
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015

ذبیح اللہ بلگن
(جاری ہے)
سچی بات تو یہ ہے کہ قربانی کے حقیقی فلسفے سے عدم آگاہی کے سبب میں قربانی کے عمل سے ہی اجتناب کرنا چاہتا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اس بار جانور کی بجائے اپنی خواہشات کی قربانی کروں ۔ اب کی بار بکرے نہیں ابلیسی خواہشات کے گلے پر چھری پھیر دوں ۔ میں نے عز م صمیم باندھ لیا ہے کہ اس عید پر اپنی جھوٹی انا کی قربانی دوں گا اور اپنے تمام ناراض رشتہ داروں کے گھر جا کر ان سے معافی طلب کروں گا ۔میں اپنی انا کے جھوٹے گنبد کو ریزہ ریزہ کرتے ہوئے اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کروں گا اور کبھی بھی اس سے معمولی معمولی باتوں پر نہیں الجھا کروں گا ۔ میں اپنے گھر کے سامنے والے شاہ صاحب سے اپنے گھر کے گیٹ کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے بھی کبھی معترض نہیں ہوں گا بلکہ ان سے پیار اور محبت کا رویہ روا رکھوں گا ۔اور ہاں اس بار میں گائے یا بکرا نہیں قربان کروں گا بلکہ رزق حرام کمانے کی قبیح عادت کو قربان کر دوں گا ۔ دفتر کی کرسی پر بیٹھ کر جب میرے سامنے رشوت کے پیسے آئیں گے تو مجھے پیسوں سے زیادہ اپنی رشوت کی عادت کی لاش دکھائی دے گی ۔ جب بچوں کی فیسوں کا وقت آئے گا تو میں کسی کی نہیں اپنی جیب کی طرف دیکھوں گا۔جب میری گھر والی اپنی ضروریات کے حوالے سے مجھ سے مطالبہ کرے گی تو میں اسے صاف صاف کہہ دوں گا کہ کرماں والیے اپنے زائد اخراجات محدود کر لو کیونکہ میری تنخواہ غیر ضروری اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ آپ ٹھیک سمجھے ہیں کہ اس بار بکرے کی بجائے جھوٹ اور منافقت کی عادت کو قربان کروں گا کیونکہ پیغمبر اسلام ﷺکا فرمان ہے کہ مومن کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ اب میں دفتر ، محلے، گھر اور حلقہ یاراں میں سچ اور راستی کو اختیار کروں گا ۔ بہت ہو چکا جھوٹ کا کاروبار اور مکاری کے حربے ۔اب بس سچی زندگی ہوگی ۔میں جانتا ہوں کہ میری سچائی مجھے دنیاوی نفع سے محروم کر دے گی تاہم میں اس پر بھی جی لوں گا اور قبر و حشر کی ندامت سے محفوظ رہنے کی سعی کروں گا ۔ اب میں کوشش کروں گا کہ میرا تعارف ایک جھوٹے شخص کا نہ ہو بلکہ احباب مجھے ایک سچا انسان سمجھیں ۔ اسی طرح اب کی بار میں نے سود خوری کی عادت بھی قربان کرد ینی ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرمایا ہے کہ سود خور کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگا اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ سود کا جو سب سے کم عذاب ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے زنا کرے ۔ لہذا اب میں خوف زدہ ہوگیا ہوں اور آتش جہنم کی تپش محسوس کرنے لگا ہوں ۔اب سوداور حرام خوری نہیں ہوگی ۔مجھے بکرے کے طرز عمل نے یہ باور کروا دیا ہے کہ تمام بنی نوع انسان ایک مالک رکھتے ہیں اور وہ مالک اللہ ہے لہذا یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک بکرا تو اپنے مالک کے حکم پر جان تک قربان کر دے اور آدم کا بیٹا یعنی انسان اپنے مالک کے حکم پر زندگی بھی نہ گزارے ۔ بکرے کے عمل سے میں نے سیکھ لیا ہے کہ اب میں بھی وہی کھا ؤں گا جو میرا مالک مجھے کھلاے گا اور میں بھی وہی پیوں گا جس کی اجازت میرا مالک مجھے دے گا اور جب میرا مالک مجھ سے میری جان طلب کرے گا تو میں وہ بھی قربان کرنے سے احتراز نہیں کروں گا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذبیح اللہ بلگن کے کالمز
-
پاک بھارت کشیدگی
بدھ 28 ستمبر 2016
-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتوار 12 جون 2016
-
مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر
جمعہ 13 مئی 2016
-
مودی کی “اچانک “پاکستان آمد
اتوار 27 دسمبر 2015
-
بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟
ہفتہ 5 دسمبر 2015
-
نریندر مودی کا دورہ کشمیر
پیر 9 نومبر 2015
-
مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015
ذبیح اللہ بلگن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.