
بارک اوباما کابھارتی د ورہ ،مستقبل کا منظر واضح ہو گیا
جمعرات 5 فروری 2015

یونس مجاز
صاحبو!اب کی بار امریکی شکاری مضبوط جال اور کیل کانٹے سے لیس ہو کر آیا ہے تا کہ بھارت کو پھڑکنے کی مہلت نہ ملے لیکن بھارت کا ٹریک ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ ڈبل گیم کھیل کر روس اور امریکہ سے برابر مفادات حاصل کرتا رہا ہے امریکہ کی خواہش ہے کہ چین کے خلاف بھارت ،جاپان اور امریکہ ایک پلیٹ فا رم پر آجائیں لیکن بھارت اس کے لئے تیار نہیں وہ چین کے خلاف اس حد تک نہیں جائے گا جس کی خواہش امریکہ کر رہا ہے کیونکہ وہ چین سے بھی ایک بڑی معاشی ڈیل کی توقع رکھتا ہے جس کی ایک جھلک ماضی قریب میں چینی صدر کے دورہ بھارت کے دوران دکھائی دی اوباما اس بڑھتی ہوئی قربت کو محدود کرنے آئے ہیں جس میں بظاہر وہ کامیاب دکھائی د یئے لیکن بھارت یہ بھی جانتا ہے کہ دوست تو تبدیل کئے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں ،بھارت شنگھائی تنظیم کا ممبر بھی ہے جس کے سرگرم ارکان میں روس اور چین شامل ہیں بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکینت اور دیگر دفاعی و معاشی مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ اور مغرب کی آنکھوں میں چین سے خطرے کی دھول جھونک رہا ہے باوجود اس کے کہ چین کی پالیسی ہمیشہ جنگ سے گریز رہی ہے چین کی ترقی سے خائف اور خود کو تنہا سپر طاقت برقرار رکھنے کی خواہش رکھنے والا امریکہ اب کی بار بھار ت کو استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے جو چین کی معاشی ترقی کو روکنے کے لئے اس کی سمندری راستہ سے تجارت کو بھارت کے ذریعے مانیٹر کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت کی طرح امریکہ بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے صدر اوباما نے بھارت میں بزنس گروپس سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ بھارت میں چین سے بھی زیادہ کاروبار کے مواقع ہیں تاہم نئی دلی کی سست معاشی اصلاحات اور عالمی معاملات میں امریکہ سے اختلاف راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں اس بیان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ بھارت سے کیا چاہتا ہے؟ دنیا کی نو ایٹمی طاقتوں میں سے شھ کا تعلق اس ریجن سے اور ان سب کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں جلدیا بدیر خطہ میں موجود روس ، چین ،پاکستان اور بھارت جو کہ اعلانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں جب کہ ایران غیر اعلانیہ ایٹمی ٹیکنالوجی کا حا مل ملک ہے اگر اسی طرح اختلافات کی وجہ سے آپس میں دست وگریبان رہے تو کسی وقت بھی ایک چنگاری سارے خطے کو نیست و نابود کر سکتی ہے ؟اگر ان ممالک نے اس امر کا ادراک کرلیا کہ ہزاروں میل دور سے آکر امریکہ اس خطہ کو اپنی ریشہ دوانیوں سے عدم استحکام کا شکار کیوں کئے ہوئے ہے ؟ علاقائی اور فروعی اختلافات کو ہوادے کر ان ہی کے وسائل ان ہی کی تباہی کا سبب کیوں بن رہے ہیں؟ تو امریکہ کو اس خطہ میں جائے پناہ نہیں ملے گی جس نے پہلے روس کو پاکستان کے ساتھ مل کر تباہ کیا اب بھارت کو ساتھ ملا کر چین کے در پے ہے جب کہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی بھی اسے کھٹکتی ہے ایران کا ناطقہ بھی بند کیئے ہوئے ہے اسی لئے تو وہ کبھی بھارت کو پاکستان اور کبھی چین سے لڑانے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے امریکہ چاہے تو کشمیر کا مسئلہ ایک د ن میں حل ہو سکتا لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں ہونے دے گا اسی طرح چین اور بھارت کا سرحدی اختلا ف بھی حل کر لیا جائے تو خطہ میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہو سکتا ہے لیکن امریکہ ایسا کبھی نہیں چاہے گا کہ روس ،چین ،ایران ،پاکستان ،بھارت ،افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستیں ایک ایسا بلاک تشکیل دے لیں جس کی بنیاد شنگھائی تنظیم بن سکتی ہے جو باہمی اختلافات مل بیٹھ کر حل کریں تو خطہ میں امن اور خوشحالی کا خواب شرمندہ ِتعبیر ہو ، اسی تناظر میں امریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاملہ حل کرنے کی تگ ودو میں ہے کہ کسی طرح ایران قابل عمل حل کی طرف آئے تو اس کے ساتھ روابط بحال کر کے اسے بھی گوادر کے تناطر میں چین کے خلاف استعمال کیا جا سکے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان جغرافیائی لحاظ سے خطے کا اہم ملک ہے اوراسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بھی جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا اوباما بھارت میں اپنا اسلحہ بیچنے ضرور آئے ہیں لیکن ان کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نومبر میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کو خود فون کر کے دورہ بھارت پر اعتماد میں لیا تھا جب کہ آرمی چیف جنرل راحیل کو دورہ امریکہ میں زبردست پروٹوکول دیا گیا اور فضل اللہ کے حوالے سے ہر ممکن تعاون کی یقین دھانی کرائی گی جب کہ آرمی چیف نے بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت بھی امریکہ کو فراہم کئے امریکہ کی بے وفائی پاکستان کے لئے نئی بات نہیں حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو دورہ پاکستان کے دوران باور کرایا گیاہے کہ پاکستان اگر چہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت جماعةالدعوة اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کر چکا ہے لیکن بھارت کے متعلق پاکستان کے تحفظات پر مکمل خاموشی کیوں ہے؟ سمجھوتہ ایکسپریس کی ہلاکتیں ،بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی را کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی معاونت جیسے معاملات بھی امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اٹھائے گئے یہ بات بھی نمایاں طور پر پیش کی گئی کہ براہمداغ بگتی جس نے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے بھارتی پاسپورٹ پر سفر کر رہا ہے جان کیری کو بتایا گیا کہ پاکستان بھارت کی جانب سے لاحق تحفظات ا ٹھاتا رہا ہے لیکن نئی دہلی کے اسلام آباد مخالف پرپیگنڈہ کو دیکھتے ہوئے واشنگٹن ان تحفظات کو نظر انداز کر رہا ہے پاک فوج اپنے داخلی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے لیکن بھارت مشرقی سرحدوں پر مسائل پیدا کر رہا ہے کیری کو بجا طور پر یہ بھی باور کرایا گیا کہ پاکستان 65سال سے امریکہ کا اتحادی ہے جب کہ بھارت سویت یونین کا اتحادی تھا لیکن اس کے باوجو د امریکہ بھارت کی طرف زیادہ مائل ہے بھارت کی طرف امریکہ کے اس مکمل اور واضح جھکاوٴ نے پاکستان کو یہ باور کرادیا ہے کہ وہ یہاں تک ہی امریکہ کے لئے مفید تھا جس طرح امریکہ نے نیا اتحادی اپنا لیا ہے پاکستان بھی اب لا محالہ روس کے ساتھ مزید روابط بڑھائے گا جس کی شروعات ہوچکی ہیں روس کو بھی بھارت کی یہ بے وفائی یقیناْ پسند نہیں آئے گی مستقبل میں روس ،چین اور ایران سے پاکستان کی مزید قربت بڑھے گی اشرف غنی کی قیادت میں افغانستان بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کا رویہ اپنائے ہوئے ہے ،سو اتنی بھی مایوس کن بات نہیں اس لئے پاکستان کو اس دورہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ضرورت ہے تو اس امر کی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ملکی مفادات کی طرف توجہ دے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
یونس مجاز کے کالمز
-
تو نے تو فیق دی چلا آیا
پیر 5 ستمبر 2016
-
فراز کی کچھ یادیں کچھ باتیں
اتوار 28 اگست 2016
-
کہ اس اندھیر نگری کا کہیں تو انت ہو نا ہے!!!
منگل 17 مئی 2016
-
کچھ لمحے نیشنل بک فاوٴنڈیشن کے نام !!
پیر 9 مئی 2016
-
مولوی نواز شریف سے لبرل نواز شریف تک !!!
اتوار 13 مارچ 2016
-
دہشت گردی کی نئی لہر اور اس کے مقاصد !!
پیر 8 فروری 2016
-
کیا نیو ورلڈ آرڈرکی تکمیل ہونے جارہی ہے!!
اتوار 10 جنوری 2016
-
وزیراعظم کا دورہِ امریکہ ،منظر پیش منظر !!
پیر 26 اکتوبر 2015
یونس مجاز کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.