھی چھین لیاہے۔نہ ہم پہلے والے رہے اورنہ ہی ہماراگاؤں۔آج اس ملک میں شائدہی کوئی گاؤں ایساہوکہ جہاں انسان اورجانورایک گھاٹ پرپانی پیتے ہوں ۔گاؤں کے جوحالات ہوتے تھے۔لوگوں کاآپس میں پیارومحبت کاجورشتہ ہوتاتھا۔

ایک دوسرے کے لئے آنکھوں میں جوشرم وحیااوردلوں میں جوتڑپ ہوتی تھی اب وہ سب چیزیں اورباتیں صرف وصرف قصے وکہانیوں اورکتابوں تک محدودہوکررہ گئی ہیں ۔صر ف جوزاوربٹگرام نہیں اس ملک میں آج کہیں بھی پرانا والاکوئی گاؤں ہے اورنہ ہی وہ عظیم لوگ۔حسداوربغض کی آگ نے ہمیں گاؤں کی جگہ شہرتونہیں دیالیکن ہم سے ہماراگاؤں ضرورچھینا۔شہرتوہمیں بہت مل جائیں گے مگرگاؤں ۔۔؟وہ توایک ہی تھاجوغالباًاب گاؤں نہیں رہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :